تو کیا نواز شریف لینن ہیں؟

اہم یہ نہیں کہ مسلح افواج کی تینوں شاخوں کے سربراہوں کی ریٹائرمنٹ عمر اور عہدے میں توسیع کی مدت کو باضابطہ قانونی شکل نہیں ملنی چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ دو ایوانی پارلیمان اس بابت جن ترامیم کی منظوری دینے والی ہے انھیں پاکستان کی کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر کسی کو بھی چیلنج کرنے کا حق نہیں ہو گا۔

کیا کمال بات ہے کہ جس سپریم کورٹ میں صدر اور وزیرِ اعظم کے اختیارات و اقدامات سمیت پورا آئین چیلنج ہو سکتا ہے اسی سپریم کورٹ کے دائرہِ اختیار سے آرمی ایکٹ کی مجوزہ ترامیم خارج کرنے کی تجویز ہے اور حزبِ اختلاف بھی مجوزہ بل کی اس شق کو چیلنج کرنے کے موڈ میں نہیں۔

حالانکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو چھ ماہ کے اندر سیدھا کرنے کی جو قانونی مہلت دی ہے وہ آرمی ایکٹ میں اس سقم کو چیلنج کرنے والے ایک شہری کی درخواست پر ہی دی۔

اس پر طرہ یہ ہے کہ جس حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس بابت قانون سازی کا بیڑہ اٹھایا ہے اسی حکومت نے اسی فیصلے کے خلاف اسی سپریم کورٹ میں نظرِثانی کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے اور پھر اس نظرِثانی کی درخواست پر فیصلے کا انتظار کیے بغیر گولی کی رفتار سے قانون میں ترامیم پر بھی کمر بستہ ہے۔

اور حزبِ اختلاف کی سرکردہ جماعتیں بھی اس نکتے کو خاطر میں لائے بغیر سرکاری ترمیمی بل کو اسی ہفتے دو ایوانی پارلیمان سے چند گھنٹے کی رسمی بحث کے بعد منظور کروانے کے لیے حکومت کی ہمنوا ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ ارکانِ اسمبلی اور سینیٹرز نے مجوزہ بل کی مخالفت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

مگر فراست کا تقاضا تو یہی ہوگا کہ یکسر مخالفت یا واک آؤٹ کا آسان راستہ اختیار کرنے کے بجائے اس بل کو زیادہ سے زیادہ حقیقت پسندانہ اور جمہوری روح سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ٹھوس متبادل تجاویز سیر حاصل بحث کے ذریعے بل میں شامل کروانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔

حزبِ اختلاف کو یہ شکایت تو ہے کہ اتنے اہم معاملے پر حکومت نے انھیں پیشگی اعتماد میں نہیں لیا مگر خود حزبِ اختلاف کے اندر باہمی ہم آہنگی کا عالم یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی متفقہ پارلیمانی لائحہ عمل اختیار کرنے یا بل پر تفصیلی غور و غوض کے لیے اب تک کسی نے کل جماعتی اپوزیشن اجلاس طلب کرنے کی بات نہیں کی۔

سب سے آسان تو یہ ہوتا کہ جیسے سپریم کورٹ میں سینیئر ترین جج کا چیف جسٹس بننے کا استحقاق تسلیم کیا جاتا ہے یہی فارمولا مسلح افواج کی سربراہی پر بھی لاگو کر کے مدتِ ملازمت کو باضابطہ بنانے کا فرض انجام پا جاتا۔

مگر ہم چونکہ ہمیشہ سے ہر اہم معاملے میں مشکل پسندی کی پگڈنڈی سے گزر کے کسی سہل سرائے میں بستر بچھانے کے عادی ہیں لہذا سیدھے، آسان اور کامن سینس والے راستے پر چلنے میں لطف نہیں آتا۔ ہمیں تو کسی کو سجدہِ تعظیمی بھی کرنا ہو تو اس کی تصویر بنوانے کی علت ہے۔

رہی بات عوامی اور سوشل میڈیا کے واویلے کی کہ ہائے ہائے نواز شریف کیسے مان گیا یا بلاول کی کیا مجبوری تھی۔ ان قومی جماعتوں نے اپنے جمہوری انقلابی موقف سے تیز رفتار یو ٹرن کیوں لے لیا، چند ذاتی مفادات و سہولتوں کے لیے جمہوری روح کو ایک بار پھر نیلامی کے ٹھیکے پر کیوں چڑھا دیا۔

ایسے معصومانہ عوامی ردِعمل پر صرف پیار ہی آ سکتا ہے۔ مجھے ہمدردی ہے ان سب سے جو ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بانی نواز شریف میں کوئی لینن، انگشتِ شہادت کو آواز کی رفتار سے ہلانے والے شہباز شریف میں کوئی منڈیلا، سلیکٹڈ پرائم منسٹر کے گردانی بلاول میں کوئی کاسترو، اسفند یار ولی میں کوئی ولی، مولانا فضل الرحمان میں کوئی ماؤزے تنگ، عمران خان میں کوئی آیت الله خمینی، اینکروں میں کوئی ڈیوڈ فراسٹ و رویش کمار اور کالم بازوں میں کوئی محمد علی جوہر تلاش کر رہے ہیں۔

ان سب سادہ لوحوں سے زیادہ حقیقت پسند تو اپنے شیخ رشید احمد ہیں۔ فرق ہے تو بس یہ کہ اگر شیخ رشید نیوز پرنٹ پر شائع ہونے والی پیش گوئی ہیں تو باقی مرغِ راہ نما چکنے کاغذ پر چھپے ہوئے شیخ رشید ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے