پاکستان پر ٹڈی دل کا خوفناک حملہ

کورونا کے بعد اب پاکستان کو ٹڈی دل کے حملے کا سامنا ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں بڑے رقبے پر فصلیں اور باغات اس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جون اور جولائی کے مہینوں میں ٹڈی دل کے حملوں میں مزید شدت آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس کے جھنڈ اب جنوب سے شمالی پنجاب اور خیبر پختونخواہ تک پہنچ چکے ہیں ۔

اس خطے میں گزشتہ 70 سال میں یہ ٹڈی دل کا سب سے بڑا حملہ ہے جس سے کروڑوں لوگوں کے فاقوں کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔

اس برس ان ٹڈیوں نے مشرقی افریقہ کے ملک ایتھوپیا اور صومالیہ میں جنم لیا جہاں سے وہ مشرقی وسطیٰ میں یمن ،سعودی عرب اور عمان سے ہوتی ہوئی ایران میں داخل ہوئیں اور پھر بلوچستان کے راستے سندھ اور جنوبی پنجاب تک جا پہنچی ہیں۔

دنیا میں عام طور پر ٹڈی دل سے متاثر ہونے والے ممالک کی تعداد 30 ہے جنہیں تین خطوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

ان میں ایک مغربی خطہ ہے جس میں افریقہ کے ممالک موریطانیہ، سوڈان، ایتھوپیا اور صومالیہ آتے ہیں۔ دوسرا وسطی خطہ ہے جس میں مصر، یمن، اومان اور سعودی عرب شامل ہیں جبکہ تیسرا مشرقی خطہ ہے جس میں پاکستان، ایران، انڈیا اور افغانستان آتے ہیں۔

افزائش نسل کے لیے سازگار موسم کی موجودگی میں پاکستان آنے والی ٹڈیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں ٹڈیوں کی افزائش کے دو موسم ہیں۔ان میں ایک موسم فروری سے جون تک ہوتا ہے جس کا علاقہ بلوچستان میں ہے جبکہ دوسرا موسم جون سے ستمبر تک ہے جس میں ٹڈیوں کی افزائش نسل کا علاقہ صوبہ سندھ کے شہر بدین سے پنجاب میں بہاول نگر تک پھیلا ہوا ہے۔

پاکستان میں اس وقت ٹڈیوں کی افزائش نسل کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔مادہ ٹڈی ریت میں انڈے دیتی ہے۔بارشوں کے نتیجے میں ریت میں نمی اور آس پاس سبزے کی موجودگی میں ٹڈیاں تیزی سے اپنی تعداد بڑھا لیتی ہیں۔آج کل صحرائی علاقوں میں بارشیں ہونے کی صورت میں ٹڈی دل کی تعداد میں دو گنا اضافے کا خدشہ ہے۔

[pullquote]ٹڈی دل کا روٹ: افریقہ سے پاکستان تک[/pullquote]

ابتدائی طور پر یہ ٹڈیاں سبز، گلابی اور زرد رنگ کی ہوتی ہیں۔ بالغ ہونے کے بعد ان کا رنگ بھورا ہوجاتا ہے جس کے بعد مادہ ٹڈیاں بچے دیتی ہیں۔ ایک ٹڈی کے انڈوں سے بیک وقت80 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک مادہ تین بار انڈے دیتی ہے جس کے بعد فطری طور پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

ان ٹڈیوں میں اپنا طرزعمل اور عادات تبدیل کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور یہ طویل فاصلوں تک اُڑ سکتی ہیں۔ ان ٹِڈیوں کی درجن بھر اقسام ہیں جن میں صحرائی ٹِڈی سب سے زیادہ مشہور اور عام ہے۔ عام ٹِڈوں (گراس ہاپر) سے برعکس اس ٹِڈیوں کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں جن کی بدولت وہ اونچی چھلانگیں لگا سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق صحراؤں میں پرورش پانے والے ٹڈی دل علاقائی سطح پر موسمی حالات کے باعث انتہائی تیز رفتاری سے نمو پا رہے ہیں اور ان کی اوسط عمر میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

عام حالات میں یہ ٹِڈیاں مشرقی افریقہ کے نیم بارانی اور بارانی صحرائوں اور مشرقی و جنوب مغربی ایشیا کے ایسے علاقوں میں رہتی ہیں جہاں سالانہ 200 ملی میٹر سے کم بارش ہوتی ہے۔ یہ علاقہ قریباً 16 ملین مربع کلومیٹر تک پھیلا ہے جس میں 30 ممالک آتے ہیں۔

ٹڈی دل درختوں کے پتے، پھول، پیڑوں کی چھال، تنے، پھل اور بیج سمیت ہر طرح کی نباتات چٹ کر جاتے ہیں جن میں باجرہ، چاول، مکئی، جو، کپاس، پھلوں کے درخت، کھجور، سبزیاں، چراگاہیں، کیکر، صنوبر اور کیلے کے درختوں سمیت سب کچھ شامل ہے۔

ٹڈی دل کی رفتار 16 سے 19 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے اور اس کے جھنڈ ایک دن میں 150 کلومیٹر تک سفر کر سکتے ہیں اور ایک بالغ ٹڈی روزانہ اپنے وزن کے برابر خوراک کھاتی ہے۔ ایک مربع کلومیٹر پر پھیلا ایک جھنڈ ایک دن میں 35 ہزار لوگوں کی روزانہ خوراک کے برابر فصلیں اور اناج کھا جاتا ہے۔

ٹڈی دل کے حملے سے پاکستان میں خوراک و زراعت کی معیشت کو 669 ارب روپے نقصان پہنچے گا

صحرائی علاقوں سے آنے والے ٹڈی دل گھنے اور متحرک جھنڈ کی صورت میں فصلوں پر حملہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ جھنڈ سیکڑوں مربع کلومیٹر تک وسیع ہو تے ہیں اور ایک مربع کلومیٹر پرمشتمل جھنڈ میں ٹڈیوں کی تعداد 8 کروڑ تک ہوتی ہے۔

پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر قریباً 3 لاکھ مربع کلومیٹر زرعی علاقہ ٹڈی دل سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس میں 60 فیصد علاقہ بلوچستان، 25فیصد سندھ اور 15 فیصد پنجاب میں ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے خوراک اور زراعت نے پاکستان میں ٹڈی دل کے حملوں سے ہونے والے ممکنہ نقصان کا تخمینہ 4 ارب ڈالر یا 669 ارب روپے لگایا ہے۔ اس مرتبہ ملک میں فصلوں کو ٹڈی دل سے لاحق خطرات 27 سال میں پہلی بار سب سے زیادہ ہیں۔

ٹڈی دل کے حملوں سے پاکستان میں ربیع کی 15 فی صد فصل ضائع ہونے کا خدشہ ہے جس سے ملک کو مجموعی طور پر 205 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ خریف کی فصل پر ٹڈی دل کے حملے اس سے بھی بڑے نقصان کا باعث بنیں گے جس کا تخمینہ 464 ارب روپے لگایا گیا ہے جو مجموعی فصل کا 25 فی صد تک ہوسکتا ہے۔

بروقت سپرے نہ ہونے سے پاکستان میں ربیع کی 15 اور خریف کی 25 فیصد فصل تباہ ہونے کا خدشہ ہے
اقوام متحدہ نے ٹڈی دل کے حملے سے پیشگی خبردارکر دیا تھا مگر اس کے باوجود پاکستان میں حکومت نے اس آفت سے بچاؤ کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے جس کا آنے والے دنوں میں سنگین خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ موسم بہار میں ٹڈی دل ایرانی سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقوں میں نسل افزائی کرتے ہیں۔اس دوران اگر ان علاقوں میں بروقت ٹڈی مار سپرے کیا جاتا تو اس تباہی کو روکا جا سکتا تھا جو اس وقت سندھ اورپنجاب میں جاری ہے۔

سندھ اور پنجاب میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے فضائی سپرے تاخیر سے شروع کیا گیا، اس دوران ٹڈی دل بہت بڑے رقبے کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ پنجاب میں ٹڈی دل نے کاٹن بیلٹ کوبھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔اگر یہ ٹڈیاں پنجاب کے کاٹن زون تک پہنچ گئیں تو صوبے کو بہت بڑا معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے 1950 اور 1980 کی دہائی میں بھی ٹڈی دل نے سندھ اور پنجاب میں کپاس کی تیار فصلوں کو تاراج کر دیا تھا۔

بشکریہ سجاگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے