مدرسے کی کہانی

دنیا میں پہلے تعلیم وتدریس آزاد ہوا کرتی تھی، یعنی حکومتیں اپنے تعلیمی اداروں کو اپنے قابُو میں نہیں رکھتی تھیں بلکہ اُنہیں آزادانہ علمی سرگرمیوں کا موقع دیتی تھیں۔ لیکن نوآبادیاتی عہد میں استعمار نے اپنی ضرورتوں کے تحت دنیا میں رائج اِس خوبصورت نظامِ تعلیم کا خاتمہ کردیا۔ مثلاً ہندوستان میں مدارس کا ایک آزادانہ نظام موجود تھا جو مغلوں کے عہد میں کامیابی کے ساتھ جاری تھا لیکن انگریزوں نے ہندوستانیوں کو اپنی ضروریات کے تحت ڈھالنا چاہا تو اُنہیں سب سے زیادہ رکاوٹ اسی آزادانہ تعلیمی سرگرمی کی طرف سے پیش آئی، چنانچہ اُنہوں نے اس نظام کوختم کرنے کی ٹھان لی۔

چونکا دینے والی خبریہ ہے کہ ’’مدارسِ دینیہ‘‘ کو فقط دین کے مدارس قراردینے والےبھی خوداستعماری دورکے مستشرقین ہیں۔ ڈاکٹرناصرعباس نیّرکے الفاظ میں،

’’اگرہمیں یہ کہاجائے کہ جدید عہد کے سب سے بڑے تشدد کا نام لیں تو ہم بلاتوقف استعماری مستشرقین کےاس علمیاتی تشدد کا نام لیں گےجواُنہوں نے مشرق کے تصورمیں سے فطری علوم (سائنس) کے خارج کرنے کی صورت میں کیا‘‘۔

آج ہم جس مدرسہ کو فقط دینی مدرسہ کے طورپر جانتے ہیں، ماضی میں یہ فقط دینی مدرسہ نہیں تھا۔ مثلاًڈاکٹرناصرعباس نیّرنے ہی رچرڈ پارکر، کے حوالے سے لکھاہے کہ پارکر نے اپنے رسالے ’’مشرقی ادب کی افادیت پر ایک مضمون‘‘میں تسلیم کیا ہے کہ ’’مغربی دنیا ارسطوسے اُس وقت واقف ہوئی جب عربی سے لاطینی میں اس کے تراجم ہوئے‘‘۔ دراصل مسلمانوں کے دورِ عروج میں تشکیل پاجانےوالا نظامِ مدارس اسلامی تہذیب کا سب سے نمایاں شاہکارتھا، جسے کچل دینے کی خارجی تمنّا تو کبھی پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی لیکن اس نظام کے زوال پاجانے کی داخلی وجوہات اتنی شدید تھیں کہ یہ نظام گزشتہ صدی میں بُری طرح سے نڈھال ہوکررہ گیا۔

ایک زمانہ تھا کہ انہی مدارس کے آزادانہ علمی ماحول میں، فطری علوم، فلسفہ و منطق اورشعروادب اُسی جوش و خروش کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے جس جوش و خروش کے ساتھ دینی علوم پڑھائے جاتے تھے۔ لیکن استعماریت زدہ اقوام میں پیدا ہوجانے والے معذرت خواہانہ رویّے کا انجام اصولاً یونہی ہوناچاہیےتھا کہ جس طرح کا بیانیہ استعمار اختیار کرتا، استعمارزدگان بھی اُسی طرح کا بیانیہ اختیارکرلیتے۔ استعماری دورکے مستشرقین نے مشرقی علوم کو دانستہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور بالاصرار پورے مشرق (اور مسلمانوں) کو یہ باورکروایا کہ اُن کے ہاں فطری علوم سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے کیونکہ مشرق فقط روحانیت کا نمائندہ ہے اورصرف ماورائی قوتوں اورعقائد کے بارے میں غوروفکر کو علم سمجھتاہے۔

آج کُوپرنیکس (1473-1543) کے اِس انکشاف کو کہ’’ زمین کائنات کا مرکز نہیں، بلکہ زمین تو سُورج کے گرد گھوم رہی ہے‘‘کوپرنیکی انقلاب کا نام دیا جاتاہے اورکہاجاتاہے کہ کائنات کے جدید تصورکو سمجھنے کا آغاز یہیں سے ہوا۔ لیکن خود کیپلر(1571-1630) نے کوپرنیکس پرنصیرالدین طوسی اورمؤیّد الدین عُرضی کے فارمولے یعنی ’’طُوسی کپل اورعُرضی لیما (Tusi couple and Urdi Lemma)‘‘ کو بغیروضاحت اورذکر کے استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔

ابنِ شاطر نے سب سے پہلےاس شک کا اظہارکیا تھا کہ ’’زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے‘‘۔ وہ دمشق کے ایک مدرسے سے متعلق تھا اورفقط نمازوں کا نظام الاوقات درست کرنے کی لگن میں اس نے سیّاروں کی رفتاروں (ولاسٹیوں) کو تاریخِ علم میں پہلی بار اپنی توجہ کا مرکز بنالیا۔ یہ بات بھی مصدقہ ہے کہ کوپرنیکس نے ابن شاطر کے ماڈل اورمساواتوں کو اپنے ’’ہیلیوسینٹرک (Heliocentric) ‘‘ انقلاب کی ایجاد میں استعمال کیا۔

دمشق اوربغدادکے مدارس ہوں یا بخارا وسمرقندکے مدراس، مشرقی مدارس نے دنیا کو اپنے وقت کے جدید علوم کے ساتھ جوڑے رکھا۔ یہ جو سمجھاجاتاہے کہ مسلمانوں کے زوال اور یورپیوں کی سائنسی ترقی کے درمیان وقفہ یا وقت زیادہ ہے یہ بالکل غلط بات ہے۔ آخری مسلمان سائنسدان سمرقند کی لیبارٹری میں دیکھےگئے۔یہ الغ بیگ کی رسدگاہ تھی۔ اوریہ پندرھویں صدی کی بات ہے۔

مسلمانوں سے پہلے کائنات کے تین ماڈل موجود تھے۔ ارسطوکاماڈل جو میکانکی تھا۔ جس کا دائرہ، کامل دائرہ (Perfect Circle) تھا اورجس کا مرکزسیّارۂ زمین تھا۔ دوسرے نمبرپرفلاطینوس کا ماڈل تھا۔ یہ روحانیت زدہ ماڈل تھا۔ کائنات کے اس ماڈل سے ہی انسانیت کے لیے سبق اورمقصد کی موجودگی کو اخذ کیا جاسکتا ہے۔تیسراماڈل بطلیموسی ماڈل کہلاتاہے۔ بطلیموسی ماڈل ریاضیاتی ہے۔

مسلمان ماہرینِ فلکیات نے اِن ماڈلوں کو یکجاکرکےدیکھنا شروع کیا۔ لیکن مسلمانوں میں مشاہدے کا رجحان غالب تھا۔ یقیناً اس کی وجہ قران کا وہ درس تھا کہ کائنات پرغوروفکرکرو! اپنے حواسِ خمسہ، خصوصاً سمع و بصرکو استعمال کرتے ہوئے رات دن کے اختلاف پر نظرڈالو! زمین میں سیرکرو! اورغورکروکہ پہاڑوں کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں؟ پھلوں اوردرختوں کی اتنی انواع کیوں ہیں؟ معلوم کرنے کی کوشش میں لگے رہو کہ اَلوان و اصوات کی کیا حقیقت ہے؟ مسلمانوں کا طریقہ استنتاجی (انفرینشیل) تھا۔ وہ مادی سچائی (Material Truth) کو ڈھونڈنے کے شوقین تھے۔ کیونکہ فطری علوم کی طرف اُن کا رجحان فطری(نیچرل) تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کو ایسی ریاضی کی ضرورت پیش آئی جو بہت زیادہ ٹھیک (Précised) اورفطرت، یعنی کائنات کے بہت زیادہ قریب ہو۔ اُنہیں سمتوں ، خطوں اوررفتاروں کو مانپنا پڑا۔ اُنہیں ڈرائنگز بنانا پڑیں اورپہلی بار خالص تکنیکی (Technical) زبانیں استعمال کرنا پڑیں۔

اسلام سے پہلے تک کائنات میں ستاروں کی کُل تعداد 1022 تھی۔ یہ بطلیموسی ماڈل تھا۔ کل ستارے 1022 اور کل جھرمٹ (Constellation) فقط اڑتالیس (48)۔ پھر بھی کائنات کو اتنا بڑا سمجھا جاتا تھا کہ اسے جان لینا ناممکن خیال کیا جاتا تھا۔ بطلیموس نے کہا تھا کہ زمین حرکت نہیں کرتی بلکہ ساکن ہے کیونکہ اگر زمین حرکت کررہی ہوتی تو زمین پرپڑی ہوئی چیزیں لڑھکنے لگتیں اورجانورہوا میں اُڑتے ہوئے دکھائی دیتے۔ دراصل ارسطو کا ماڈل کائنات کے مشاہدے پر مشتمل تھا، بطلیموس نے اسے ریاضیاتی رنگ دے کر کافی الجھادیاتھا۔ لیکن جب مسلمانوں نے ان تینوں ماڈلوں کو یکجا کرکے دیکھا تو ان میں موجود خامیاں اُن پر عیاں ہونے لگیں اوریوں پہلی بارکائنات کو سمجھنے کے لیے ریاضیاتی مساواتوں کاوجود سامنے آیا۔ مسلمان ریاضی دانوں کا خیال تھا کہ اگر زمین کائنات کا مرکز ہے تو پھر ایک تنہا (سِنگل) ریاضیاتی فارمولا اس کی وضاحت کے لیے کافی ہونا چاہیے ۔

ابنِ سینا اور ابنِ رُشد کو بطلیموس کا ماڈل پسند نہیں تھا۔ ابن الہیثم نے تو باقاعدہ ’’شکوک علی البطلیموس‘‘ نامی کتاب لکھ کر بطلیموس کے ماڈ ل پر شکوک و شبہات کا اظہارکیا۔ ابن الہیثم نے کہا کہ بطلیموسی ماڈل فرضی ہے نہ کہ حقیقی۔ مشاہدے کے ساتھ اِس کا کوئی تعلق نہیں۔ نُورالدین بطروجی، اُندلسی نے اعلان کیا کہ بطلیموس نے زمین کو کائنات کا مرکز ماننے کے لیے زمین سے باہر جس نقطے کو مرکزِ مشاہدہ بنایا ہے وہ مشاہدے اور ریاضی کے اُصولوں پر پورا نہیں اُترتا۔ ابن شاطرنے اعلان کیا کہ ’’زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے‘‘۔ اگرچہ ابن شاطر اپنے کام میں بطلیموس کے ماڈل کو ہی استعمال کرتارہا اور اس کےہاں کوئی ایسا الگ ماڈل نہیں ملتا جس میں زمین کائنات کا مرکز نہ ہو لیکن وہ اپنی تحریروں میں زمین کو کائنات کا مرکز تسلیم کرنے سے انکارکرتاہے۔

بطلیموس کے ماڈل کو چیلنج کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں میں قران وحدیث یا عقائد کی رُو سے زمین کو کائنات کا مرکز ماننا لازم نہیں تھا۔ قران میں تو کہاگیاتھا کہ تمام اجرامِ فلکی تیررہے ہیں اورآسمان بغیرستونوں کے بلند ہیں گویا معلق ہیں۔ قران نے تو کہا تھاکہ، مِن جِبَالٍ۬ فِيہَا، یعنی آسمان میں پہاڑہیں ۔ قران نے ستاروں کے محل ِّ وقوع کی شہادت پر کلامِ الٰہی کے وحی ہونےکی دلیلیں دی تھیں۔اس سب پر مستزاد قران نے زمین کے کناروں سے نکل جانےکی شہ دی تھی۔ الغرض قران کے طلبہ کے لیے زمین کا مرکزِ کائنات رہنا ویسا ضروری نہیں تھا جیسا مسیحیت میں ہوسکتا تھا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ابتدائی دورکے ہیلیوسینٹرک ماڈل کو ماننے والے سائنسدان ابن سینائی تھے، ارسطوکے پیروکارنہیں تھے ۔ ہیلیوسینٹرک یعنی وہ ماڈل جس میں سُورج کائنات کا مرکز ہے۔ نصیرالدین طوسی نے بطلیموس کے ماڈل کو چیلنج کیا اورزمین کے متحرک ہونے کےحق میں دلائل دیے۔ طوسی کو ہلاکوخان نےمراغہ (آذربائی جان) میں رسدگاہ بناکردی توطوسی نےگویا یورپ کی جدید فلکیات کی بنیادیں رکھ دیں۔ طوسی خودابن ِ سینائی تھا نہ کہ ارسطالیسی۔ یہیں یورپ کے طالب علم آنا شروع ہوئے اور یہیں سے یورپ کی جانب طبیعات (فزکس) کا علم منتقل ہوا۔یہیں طوسی اورعُرضی کا مشہورفارمولا طُوسی کپل اورعرضی لیماوجود میں آیا۔ طوسی کپل اورعرضی لیما کے استعمال سے ہی کوپرنیکس نئے تصورِ کائنات کو پیش کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ساری نسیبی (Sari Nusseibeh) کے الفاظ میں،

“Copernicus used this revolutionary concept to shift the focus of the orbital system to the sun.”

نصیرالدین طوسی نے کائنات کا نیا ماڈل پیش کیا۔ اس نے اپنے ماڈل کی بنیاد زمین کے مرکزِ کائنات ہونے پر نہ رکھی ۔ اُس نے بطلیموس کے ماڈل کو تبدیل کردیا۔ایک فارمولا ’’طُوسی کپل‘‘ متعارف کروایا۔ اس نے بطلیموس کے ایکوئنٹ (Equant) کی جگہ ایک نئے دائرے کا اضافہ کردیا۔ یوں گویا طوسی کپل کا چھوٹا دائرہ جو بڑے دائرے کو اُس کے ٹینجنٹ (Tangent) سے چھُورہاتھا، اندرونی طرف کو الٹی حرکت کرنے کی وجہ سے بطلیموس کے ماڈل کی اس خرابی کو دور کررہاتھا جس کی وجہ سے سیارے کبھی آگے اور کبھی واپس پیچھے کو جاتےہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ’’فلااُقسم بالخنس الجوارالکنس‘‘ کی روشنی میں کام کرنےوالا مدرسے کا یہ طالب علم ہیلیوسینٹرک ماڈل کی طرف اتنا آگے بڑھ آیاتھا کہ اب کوئی بھی آسانی کے ساتھ اگلا مرحلہ طے کرسکتاتھا۔ جیسا کہ طوسی کے شاگردشیرازی نے کہابھی تھا کہ اِس ماڈل میں تو سورج مرکزِ کائنات معلوم ہوتاہے۔یہ الگ بات ہے کہ طوسی نے سورج کو بھی مرکزِ کائنات نہ مانا۔ یہ گویا زیادہ بڑی سوچ تھی۔ کیونکہ آج ہم جانتے ہیں کہ سورج مرکزِ کائنات نہیں ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے طُوسی کا ماڈل یورپ میں مقبول نہ ہوسکا۔ البتہ اس کی مساواتیں اورفارمولے کوپرنیکس نے استعمال کرلیے۔

طوسی کے شاگرد شیرازی نے طوسی کے ماڈل میں موجود ہیلیوسینٹرک منظرنامے کی نشاندہی کردی تھی۔ ساری نسیبی کے بقول عین ممکن ہے کہ کوپرنیکس نے فقط طوسی کا فارمولا ہی استعمال نہ کیا ہو بلکہ اس کے شاگرد شیرازی کی یہ بات بھی اُچک لی ہو، کہ کائنات کا مرکز سُورج بھی ہوسکتاہے۔ ہیلیوسینٹرک ماڈل کا مطلب ہے وہ ماڈل جس میں کائنات کا مرکز سورج ہے اور جیوسینٹرک ماڈل کا مطلب ہے وہ ماڈل جس میں کائنات کا مرکز زمین ہے۔ ابن شاطر اورقشجی نے بھی ہیلیوسینٹرک ماڈل کی طرف واضح اشارے دیے تھے۔ کوپرنیکس کے کام میں ان کی ڈرائینگز اورفارمولے بھی استعمال ہوئے ہیں۔

یورپ نے جس وقت آنکھیں کھولیں، مسلمان اس وقت ابھی میدان میں موجود تھے۔ اس لیے یوں کہنا کہ مسلمانوں کے علمی زوال اور یورپ کی علمی ترقی کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے بالکل غلط ہے۔ دیکھاجائےتو یہ فاصلہ پچاس سال سے زیادہ نہیں ہے۔ الغ بیگ کی سمرقند والی رسدگاہ پندرھویں صدی کے آخر میں اپنے عروج پر تھی جبکہ یورپ کی سائنس سولہویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی۔
الغرض اسلامی عہد کی تمام تر سائنسی ترقی انہی آزاد مدارس کی مرہونِ منت ہے جہاں گورنمنٹ کے دیے ہوئے نصاب نہیں پڑھائےجاتےتھے۔ یہ ادارے مدرسے تھے۔ ہمارا آج کا مدرسہ اپنی مادر زاد حالت میں ایسا ہی ادارہ ہوا کرتاتھا۔ اسلامی تاریخ کے عروج کے زمانے میں فقط ’’دینی مدرسہ‘‘ کے نام سے الگ مدارس وجود نہیں رکھتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ہزاروں مدارس میں کوئی قران و حدیث پڑھانے میں زیادہ مشہور ہو اور کوئی فلسفہ و منطق پڑھانے میں۔ لیکن ایسا تو آج بھی ہوتاہے۔ ایک یونیورسٹی پارٹیکل فزکس میں مشہور ہوتی ہے تو دوسری سوشیالوجی یا سائیکالوجی میں۔

مشرقی بلکہ اسلامی تاریخ کے یہ آزاد مدارس ، اسلامی تہذیب کا سب سے قیمتی سرمایہ تھے، جنہیں نوآبادیاتی عہد میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مِٹانے کی کوششیں کی گئیں لیکن اسلامی تہذیب کے اس شاہکار یعنی ’’مدرسے‘‘ میں اپنی داخلی قوت اتنی زیادہ تھی کہ مدراس کو مکمل طورپر ختم نہ کیا جاسکا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ مرعوبیت کا شکار ہوکر استعمارزدہ مشرق نے مدارس کے اس نظام کو ازخود استعماری بیانیے کے عین مطابق بنادیا۔ استعماری بیانیہ یہی تو تھا کہ اِن مدارس میں فقط مسلکی تعلیم دی جاتی ہے نہ کہ سائنس، فلسفہ، منطق یا شعروادب پڑھائے جاتے ہیں۔ اورمرعوب و مغلوب استعمارزدہ ذہن نے اس فریب کو قبول کرلیا۔ اوریوں مدارس کو مسلکی تعلیم تک محدود کرکے اسلامی تہذیب کے اتنے بڑے اورعظیم تحفے کو قریب قریب کنارےکے ساتھ لگا دیا گیا۔

مدرسہ چونکہ ماضی میں پوری انسانیت کےلیے آزادانہ تحقیق کا سب سے شاندار ادارہ رہا تھا اِس لیے ایسے عظیم اور قیمتی ادارے کا ختم ہوجانا اسلامی تہذیب کے سب سے قیمتی اثاثے کا لُٹ جانا تھا۔ چنانچہ بیسویں صدی میں مدرسے کے تہذیبی ورثے کو بچانے کے خواہشمند مسلمان علمأ نے طرح طرح کے تجربات کے ذریعےاس ادارے کی اندرونی قوت بحال کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اِن تجربات میں زیادہ ترکوششیں اس لیے کامیاب نہ ہوسکیں کہ اُن کا مطمحِ نظرمدرسے کے نظامِ تعلیم کو جدیدیت کےساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔ مدرسےکواگرکوئی تحریک اُس کی کھوئی ہوئی قوت واپس دلاسکتی تھی تو وہ فقط مدرسے کے اپنے نظام ِ تعلیم کوباقی رکھتے ہوئے ہی ایسا کرسکتی تھی نہ کہ یورپ کی جدیدیت بلکہ ڈاکٹرناصرعباس نیر کے بقول ’’نوآبادیاتی جدیدیت‘‘ کو اختیار کرکے۔

مدرسے کا اپنا نظام تعلیم آزادانہ فضا میں تدریس ، تحقیق اور مباحثے کے اُصول پر قائم تھا اوریہی آزادفکری ہی اس سےمفقود ہوتے ہوتے بیسویں صدی میں تقریب ختم ہوگئی۔ اس کے برعکس مغرب کا نظام اکیڈمیا کی شکل میں ایک پابند نظام ہے جو بنیادی طورپر سرمایہ دارانہ فکر کا پروردہ اوراسی کا مستقبل خادم ہے۔ تمام سرمایہ دار ممالک اس نظام کو کنٹرول کرتےہیں اور کسی ایسی تحقیق کے لیے کوئی گنجائش اس نظام میں موجود نہیں جو کامل آزادی کے ساتھ کسی علم پر بحث کی اجازت دے۔

خیر! تو دہائیوں پر دہائیاں گزرتی چلی گئیں اور بالآخر وہ وقت بھی آگیا جب مدارس میں مسلکی علوم کو چھوڑ کر باقی ہرقسم کا نصاب ناقابلِ برداشت سمجھ لیاگیا۔ مدرسے کی ساکھ اورقوت بحال کرنے کے خواب دیکھنے والے تو اب بھی موجود تھے لیکن کوئی ایسا زیرک اوردانا ذہن موجود نہیں تھاجو نہ صرف خود مدرسے کا پڑھاہوا بھی ہو، تاکہ اس کے درد کو سمجھ سکے بلکہ یورپ یا امریکہ کی پوری علمی تاریخ سے بھی واقف ہو، تاکہ مدرسے کی اندرونی کمزوریوں کو رفع کرنے کے لیے کوئی جرأت مندانہ قدم اُٹھاسکے۔ کوئی ایسا نابغہ جومدرسے میں موجودعلمی خلاکوکماحقہُ محسوس کرسکے اورپورے داعیانہ جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھ کر اِس ادارے کو مکمل طورپر فنا ہونے سے نہ صرف بچالے بلکہ اسے اس کا وہ کھویا ہوا مقام بھی واپس دلاسکے جو ماضی میں اسلامی تہذیب کا طرۂ امتیاز رہاتھا۔

بہرحال اکیسویں صدی میں بالآخر یہ جمود ٹوٹنے کا آغازپروفیسرڈاکٹرابراہیم موسیٰ کی شکل میں ہوا۔ پروفیسرڈاکٹرابراہیم موسیٰ نے مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کا آغاز کرکے گویا اس دائمی مرض کی نہ صرف تشخیص کردی بلکہ اس کا علاج تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ اُس علاج پر عمل بھی شروع کروادیا۔ مدرسہ ڈسکورسز، دراصل ایک تعلیمی و تدریسی سرگرمی کا نام ہے۔ یہ ایک پروگرام ہے جو پروفیسرڈاکٹرابراہیم موسیٰ نے شروع کیا ہے اورجس کی تفصیل میں نے اگلے مضمون میں بیان کرنی ہے۔ ڈاکٹرابراہیم مُوسیٰ اسلامی دنیا کا ایک معروف نام ہیں۔اُن کاتعلق جنوبی افریقہ سےہے جبکہ اُن کے ننھال ہندوستان میں ہیں۔ ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کی ابتدائی تعلیم ہندوستان کے مدراس میں ہوئی۔ ان مدارس میں دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ ندوۃ العلمأ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا تعلیمی پس منظر مدارس کا ہے اس لیے وہ مدارس کے نظام کی اصل خوبیوں سے واقف ہیں۔ فی زمانہ ڈاکٹرابراہیم موسیٰ دینی مدارس کی روایت کو زندہ کرنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب، ’’مدرسہ کیا ہے؟‘‘ میں سکول اور مدرسہ میں سے، مدرسہ کوبہترسمجھتےاوراس کی بھرپوروکالت کرتے ہیں۔ ڈاکٹرابراہیم موسیٰ امریکہ میں مقیم ہیں اوروہیں یونیورسٹی آف نوٹری ڈیم میں پڑھاتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر مدرسہ ڈسکورسز پر میرے ایک طویل مضمون کے دیباچے کے طورپر لکھی گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے