مدرسہ ڈسکورسز کا تیسرا بیچ اپنے پہلے ونٹر انٹینسو کے لیے پاک وہند کے فضلا ءکولے کر دسمبر کے آخری ہفتے میں قطر وارد ہوا۔اس کورس کا آغاز 2017 میں ہوا۔ جس کے روح رواں ڈاکٹر ابرہیم موسیٰ صاحب (پروفیسر یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم۔امریکہ) ہیں۔آپ نے دارالعلوم دیوبند اور نددوۃ العلماء سے دینی تعلیم حاصل کی ،اور پھر امریکہ سے امام غزالی کے فلسفہ لسانیات پر پی۔ایچ۔ڈ ی کی۔ آپ کے ساتھ اس کورس میں پاکستان سے مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر اور انڈیا سے مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب بطور لیڈ فیکلٹی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ماہان مرزا کی جگہ اس سال کوئٹہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر شیر علی ترین صاحب کا مدرسہ ڈسکورسز کی ٹیم میں ایک بہترین اور عمدہ اضافہ ہوا۔ آپ برصغیر پاک وہند میں استعماری ومابعد استعماری دور کی مذہبی فکر پر عمدگی سے بحث کرتے ہیں اور روانگی کے ساتھ چھ زبانیں بول لیتے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز ایک خالص تعلیمی اور تحقیقی پراجیکٹ ہے۔ جس میں پاک و ہند سے شرکاء کو باقاعدہ ٹیسٹ اور انٹریو کے بعد ایک مکمل پراسیس کے ساتھ منتخب کیا جاتا ہے۔ حسبِ سابق اس batch میں بھی تقریباً تمام فضلاء پاک وہند کے بڑے بڑے دینی جامعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پاکستان میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، دارالعلوم کراچی، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، دارالعلوم حقانیہ، دارالعلوم غوثیہ محمدیہ وغیرہ کے فضلاء شامل تھے۔ تمام شرکاء مضبوط استعداد کے ذہین فضلاء اور عصری علوم سے بھی آراستہ ہیں، میرے اعداد وشمار کے مطابق اس تیسرے بیچ میں 10 پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، گیارہ پی ایچ ڈی سکالرز اور کافی سارے ایم فل والے تھے۔ بہرحال یہ نیا گروپ اپنے ونٹر انٹینسو کے لیے پچیس سے تیس دسمبر تک کالج آف اسلامک اسٹڈیز، حمد بن خلیفہ یونیورسٹی ، ایجوکیشن سٹی قطر میں جمع ہوا۔ جس میں پاکستان سے چوبیس اور ہندوستان سے انیس جید علماء اور بااستعداد نوجوان فضلاء کے علاوہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کی بعض انڈر گریڈیجویٹ طالبات نے بھی شرکت کی۔
ونٹر انٹینسیو میں شرکت کے لیے پاکستان سے ہماری فلائٹ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ لاہور سے روانہ ہوئی، رات تین دن بجے ہم سب بخیر وعافیت ایجوکیشن سٹی میں واقع ہوٹل پریمئیر ان میں پہنچ گئے۔ہماری آمد سے پہلے انڈین شرکاء پہنچ چکے تھے۔کوشش یہ کی گئ کہ ہر کمرہ ایک پاکستانی اور انڈین شریک ِ کورس کا مشترکہ ہوجس کا یہ فائدہ ہواکہ مختلف پس منظر رکھنے والوں کا آپس میں گہرا ربط و تعلق قائم ہوا اور ثقافتی و مذہبی افکار کا تبادلہ ہوتا رہا۔مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے شرکاء کی طرح ہمارےورکشاپ کی میزبانی بھی دوحہ کے ایجوکیشن سٹی میں واقع حمد بن خلیفہ کے کالج آف اسلامک اسڈیز نے کی۔یہ ہوائی جہاز کے ماڈل کے طرز پر انتہائی دلکش ۔ دیدہ زیب اور جدید انداز سے بنائی گئی انتہائی وسیع وعریض عمارت تھی۔ جس کا ہر کونہ فن ِ تعمیر کا شاہکار تھا۔
25 دسمبر 2019 بروز بدھ کو ورکشاپ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ابتدائی سیشن میں پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر شیر علی ترین نے ورکشاپ کا طریقۂ کار،اہداف اور سرگرمیوں کو واضح کیا اور بعض شرکاء کا تعارف ہوا۔چائے کے وقفے کے بعد نوٹرے ڈیم یونیورسٹی سے ڈاکٹر جوش لوپو نے پیٹر ہیریسن کی کتاب “ Territories of Science and Religion “ کے حوالے سے مذہب اور سائنس کے آپس میں ربط و تعلق پر بڑی عمدہ گفتگو کی ، اور سوالات پیش کیے جس پر شرکاء نےتبادلہ خیال کیا۔ اردو ترجمہ کے فرائض ڈاکٹر شیر علی ترین نے ادا کیے۔ نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد اگلی نشست میں اسی موضوع پر گروپ ڈسکشنز ہوئے اور ہر گروپ میں ایک ممبر نے ان کا خلاصہ پیش کیا۔
مغرب کے بعد نشست میں ڈاکٹر وار ث مظہری اور ڈاکٹر شیرعلی ترین نے امام ابوالحسن عامری(المتوفیٰ 381ھ) کی کتاب "الاعلام بمناقب الاسلام” اور مرزا مظہر جانِ جاناں کے مکاتیب کی روشنی میں اسلامی سیاسی حاکمیت اور برتری پر لیکچرز دیے اور اس بارے میں مغربی مفکرین کے آراء کو پیش کیا۔اور جانبین کے درمیان اسلام کی جو فوقیت بیان کی گئی وہ کس حد تک آپس میں مختلف ہے۔ اس پر مناقشہ کیا گیا۔
26 دسمبر ورکشاپ کا دوسرا دن تھا، کل کے محاضرات سے متعلق اایک اور دلچسپ مضمون شامل کرکے مناقشے کو جاری رکھا گیا۔ ڈاکٹر عمار خان ناصر نے بانیء دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کے مشہور مناظرہ "مباحثہ شاہجہان پور” کا خلاصہ پیش کیا ۔ اور ایک دلچسپ انداز میں اس مناظرے کی گفتگو سے دس سوالات غیر مرتب انداز میں شرکاء کے سامنے رکھ دیے ۔ پھر ان سوالات کو ترتیب دینے کے لیے شرکاء کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا ۔ یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا جس کاخاطرخواہ فائدہ ہوا اور تمام شرکاء نے اس کو سراہا۔ چائے کے وقفے کے بعد اس پر مزید بحث و مباحثہ ہوا اور بیشترشرکاء نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ ظہر اور لنچ کے بعد شام تک وقفہ رکھا گیا۔ مغرب کے بعد مشہور مغربی باحث یوحانن فرائیڈمین کی کتاب “Tolerance and Coercion in Islam” پر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر وارث مظہری نے اپنے ملاحضات پیش کیے کہ کس طرح Tolerance کے جدید تصور کو معیار بناکر مصنف نے تفسیر ،حدیث اور فقہ کی روشنی میں اسلامی روایات کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا۔ اس پر نہایت عمدہ مناقشہ ہوا اور شرکاء کے سوالات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
27 دسمبر کو تیسرا دن جمعہ کا تھا، اس لیے صرف ایک سیشن رکھا گیا۔ جس میں ڈاکٹر عمار ناصر اور ڈاکٹر وارث مظہری نے ابوحیان توحیدی کی کتاب "الامتاع والمؤانسۃ” پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ جس میں متی بن یونس اور ابو سعید السیرافی کے درمیان ہونے لفظ اور معنیٰ کے دلالت اور مفہوم پر ہونے والے مناظرے کا خلاصہ پیش کیا گیااور شرکاء نے اس پر اپناتبصرہ اور مباحثہ کیا۔ اس کے بعد نمازِ جمعہ کے لیے وقفہ دیا گیا۔ جمعہ کے بعد لنچ اور پھر شرکاء کو پہلےقطر میوزیم آف اسلامک آرٹ کا وزٹ کرایا گیا۔ ساحلِ سمندر کے پاس کئی ایکڑ پر پھیلے پانچ منزلہ عمارت فنِ تعمیر کا شاہکار تھی۔جس میں مختلف ادوار اور مشرق ومغرب میں پھیلے مسلم ثقافتوں کی تاریخ کو نہایت عمدگی اور سلیقے سے محفوظ کیا گیا تھا۔
اس کے بعد ہمیں قطر کے مشہور بازار سوق واقف کے پاس واقع بیت جلمود میوزیم لے جایا گیا۔ یہ شاید دنیا کا واحد میوزیم ہے جہاں مختلف ممالک بشمول قطر میں غلامی کی تاریخ ، مظاہر اور اشکال محفوظ کی گئی ہیں۔ کچھ کمروں میں بڑی بڑی سکرینوں پر غلامی نطام پر مبنی ویڈیوز دکھائی جا رہی تھی۔ یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی تھی جہاں غلامی سے متعلق بنیادی مصادر ومراجع پر مشتمل کتابیں موجود تھی۔ یہاں سے ہم سوق واقف گئے۔یہ دوحہ کا سوسالہ قدیم ترین بازار ہے،جو آج بھی پرانے طرز پر قائم ہے۔ یہاں ہر وقت سیاحوں اور مقامی لوگوں کا رش ہوتا ہے اور مختلف علاقوں کے لوگ اپنی روایات اور ثقافتوں کو مختلف انداز سے پیش کررہے ہوتے ہیں۔ تمام شرکاء کے لیے اسی بازار میں واقع ایک ترکش ریسٹورنٹ "دی ویلج ” میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ ڈنر کے بعد کچھ دیر کے لیے کورنیش گئے اور پھر ہوٹل واپسی ہوئی۔
28 دسمبر کو پہلے سیشن کا آغاز ڈاکٹر سہیرا صدیقی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، جارج ٹاؤن یونیورسٹی ، دوحہ کیمپس) کے لیکچر سے ہوا انہوں نے علم معرفت کا تعارف، تاریخ اور مصادر پر بحث کی۔ اور قانون وشریعت کا علم معرفت سے کیا رشتہ ہےنیز جدید مسلم معاشرے میں علم معرفت کا کیا کردار ہے،اس کو عمدگی سے واضح کیا۔ اس پر بھرپور مناقشہ ہوا اور اساتذہ سمیت تقریباً تمام شرکاء نے پینل ڈسکشن کے ذریعے اپنے ملاحظات پیش کیے۔ شام کے وقت مہمان اسکالر ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی کا لیکچر تھا جو اسلامی اقتصادیات کے عالمی سطح کے ممتاز اسکالر اور اس موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، آپ نے تفصیل کے ساتھ "الفقہ الاسلامی بین النصوص والتراث والمعاصرۃ وقفاً لفقہ المیزان” کے موضوع پر بڑی عمدگی سے بحث کی ، اور پھر بڑی فراخ دلی کے ساتھ شرکاء کی جانب سے تقریباً بیس سے ذیادہ سوالات کے جوابات دیے ۔ ڈنر کے بعد شرکاء کو ساحل سمندر کورنیش کا وزٹ کرایا گیا اور خلیج فارس میں کشتیوں میں گھومے پھرے۔
29 دسمبر بروز اتوار کو ڈاکٹر رعنا دجانی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، الجامعہ الہاشمیہ اردن) نے اسلام اور ارتقاء کے حوالے سے ویڈیو لنک کے ذریعے zoom پر تفصیلی لیکچر دیا، اور آخر میں چائے کے وقفے کے بعد بھی مسلسل ایک گھنٹہ شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے۔شام کے وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے مشہور استاذ ڈاکٹر ادریس آزاد صاحب نے سائنس اور ارتقاء کے کائناتی قوانین کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر حیات کی ابتداءا اور نشو ونما پر اپنی پرمغز پریزینٹیشن پیش کی، جس سے حاضرین کی سائنس کے حوالے سے اپنی معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوا،اور پھرسوالات کے سیشن کے بعد اپنی شاعری سے شرکاء کو محظوظ کیا۔
30 دسمبر ورکشاپ کا آخری دن تھا،پہلے سیشن میں ڈاکٹر عمار ناصر صاحب نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب اقتضاء صراط المستقیم کی روشنی میں مسلم ثقافت اور تشبہ بالکفار پر بحث کی، ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ایک آرٹیکل کے حوالے سے مسلم تہذیب اور ثقافت پر گفتگو کی۔ چائے کے وقفے کے بعد شرکاء نے اپنے مشاہدات اور آئندہ کے لیے تجاویز پیش کی، جس کو اساتذہ کرام نوٹ کرتے رہے اور سراہتے رہے۔ظہر اور لنچ کے بعد ایجوکیشن سٹی ہی میں واقع قطر نیشنل لائبریری کا آفیشل وزٹ کرایا گیا، یہ عظیم الشان لائبریری بیس لاکھ کتابوں پر مشتمل ہے، یہاں دینی علوم وفنون پر مشتمل کتب/مصادر ومراجع کے کئی کئی ایڈیشن دکھنے کو ملے۔ایک خاتون نے لائبریری کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بریفنگ دی اور یہاں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتایا۔ تہہ خانے میں قدیم مخطوطات، نایاب کتابیں اور مکاتیب محفوظ کیے گئے ہیں۔
شام کے وقت الوداعی سیشن اور ڈنر تھا جس میں بقیہ شرکاء نے اپنے تاثرات اور تجاویزپیش کیں اور آخر میں اساتذہ کرام نے الوداعی کلمات کہے جس میں انہوں نے اسلامی فکری روایت کے اس پہلو پر گفتگو کی کہ ہم سب دینی مدارس کے فضلاء اپنے مذہبی متون ، قدیم وجدید تراث ، الہیات اور اخلاقیات سے متعلق روایتی منہج کو فلسفہ، سائنس سے متعلق نئے علمی نظریات وافکار کی روشنی میں بروئے کار لائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ اس کورس کے نتیجے میں علماء کرام کے اندازِ فکر میں مثبت تبدیلیوں کا ذریعہ اور محرک ثابت ہوگی۔ دینی مدارس کے ساتھ ربط وتعلق کے متعلقق گفتگو کرتے ہوئے رقت امیز لہجے میں ڈاکٹر عمار ناصر نے کہا مدرسہ ہماری تاریخ اور تہذیب کا کسی نہ کسی رنگ میں بچا ہوا واحد ادارہ ہے۔ہماری تاریخ وتہذیب نے جتنے ادارے قائم کیے تھے، وہ سارے مختلف حوادث کی نذر ہوچکے ہیں۔یہ ایک واحد ادارہ ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے اوراسے لوگوں کا اعتمادآج بھی حاصل ہے۔
ہم داخلی طور پر جتنی بھی تنقید کریں مگر اس کی تہذیبی اہمیت کا انکار ممکن نہیں۔ ایک زمانہ مجھ پر بھی ایسا گزرا ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ ادارہ اب کسی کام کا نہیں رہا اور اسکی جگہ کسی دوسرے ادارے کو سامنے آنا چاہیےمگر اب میں شرح صدر سے اس کی اہمیت کا قائل ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ تہذیب و تاریخ میں ادارے آسانی سے نہیں بنتے،ایک ادارے کو اپنا نام بنانے اور اپنے کام سے متعلق صحیح طور پر آگاہ کرنے میں صدیاں لگتی ہیں۔بہت سے مسائل آئے، بہت ساری چیزوں کا سامنا کرنا پڑا ، تاریخ نے بڑے عجیب کھیل ہمارے ساتھ کھیلے مگر اس ادارے کی قدروقیمت کو سمجھنا اور جس علمی روایت کا یہ ادارہ امین ہے،ہمارا ایک تاریخی ورثہ ہے جس کامدرسہ ایک بڑا حصہ ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کے ہماری ذات پر جتنے حق ہیں، انہیں ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
الوداعی ڈنر کے بعد اسی رات چار بجے پی آئی اے کی پرواز سے رونہ ہوئے اور صبح 9 بجے اسلام آباد ائیرپورٹ بخیر وعافیت پہنچ گئے۔ خلاصہ یہ کہ یہ کورس اب تک ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا ،اوراس پہلے ورکشاپ میں کئی چیزوں سے ہم نے بہت استفادہ کیا۔میرااحساس ہے کہ اب ہم پہلے سے بہترطورپرتحریراورتبادلہ افکارکے ذریعہ دوسروں تک پیغام پہنچا سکتے ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ی کہ مدرسہ ڈسکورسز ایک خالص تعلیمی وتحقیقی پروگرام ہے جس کا مقصد مدارس کے روایتی طرز فکر کو برقرار رکھتے ہوئے معاصر افکار ورجحانات کے تناظر میں دینی حقائق کو سمجھنا اور عصر حاضر کے چیلینجز کا سامنا کرتے ہوئے جدید اسلامی فکی کی تشکیل ہے۔
ہمارے لیے اس کورس کے نصاب میں تاریخ، فلسفہ،سائنس اور علم الکلام سے متعلق مراجع ومصادر کا درجہ رکھنے والی کتابوں کا انتخاب کیا گیا جو طلبہ کے فکری دائر ے کو وسیع کرنے میں ممد اور معاون ثابت ہوتی ہے۔یہ پروگرام اپنی پوری ترتیب کے اعتبار سے خالص ایک علمی اور نظری سرگرمی ہے ، جس میں ہم اپنی شاندار علمی روایت سے کسی درجہ میں واقف ہوئے۔ ہم نے اس کورس میں آنے کے بعد مسلم فلاسفہ کے جو مختلف رجحانات فکر ہیں، ان تک رسائی حاصل کی عقل اور نقل کے تعارض میں اشاعرہ، ماتریدیہ، امام رازی، غزالی اور امام ابن تیمیہ کا مؤقف کیا رہا ہے؟ان فوائد کے ضمن میں ہمیں یہ بھی فائدہ ہوا کہ کس طرح علمی انداز میں ہم گفتگو کریں، نیزاپنی بات کو مدلل انداز میں کیسے پیش کیا جائے؟ بحث و مباحثہ میں کھلے ذہن کے ساتھ بغیر کسی تحقیر وتنقیص کے ساتھ شمولیت ، اور اپنی بات پر ڈٹے رہنے کی بجائے دوسروں کو ان کا مدعا پیش کرنے کا موقع دینے کا سلیقہ حاصل ہوا۔