موت تو مقدر ہے، اک کھلی حقیقت ہے
قوم کی بقا ہے یہ، زندگی کی قیمت ہے
موت کو مقدر سمجھنے اور اِسے ایک کھلی حقیقت قرار دینے والے اس شعر کے خالق کا نام عمران ہے۔ اپنے ہر پانچویں شعر میں موت کو مخاطب کرنے والے عمران کا پیشہ بنیادی طور پر موت بانٹنا نہیں تھا بلکہ عمران کا تو دکھی انسانیت کے غم بانٹنے اور مسیحائی کرنے والے پیشے طب سے تعلق تھا۔ عمران کے والد کا نام فاروق اور تعلق ہندوستان کی ریاست بہارسے تھا، جب پاکستان بنا تو عمران کے والد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور کاروبار کے ساتھ سیاست میں حصہ لینے لگے۔ اس دوران وہ کئی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ کراچی میں مہاجر مقامی تنازعات نے فسادات کی شکل اختیار کی تو وفاقی دارالحکومت کراچی میں حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ اسی دوران جنرل ایوب کے دور میں وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو آنے والی دو دہائیوں میں کراچی میں مہاجر مقامی تنازع اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ یوں عمران نے ستر کی دہائی کے آخر پرجب زمانہ طالب علمی میں تعلیم اور شاعری کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا تو یہ وہ پرآشوب زمانہ تھا جب کراچی میں مہاجر خود کو مکمل طور پر لاوارث اور لاچار سمجھنے لگے تھے۔ اسی دور میں عمران اور اس کے ساتھیوں نے 11 جون 1978ء کو آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی اور اس کے بانی رکن کہلائے۔ یہ تنظیم فوراً ہی اس قدر مقبول ہوگئی کہ دوسری طلبہ تنظیمیں اس کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوگئیں اور یوں کراچی یونیورسٹی میں آئے روز تشدد کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بعد عمران اور اس کے ساتھیوں نے مہاجر طلبہ تنظیم کو پورے کراچی میں متعارف و منظم کرنے فیصلہ کیا۔ 1984ء میں کراچی میں لسانی فسادات کا آغاز ہوا تو اسی تنظیم سے جنم لینے والی ’’ایم کیو ایم‘‘ ایک بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے سامنے آئی۔ ان فسادات نے ایم کیو ایم کی شہرت اور بدنامی دونوں میں اضافہ کیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں میں ایم کیو ایم ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی سب سے بلند آہنگ آواز بن گئی۔ 1992 میں سندھ کے دیہی علاقوں میں امن وامان کی خراب صورتحال اور بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات سے نمٹنے کیلئے فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا لیکن الطاف حسین اس آپریشن سے قبل ہی لندن فرار ہوچکے تھے۔ اسی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کی تشدد آمیز سیاست کا پردہ فاش ہوا، ٹارچر سیل اور خفیہ قبریں دریافت ہوئیں اور الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں پر قتل اور دوسرے جرائم کے حوالے سے مقدمات قائم کیے گئے۔ اسی دور میں الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے درمیان پہلی مرتبہ اختلافات نے جنم لیا اور یوں عامر خان، آفاق احمد، محمد ارشاد، بدر اقبال، منصور چاچا وغیرہ نے علیحدہ ہو کر اپنی علیحدہ الگ جماعت ایم کیو ایم حقیقی کی بنیاد رکھی۔ دوسری جانب الطاف حسین کو قائد ماننے والوں نے ایم کیو ایم کو متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے پکارنا شروع کردیا، لیکن عادت اور خصلت کے اعتبار سے یہ جماعت وہی ’’ایم کیو ایم‘‘ رہی، جس کی شناخت نصف دہائی میں بوری بند لاشیں، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور قتل و غارت بن کر رہ گئی تھی۔ فوجی آپریشن کے آٹھ سال بعد پرویز مشرف کا دور آیا تو ایم کیو ایم کے سنہرے دن شروع ہوگئے، پرویز مشرف کے ساتھ طویل ہنی مون کے بعد پیپلز پارٹی کے ساتھ ’’گریس پیریڈ‘‘ کا زمانہ آگیا، لیکن ایم کیو ایم نہ بدلی، متحدہ نے اگرچہ بارہ مئی 2007 کے سانحہ کراچی کے الزامات سے نکلنے کی کوشش تو کی لیکن اس کوشش کیلئے عملی طور پر متحدہ قومی موومنٹ نے کوئی قدم اٹھایا نہ ہی اپنا رویہ اور مزاج تبدیل کیا بلکہ ٹارگٹ کلنگ میں مزید تیزی آگئی کہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر ہر کوئی الامان الحفیظ! پکار اٹھا۔ اس دوران مخالفین کو برداشت کرنا تو دور کی بات ہے، پارٹی کے اندر بھی اگر کسی نے معاملات بہتر بنانے کی طرف نشاندہی کی تو اُس کی آواز ہی نہیں دبائی گئی بلکہ اُس کا ٹینٹوا بھی دبا دیا گیا۔ شاعر، طبیب اور سیاستدان ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم کے اندر ضمیر کی ایسی ہی ایک آواز تھی جسے2010 میں دبا دیا گیا۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل پر اگرچہ ایم کیو ایم کے ڈرامے میں الطاف حسین کے رونے دھونے کے سین نے جان ڈالنے کی کوشش تو کی لیکن اصل حقیقت حالات، معاملات اور صورتحال پر نظر رکھنے والوں کے علم میں تھی۔ اس دوران 2013ء کے انتخابات کے بعد الطاف حسین پر تحریک انصاف کے کارکنوں کو دھمکانے اور تحریک انصاف کی رہنما زہرہ شاہد حسین کے قتل کے الزامات لگے اور تحریک انصاف کے کارکنان نے برطانوی پولیس کو بڑی تعداد میں ای میل پیغامات بھیجے تو اسکاٹ لینڈ یارڈ کو الطاف حسین کے خلاف تفتیش شروع کرنا پڑگئی۔اسی تفتیش کے نتیجے میں منی لانڈرنگ اور کارکنوں کو بھارت سے تربیت دلواکر پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے الزامات کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی سامنے آگئے، لیکن الطاف حسین کے حقیقت میں برے دن ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتل اور قاتلوں کو لندن بھجوانے والے سہولت کار کے پاکستان میں پکڑے جانے سے شروع ہوئے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور اسکاٹ لینڈ یارڈ نے گرفتار ملزموں سے تفتیش کی، جنہوں نے عمران فاروق کے قتل کی ہدایت نائن زیرو اور لندن میں الطاف حسین سے ملنے کا انکشاف کیا۔ اسی تفتیش کی روشنی میں وزارت داخلہ کی ہدایت پر ایف آئی اے کے انسداد دہشتگردی ونگ نے ہفتے کے روز اسلام آبادمیں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین سمیت 7 افراد کیخلاف ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔مقدمے میں دہشتگردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے ، دیگر ملزمان میںایم کیو ایم کے محمد انور، افتخار حسین، معظم علی خان، خالد شمیم ، کاشف خان کامران اور سید محسن خان کو باضابطہ نامزد کر کے مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن پر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور معاونت کا الزام ہے۔ قارئین کرام!!جس طرح کی ایم کیو ایم کی سیاست رہی ہے، اس میں قتل و غارت میں ملوث ہونے کے الزامات خود ڈاکٹر عمران فاروق پر بھی لگائے گئے، لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ایک حساس طبع طبیب اور شاعر ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر عمران فاروق کا دل تحریک کاطرز سیاست دیکھ کر کڑھتا بھی تھا، اسی حساس طبیعت نے عمران فاروق کو پارٹی کے اندر بہتری لانے کیلئے اس راستے کا مسافر بنادیا تھا، جس کا عمران فاروق کو خود بھی علم تھا کہ یہ ایک پرخطر راستہ ہے، ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتل پکڑے جانے، ملزم نامزد ہونے اور مقدمہ درج ہونے کے بعد بھی کراچی میں مکمل امن ابھی دور کی بات ہوگی، کراچی کو آنے والے مہینوں میں مزید خون میں نہلانے والوں کو ڈاکٹر عمران فاروق کا آخری شعر یاد رکھنا چاہیے۔
راہِ حق میں مرنا تو عزت و سعادت ہے
اس سے خوف کھاؤں میں یہ تو ہو نہیں سکتا
بشکریہ روزنامہ “نوائے وقت”
اس سے خوف کھاوں میں یہ تو ہو نہیں سکتا!
ناذیہ مصطفیٰ
کالم نگار نوائے وقت
