تہتر فرقوں والی حدیث

حدیث افتراق
وہ حدیث جس میں فرقوں کا ذکر ھوا ھے ،
اس حدیث کے بارے میں ھم بچپن سے ھی سنتے چلے آئے ھیں اور اس کو اس امت میں فرقہ بندی کا جواز بھی سمجھتے رھے ھیں اور بشارت و پیش گوئی بھی کہ یہ امت دیگر امتوں سے بھی بڑھ کر فرقہ بندی کا شکار ھو گی،

مگر اصل زھر جس نے اس امت کو ایک دوسرے کو کافر ، گمراہ ،جھنمی کہنے کا دروازہ کھولا اور پھر "میں جنتی ” میں جنتی ” کی گردان کرتے ھوئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے پایا وہ یہ جملہ ھے ” یہ سارے آگ میں جائیں گے سوائے ایک کے ” یہ جملہ اور اس کا جواب اصل حدیث میں اضافہ ھے، یہ اضافہ اس کے الٹ بھی ھوا ھے ،یعنی (ستفترق أمتي على نيِّف وسبعين فرقة، كلها في الجنة إلا واحدة)) یہ سارے جنت میں جائیں گے سوائے ایک کے ،، پھر بعد میں مختلف فرقے اس میں رکھ کر ” خالی جگہ پُر کرو” کی روش پر چل پڑا ،

مثلاً جب شیعیت کی مذمت مقصود ھوئی تو کہا گیا کہ سارے جنت میں جائیں گے الا الذین یتشیعون، جب اھل حدیث اھل الرائے پر وار کرنا چاھتے تو یوں کر دیتے کلھم فی الجنۃ الا اصحاب الرائ ۔

خیر ھم بھی اس حدیث کو اسی طرح لیتے رھے اور اس کا وھی نتیجہ نکالتے رھے جو سب نکالتے چلے آ رھے ھیں اور ھر فرقے کو چھکتے چلے گئے کہ بھلا جنتی اور جھنمی فرقوں میں وہ کونسا جوھری فرق ھے جو ان کو جنتی اور جھنمی میں تقسیم کرتا ھے ،جنت اور جھنم کوئی پڑوس میں نہیں ھیں بہت دور دور واقع ھیں اسی طرح جنتی اور جھنمی بھی اپنے قول و فعل میں مشرق و مغرب اور زمین و آسمان کا فرق رکھتے ھوں گے ،اللہ پاک نے سورہ الحشر میں فرمایا ھے کہ ” لا یستوی اصحاب النارِ و اصحاب الجنۃ، اصحاب الجنۃِ ھم الفائزون” دوزخ والے اور جنت والے ایک جیسے نہیں ھوتے، نہ ایک جیسے ھونگے ، کیونکہ جنت والے تو کامیاب ھونگے ( جبکہ دوزخ والے ناکام )۔

دوسری جگہ فرمایا کہ جو لوگ برائیاں کرتے اور برائیاں پھیلاتے چلے جا رھے ھیں وہ کیا سمجھتے ھیں کہ ھم ان کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اعمال صالح کیئے برابر کریں گے جینا ان کا اور مرنا ان کا ؟ بڑا برا فیصلہ ھے جو انہوں نے کر رکھا ھے ( الجاثیہ -21) یعنی اھل ایمان اور اھل کفر کی زندگیوں میں بھی جوھری فرق ھو گا ، ان کا جینا بھی جدا شان رکھتا ھو گا ، اور مرنا بھی الگ شان رکھتا ھو گا ، جیتے بھی دونوں ھیں اور مرتے بھی دونوں ھیں مگر دونوں اللہ کے نزدیک نہ زندگی میں ایک سا مقام رکھتے ھیں اور نہ مرنے کے بعد ایک جیسا پروٹوکول دیئے جائیں گے ،

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

چنانچہ اسی جستجو میں ھم نے مختلف فرقوں کا لٹریچر پڑھ ڈالا ،،،
آج ھم اس حدیث کے اس پہلو پر نظر ڈالتے ھیں جو ھمارے اس فہم کے 100٪ الٹ اور مختلف ھے جو ھم آج تک سنتے اور پڑھتے چلے آئے ھیں ، کہ بھلا ایک رسول ﷺ اور رسول بھی رسولِ رحمت جو سارے جہانوں اور زمانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کیئے گئے اپنی ھی امت کو جھنمی ٹھہرا کر کیسے چلے گئے، اس کے لئے بھلا انہیں آنے کی اور ان کی امت کو ان پر ایمان لانے کی ضرورت ھی کیا تھی ؟ جھنم میں تو ان کی بعثت کے بغیر ھی چلے جانا تھا ؟ پھر جب کوئی مسلمان کسی کے پاس دعوت لے کر جائے گا تو وہ بندہ الٹا اس مسلمان سے کہے گا کہ بھائی تم خود تم لوگوں میں 72 فرقے جھنمی ھیں ،، کہیں تم ان 72 میں سے تو نہی ھو ، پہلے اپنی مسلمانی تو ثابت کرو ،،

یہ ایک فطری سی بات ھے کہ جس سے بھی پوچھیں وہ اپنے ھی وطن کو اچھا کہتا ھے ، اور اپنے ھی فرقے کو اچھا کہتا ھے جس میں وہ پیدا ھوا ھے اور پلا بڑھا ھے ،جس فرقے کی نمازیں پڑھی ھیں اور جس کے روزے رکھ کر افطار کیئے ھیں ،لہذا ھر فرقہ اپنے کو ناجی اور دوسرے کو جھنمی کہتا چلا جا رھا ھے مگر اس پر سب کا اتفاق ھے کہ صرف ایک ھی جنتی فرقہ ھے باقی 72 جھنمی ھیں ، اب ظاھر ھے جنتی اور جھنمی اپنی اپنی مسجدیں الگ الگ نہ بنائیں تو پھر کیا کریں ؟

آج ھم اس حدیث کے ھر پہلو پر بحث کر کے دیکھتے ھیں کہ اس کا اصل مقصد کیا تھا اور ھم کیا سمجھے بیٹھے رھے اور کس طرح ایک نقطہ محرم کو مجرم اور دعا کو دغا میں تبدیل کر دیتا ھے

یہ حدیث دین کی اصل نہیں ھے یعنی افتراق اور فرقہ بندی دین کی اصل نہیں ھے لہذا اس کو کلہاڑے کی طرح استعمال کر کے اس امت کے ٹکڑے نہیں کرنے چاھئیں بلکہ دین کی اصل وحدت، جماعت یعنی اجتماعیت اور اور امت یعنی یک گروھی ھے ، اسی کی طرف قرآن دعوت دیتا ھے ” ان ھذہ امتکم امۃ واحدہ و انا ربکم فاعبدون ، دوسری جگہ فرمایا کہ ، ھذہ امتکم امۃ واحدہ و انا ربکم فاتقون،، یہ تمہاری امت ایک ھی امت ھے اور میں اکیلا ھی تمہارا رب ھوں سو میری ھی عبادت کرو اور میرا ھی تقوی اختیار کرو،، دونوں آیتوں کے بعد پھر امتوں کے رویوں کو بیان فرمایا ” فتقطعوا امرھم بینھم زبراً کل حزب بما لدیھم فرحون” ھر گروہ نے اپنا اپنا موقف الگ کر لیا ،کتاب کی بائنڈنگ کھول کر اس کو ورق ورق کر لیا ، جس کے ورق پر جو حکم تھا اس نے اسی کو سارا دین سمجھ لیا اور اسی پہ شاداں و فرحاں زندگی گزار رھا ھے کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے بتائے گئے احکامات پر عمل بھی کر لیا اور پورے دین کو اختیار بھی کر لیا ۔

اس حدیث کو مختلف صحابہ سے روایت کیا گیا ھے اور مختلف الفاظ میں روایت کیا گیا ھے ،اس کے راویوں میں ابن مسعودؓ، علی بن ابوطالبؓ ،ابی موسی الاشعریؓ، جابر بن عبداللہؓ، ابوھریرہؓ ، معاویہؓ بن سفیانؓ، انس بن مالکؓ، عوف بن مالک الشجعیؓ،ابی امامہ الباھلیؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عمرو بن عوف المزنیؓ، عبداللہ بن عمرو ابن العاصؓ، ابی درداءؓ، واثلہ ابن الاسقعؓ رضی اللہ عنھم اجمعین جیسے لوگ شامل ھیں اور یہ لوگ جھوٹ پر مجتمع نہیں ھو سکتے یوں یہ حدیث حدِ تواتر کو یا اس کے قریب پہنچتی ھے ، ان صحابہؓ سے روایت کرنے والوں میں نیچے جا کر کچھ ضعف آیا ھے مگر وہ بھی شدید ضعف نہیں ھے ۔

البتہ اس کے بعض طرق نہایت بے غبار ھیں ،بعد کے تمام ائمہ حدیث اور اصحابِ رجال نے اس کی تصصحیح فرمائی ھے اگرچہ ظاھری امام ابن حزم نے اس حدیث کو "من حیث الاصل رد کر دیا ھے اگرچہ وہ خبر واحد کو بھی حجت مانتے ھیں مگر انہوں نے ان دو حدیثوں کو سرے سے ھی مسترد کر دیا ھے ،ایک تو یہ حدیث ھے اور دوسری ” مرجئہ اور قدریہ” میری امت کے مجوسی ھیں ، والی حدیث ھے ، مزے کی بات یہ ھے کہ صحابہؓ کے اس عظیم اجتماع کے باوجود امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ دونوں نے اس حدیث کو نہیں لیا اس کے باوجود ھم سند کے لحاظ سے اس پر بحث نہیں کریں گے بلکہ درایتاً اس کو دیکھیں گے۔

1- یہ حدیث فرقہ بندی کو جواز عطا نہیں کرتی بلکہ فرقہ بندی سے خبردار کرتی ھے کیونکہ پورا قرآن اس فرقہ بندی کی مذمت سے بھرا پڑا ھے اور ” وحدۃ الکلمہ ” اور ” توحید الامۃ ” کو اصل قرار دے کر نبیوں اور رسولوں کی بعثت کا مقصد قرار دیتا ھے ، رسول جوڑنے کے لئے آتے توڑنے کے لئے نہیں آتے ( ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ و انا ربکم فاعبدون ، اور ولا تکونوا من المشرکین ، الذین فرقوا دوسری قرأت میں فارقوا دینھم و کانوا شیعاً، کل حزب بما لدیھم فرحون،، اور مشرکین کی طرح مت ھو جانا جنہوں نے اپنے دین کو پھاڑ لیا اور خود بھی ٹکڑے ٹکڑے ھو گئے ،ھر گروہ اپنے ٹکڑے پر شاداں و فرحاں ھے

قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ((افترقت اليهود على إحدى أو اثنتين و سبعين فرقة، و تفرقت النصارى على إحدى أو اثنتين و سبعين فرقة، و تفترق أمتي على ثلاث و سبعين فرقة))

یہ ھے اصل حدیث گویا یہ ایک خبر ھے جو کہ نبئ کریم کی طرف سے دی گئ ھے ،کہ یہود میں اکہتر فرقے بنے ، عیسائیوں میں مزید ایک کا اضافہ ھوا مگر یہود کو ساتھ ملا کر بہتر فرقے بنے ،کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام یہود میں بنی اسرائیل کی طرف ھی بھیجے گئے وھی ان کی امت دعوت تھے اور وھی امتِ استجابت تھے،یعنی انہی میں سے کچھ ان پر ایمان لائے اور کچھ نے ان کا کفر کر دیا تو جو ان پر ایمان لائے وہ تو بنی اسرائیل کا فرقہ ناجیہ بنے جبکہ جنہوں نے عیسی علیہ السلام کا انکار کیا وہ منکرِ عیسی بن کر اکہتر میں شامل ھو گئے ۔
نکتے کی بات یہ ھے کہ جب یہود اور نصاری کا ذکر کیا تو ان کو بطور مذھب ذکر فرمایا کسی رسول کی طرف منسوب نہیں فرمایا کہ موسی کی امت کے اکہتر فرقے بن گئے ،عیسی کی امت کے بہتر بن گئے اور میری امت کے تہتر بنیں گے ،، بلکہ ان کو مذھباً ذکر کیا ،، پھر اپنی امت کو مذھب کی طرف نسبت کیوں نہیں دی کہ ” مسلمان تہتر فرقے بن جائیں گے ” ؟ مومن تہتر فرقے بن جائیں گے ”

اس سے ثابت ھوا کہ نبئ کریم ﷺ امتِ دعوت کی طرف اشارہ فرما رھے ھیں، اس لئے کہ آپ کسی خاص قوم ،قبیلے اور علاقے کی طرف مبعوث نہیں فرمائے گئے بلکہ تمام نوع انسانیت کی طرف مبعوث فرمائے گئے ھیں ، قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً، وما ارسلناک الا کآفۃ للناس بشیراً و نذیراً گویا پوری انسانیت 73 فرقوں میں بٹے گی جس میں یہود و نصاری شامل ھو کر تہتر بنیں گے ،کیونکہ الناس میں یہود ونصاری بھی شامل ھیں جو کہ آپ کو رد کرنے والوں میں شامل ھونگے یوں یہود نصاری تو بہتر کہے بہتر ھونگے مل کر ،، جبکہ نبی کریمﷺ کو جھٹلانے والے باقی دنیا کے عجمی مل کر تہترواں فرقہ بنا دیں گے جبکہ امت اجابت یعنی نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والے فرقہ نہیں ھونگے بلکہ ” حدیث میں انکے لئے لفظ ملۃً استعمال ھوا ھے ،یعنی ملۃ واحدہ تو جنت میں جائے گی فرقے جھنم میں جائیں گے جو نبئ کریم ﷺ کی دعوت کو جھٹلا دیں گے ۔

72 یہود میں سے اور تہترواں غیر یہود میں سے پوری دنیا کے لوگوں پر مشتمل ھو گا ،، جبکہ سارے مسلمان بطور ملت ایک ھونگے ، مکاتبِ فکر کوئی نئ چیز نہیں یہ صحابہؓ سے ھی شروع ھوئے اور نبئ کریم ﷺ کے اقوال و افعال کو سمجھنے میں سب میں تفاوت ھے ،کسی نے کسی حکم کو کسی اور طرح سمجھا اور دوسرے نے اس کو الگ سمجھا مگر نبئ کریم ﷺ کی اطاعت پر سب کا اتفاق رھا اور آج بھی تمام فرقوں میں نبئ کریم ﷺ کی اطاعت و اتباع پر اتفاق ھے ،

اللہ کی کتاب ، آخرت ،قیامت ،فرشتوں پر ایمان یہ ساری چیزیں مسلمانوں میں قدرِ مشترک ھیں باقی فروعی مسائل ھی ھیں ، یہ فروع عقیدے میں بھی ھیں اور اعمال میں بھی مگر بحیثیت مجموعی یہ امت ایک ھی امت ھے اسی میں خیر کی خبر یہ بھی ھے کہ اب انسانیت مزید کسی تفریق کا شکار نہیں ھو گی ۔قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور نہ ھی مزید تقسیم ھو گی، ھر نبی کی آمد پر تین گروہ لازمی بن جاتے ھیں ایک کھُل کر اس نبی کو ماننے اور ساتھ دینے والے ، دوسرے کھُل کر اس کی مخالفت کرنے والے اور تیسرے مجبوراً مان لینے والے مگر دل سے نہ ماننے والے یعنی منافق اب یہ سلسلہ ختم ھوا ۔

اب سوال یہ ھے کہ نبئ کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہود کے 71 فرقے ھوئے ،مگر یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے 70 آگ میں اور ایک جنت میں گیا ،، پھر فرمایا کہ نصاری کے 72 فرقے ھوئے ،مگر ان کے بارے میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ 71 آگ میں گئے اور 72 واں جنت میں گیا ؟ پھر اپنی امت کا ذکر کرتے ھوئے یہود و نصاری کی طرز پر مسلم یا مومن کیوں استعمال نہیں فرمایا ؟ یا تو امتِ موسی ، امتِ عیسی کہتے تو پھر جملہ درست بنتا تھا کہ ” امتی ” اس سے ثابت یہ ھوا کہ یہاں امتی سے مراد امتِ دعوت ھے ،یعنی ساری انسانیت بشمول یہود و نصاری ،، اب نبئ کریم کو ماننے والے مسلمان تو ھو گئے ملۃ واحدہ اور آپ ﷺ کی دعوت کو رد کرنے والے باقی سارے یہود کے بعد 73 واں فرقہ بن گئے ، نہ کہ امتِ استجابت 73 فرقوں میں بٹے گی ،، رب کے اس حکم کے بعد کہ” ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃً و انا ربکم فاعبدون ” کسی فرقے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رھتی ،،

اسلام میں فرقہ حرام ھے جس طرح سود حرام ھے ،،،،،،،،،،، ( ولا تفرقوا ، ولا تاکلوا الربوا )

اسلام میں اتحاد فرض ھے جس طرح نماز فرض ھے ،،، ( واعتصموا ،، واقیموا )

اسلام میں مکاتبِ فکر کی گنجائش تو ھے مگر فرقے کی کوئی جگہ نہیں ،،،،،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے