( ’’ کیا امریکا بکھر رہا ہے‘‘ کے عنوان سے آپ تین حصوں پر مشتمل جو مضمون پڑھیں گے وہ دراصل کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ثقافتی و ماحولیاتی محقق ویڈ ڈیوس کا تجزیہ ہے )۔
ہنری کسنجر سے جو کئی مقولے منسوب ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ’’ امریکا سے دشمنی خطرناک مگر امریکا سے دوستی مہلک ہے‘‘۔ ہر سلطنت کی طرح امریکا بھی اس وقت زوال کے خطرے سے دوچار ہے۔کوئی سلطنت دائمی نہیں۔جو اوپر جائے گا وہ نیچے بھی آئے گا۔پندھرویں صدی پرتگیزیوں کی تھی۔ سولہویں صدی میں ہسپانیہ کا بول بالا تھا۔ستہرویں صدی میں ولندیزی، اٹھارویں میں فرانسیسی اور انیسویں صدی میں برطانیہ عظمیٰ کا طوطی بولتا تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں لہولہان ہونے کے باوجود انیس سو پینتیس تک برطانیہ کرہِ ارض کی سب سے بڑی سلطنت گردانی جاتی تھی۔ دوسری عالمی جنگ نے سب ہی کی جغرافیائی و اقتصادی چولیں ہلا دیں۔ جب جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لیا اور انیس سو چھپن میں برطانیہ نے اسرائیل اور فرانس کے ساتھ مل کے مصر پر حملہ کیا اور امریکا ، سوویت یونین اور اقوامِ متحدہ کے بھرپور دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلی بار پسپا ہونا پڑا تو سب کو معلوم ہو گیا کہ عظیم برطانیہ کے دن گنے جا چکے ہیں۔
امریکا اگرچہ انیس سو تیرہ تک ایک بڑی اقتصادی طاقت بن چکا تھا مگر عالمی سیاست میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب جنگِ عظیم اول کے آخری برسوں میں امریکا یورپی اتحادیوں کی مدد کے لیے کودا تو پہلی بار اسے اپنی قوت اور اثر و رسوخ کے ممکنہ حجم کا بھرپور اندازہ ہوا۔انیس سو چالیس میں جب جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تب امریکی فوج کی نفری پرتگال اور بلغاریہ کی فوج سے بھی کم تھی۔لیکن اگلے چار برس میں ایک کروڑ اسی لاکھ امریکی مرد اور خواتین فوجی یونیفارم اڑس چکے تھے۔ لاکھوں امریکی کارکن کارخانوں اور کانوں میں ڈبل شفٹ پر کام کر رہے تھے۔ روز ویلٹ نے امریکا کو جمہوریت کا اسلحہ خانہ قرار دے کر ایک عام امریکی کا جوش دوبالا کر دیا۔
پرل ہاربر حملے کے بعد کے چھ ہفتے میں ربڑ کی نوے فیصد عالمی پیداوار جاپانیوں کے قبضے میں آ گئی تو امریکا میں ٹائروں کو شکست و ریخت سے بچانے کے لیے حدِ رفتار گھٹا کے پینتیس میل فی گھنٹہ کر دی گئی۔ اگلے تین برس میں مصنوعی ربڑ کی صنعت وجود میں آ گئی جس سے بننے والے ٹائروں کی مدد سے اتحادی افواج نے یورپ میں نازیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔
اگلے چار برس میں ہنری فورڈ کا طیارہ ساز کارخانہ ہر دو گھنٹے میں ایک بی چوبیس بمبار اسمبل کرنے لگا۔ امریکی شپ یارڈ ساڑھے چار دن میں ایک جنگی جہاز تیار کرنے کے قابل ہو گئے۔لانگ بیچ اور سوسالیتو کے یارڈز سے روزانہ دو لبرٹی شپ پانی میں اتارے جانے لگے۔
ڈیٹرائٹ میں قائم کرائسلرکے ایک کارخانے میں اس عرصے کے دوران جتنے ٹینک تیار ہوئے وہ نازی جرمنی کی مجموعی ٹینک پیداوار کے برابر تھے۔یہ سوویت فوج کا خون اور امریکی صنعتی طاقت تھی جس نے دوسری عالمی جنگ کا رخ موڑ دیا۔فتح کے بعد ایٹم بم سے مسلح امریکا غالب عالمی طاقت بن گیا۔گو اس کی آبادی عالمی آبادی کا چھ فیصد تھی مگر عالمی معیشت کا پچاس فیصد حصہ امریکی صنعت کاری و کاروبار سے جڑا ہوا تھا۔گاڑیوں کی عالمی پیداوار میں امریکا کا حصہ ترانوے فیصد تک پہنچ گیا۔
اگلے پینتالیس برس میں مقابلے بازی کی تاب نہ لاتے ہوئے سوویت قوت دم توڑ گئی۔ڈالر عالمی کرنسی بن گیا۔ بری و بحری راستوں پر امریکا کا عسکری کنٹرول پختہ ہوتا چلا گیا۔امریکا میں ایک پھلتی پھولتی مڈل کلاس وجود میں آئی۔روزگاری مواقع میں اضافے اور مزدور یونینوں کی جدوجہد کے نتیجے میں معاوضے اور مراعات میں بڑھوتری کے سبب ایک عام مزدور بھی قسطوں پر گھر اور کار رکھنے کے قابل ہو گیا۔بچے پہلے سے بہتر تعلیم حاصل کرنے لگے۔خوشحالی کی لہر نے وقتی طور پر آجر اور اجیر کے تعلقات میں کشیدگی کم کر دی۔ٹیکس ریٹ اوپری طبقے کے لیے زیادہ اور نچلے طبقات کے لیے کم ہو گئے۔یہ زمانہ ( پچاس اور ساٹھ) امریکی سرمایہ داری کا سنہری دور کہلاتا ہے۔
البتہ چوبیس گھنٹے سات دن کام کام اور کام کے نعرے نے اپنے ذیلی سماجی اثرات بھی ظاہر کرنے شروع کیے۔کارکن اپنے خاندانوں کے ساتھ کم وقت گذارنے لگے۔ایک امریکی ورکر اوسطاً بیس منٹ روزانہ اپنے بچوں کو دے پاتا ہے۔جب یہ بچے اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچتے ہیں تب تک مجموعی طور پر دو برس کے برابر کا وقت فاسٹ فوڈ سامنے رکھ کے ٹی وی کے سامنے یا لیپ ٹاپ کے آگے گذار چکے ہوتے ہیں (اب سب کے ہاتھ میں موبائل فون ہے )۔اس سہل پسندی نے روک ٹوک سے آزاد نوعمر بچوں میں موٹاپے اور توندیلے پن جیسے مسائل کو جنم دیا۔ اب موٹاپے کی وبا نے ایک قومی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔
سکے کا ایک رخ اگر روشن بتایا جا رہا ہے تو دوسرا رخ تاریک ہے۔ جنگِ عظیم دوم میں کامیابی کے باوجود امریکا نہ خود چین سے بیٹھا نہ دنیا کو بیٹھنے دیا۔آج لگ بھگ ڈیڑھ سو ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں امریکی فوجی موجودگی یا مداخلت دیکھی جا سکتی ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی سے چین نے ایک بھی بیرونی حملہ نہیں کیا اور امریکا ایک دن بھی حالتِ جنگ سے نہیں نکل پایا۔
سابق صدر جمی کارٹر کے بقول دو سو بیالیس کی تاریخ میں امریکا کی قسمت میں صرف سولہ برس ایسے گذرے جب مکمل امن تھا۔گویا اس وقت کرہِ ارض پر امریکا سب سے زیادہ جنگجو ملک ہے۔دو ہزار ایک سے اب تک آٹھ ٹریلین ڈالر جدل پر صرف ہو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ رقم اندرونِ ملک صنعتی و تعمیراتی ڈھانچے کو مزید بہتر اور مقابلہ پسند بنانے پر بھی صرف ہو سکتی تھی۔اس عرصے میں چین کی پوری توجہ وطن سازی پرمرکوز رہی۔ہر تین برس میں چین میں سیمنٹ کی کھپت اتنی ہے جتنی کھپت امریکا میں پوری بیسویں صدی میں ہوئی تھی۔
اگرچہ امریکا کو اسلحے اور دفاع سے متعلق افرادی قوت اور ٹیکنالوجی میں آج بھی سبقت ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جنگ جیتنے کی صلاحیت میں کمی آتی جا رہی ہے۔امریکا نے دوسری عالمگیر لڑائی کے بعد اگر کوئی مہم فیصلہ کن انداز میں جیتی تو وہ انیس سو اکیانوے کی جنگِ خلیج تھی جس میں کویت سے عراق کو نکالا گیا۔فتوحات کی فہرست میں آپ چاہیں تو انیس سو پینسٹھ میں ڈومینیکن ریپبلک، انیس سو تراسی میں گریناڈا اور انیس سو نواسی میں پاناما کے خلاف پولیس ایکشن ٹائپ فوجی کارروائی کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔
اس عرصے میں کوریا کی جنگ سے افغانستان کی لڑائی تک جتنی بھی بڑی اور طویل جنگیں ہوئیں ان میں امریکی کارکردگی مسلسل مایوس کن رہی۔ پچھلی پانچ صدیوں میں ابھرنے والی عالمی طاقتوں میں سے اتنا مایوس کن ریکارڈ پرتگال اور ولندیز سمیت کسی طاقت کا نہیں رہا۔
چھ جون انیس سو چوالیس کو امریکا سمیت پانچ اتحادی ممالک کی مشترکہ افواج فرانس کے نارمنڈی ساحل پر اتریں اور پہلے ہی دن چار ہزار چار سو چودہ سپاہی قربان ہوئے۔ جتنے اتحادی فوجی نارمنڈی پر حملے کے بعد کے ایک ماہ میں ہلاک ہوئے ا س سے زیادہ امریکی شہری اپریل تا جون دو ہزار انیس میں گن کلچر کی نذر ہو گئے۔
اگر عمرانی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو سماجی انفرادیت کے فوائد اکثر خاندانی اجتماعیت کے فضائل کی قیمت پر حاصل ہوتے ہیں۔یوں احساسِ بیگانگی سماج میں اپنی جڑیں گہری کرتا جاتا ہے اور طرح طرح سے چھلکتا ہے۔حالانکہ امریکی آئین دنیا میں واحد مثال ہے جس میں خوشی کا حصول بھی بنیادی انسانی حق شمار ہوتا ہے۔
یہ الگ بات کہ اس وقت پچاس فیصد امریکی ہی سماجی میل جول کے لیے وقت نکال پاتے ہیں۔دنیا بھر میں مایوسی و اداسی کی کیفیات ( ڈیپریشن ) رفع کرنے کے لیے جو ادویات فروخت ہوتی ہیں ان کا انسٹھ فیصد امریکا میں استعمال ہوتا ہے۔پچاس برس سے کم عمر کے امریکیوں میں غیر طبعی موت کا سب سے بڑا سبب سڑک کے حادثات ہیں۔سرکاری و نجی قرضوں کا حجم ٹائم بم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
امیر اور غریب کی آمدنی میں فرق دیگر سماجی، اقتصادی و سیاسی مسائل کی دلدل بن رہا ہے۔ٹرمپ ازم اس مایوسی کا بین ثبوت ہے۔جب خوشحال زندگی کا خواب بکھرنے لگے۔کارخانے بند ہونے کے باوجود امیر اس لیے امیر تر ہوتے چلے جائیں کہ عالمگیریت کے بہانے افراد اور اقوام کو قریب لانے کے بجائے وسائل اور روزگار سستی مزدوری کے لالچ میں سرمایہ سمندر پار منتقل ہونے لگے اور خود پر فخر کرنے والی اقتصادی، سماجی و سیاسی علامات بھی دھندلانے لگیں تو خود پر سے یقین اٹھنے لگتا ہے اور ریاست سے شہری کا عمرانی معاہدہ ڈگمگانے لگتا ہے۔
پچاس کی دہائی کے وہ دن ہوا ہوئے جب امریکی سرمایہ دار اشرافیہ کو آج کے ڈنمارک کی طرح نوے فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اعلیٰ ترین کارپوریٹ عہدیدار اور ایک عام منیجر کی تنخواہ میں زیادہ سے زیادہ تفاوت بیس گنا تھا۔آج یہ فرق چار سو گنا تک بڑھ گیا ہے اور بالائی مینجمنٹ کو حصص اور مراعات کی شکل میں جو سہولتیں میسر ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ایک فیصد اشرافیہ تیس ٹریلین مالیت کے اثاثے کنٹرول کرتی ہے۔ جب کہ پچاس فیصد آبادی کا قرضہ ان کے زیرِ استعمال اثاثوں سے بھی زیادہ ہے۔
اس وقت تین امریکی شہریوں کے پاس جتنے اثاثے ہیں وہ سولہ کروڑ امریکیوں کے مجموعی اثاثوں کی قدر کے برابر ہیں۔بیس فیصد امریکی کنبوں کے پاس زیرو اثاثہ ہے اور سینتیس فیصد سیاہ فام خاندان اسی صورتِ حال سے دوچارہیں۔متوسط طبقے میں شمار ہونے والے سیاہ فام کنبوں کی اوسط آمدنی سفید فام متوسط کنبوں سے دس گنا کم ہے۔ نسلی عدم توازن کی شکل یہ ہو گئی ہے کہ امریکی جیلوں میں آدھے قیدی سیاہ فام ہیں جب کہ وہ امریکی آبادی کا محض تیرہ فیصد ہیں۔ اکثریت کا رنگ کوئی بھی ہو اگر اسے لگاتار دو تنخواہیں نہ ملیں تو دیوالیہ پن اس کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔
اگرچہ تمام امریکی شہری بظاہر دنیا کی سب سے امیر قوم کا حصہ ہیں مگر ان میں سے اکثر جھولتی خوشحالی کی ایسی بے یقین تار پر بیٹھے ہیں جس سے گرنے کی صورت میں نیچے کوئی حفاظتی جال نہیں ۔
اس حالت کا ذمے دار کوئی نائن الیون نہیں بلکہ ’’خود کردہ را علاج نیست‘‘ والا معاملہ ہے۔امریکی ریاست کی اخلاقی قوت پر آخری سوالیہ نشان دو ہزار تین میں کھڑا ہو گیا جب عراق کو وسیع تر تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں کی پاداش میں تاخت و تاراج کر دیا گیا کہ جن کا وجود آج تک ثابت نہیں ہو سکا۔اندرونی اقتصادی کس بل کتنے پانی میں ہے۔اس کا اندازہ دو ہزار آٹھ میں ہو گیا جب دیوالیہ پن کی دلدل میں بڑے بڑے امریکی کاروباری ادارے بتاشوں کی طرح بیٹھتے چلے گئے۔
دو ہزار دس کی دہائی میں روس اور چین کے اقتصادی و علاقائی اثر و رسوخ میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا اور دوسری جانب امریکا میں سماجی و اقتصادی بحران نے ووٹروں کو ٹرمپ ازم کی جانب دھکیل دیا۔نسلی عدم مساوات نے ’’بلیک لائیوز میٹرز‘‘ تحریک کو جنم دیا اور کوویڈ نے صحت کے نظام کو بٹھا دیا۔
کوویڈ جیسا مسئلہ انسانی تاریخ میں اس لحاظ سے اچھوتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود باشندہ تشویش اور امید کے جذبے سے ایک ساتھ گذر رہا ہے۔نمک کے ذرے سے بھی دس ہزار گنا چھوٹے وائرس نے نہ صرف انسانی جسم کو نشانہ بنایا بلکہ اس کی اقتصادی و سماجی بنیادوں میں بھی بیٹھ گیا۔اگرچہ ویکیسن بھی برق رفتاری سے تیار ہو گئی مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ ویکسین کب تک کارگر رہے گی۔وائرس عیار ہے سو بھیس بدل لیتا ہے۔
وباؤں نے تاریخ کے دھارے، انسانی سوچ اور عمل پر ہمیشہ گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔جب چودھویں صدی میں یورپ میں طاعون نے ایک تہائی سے زائد آبادی چاٹ لی تو افرادی قوت کی قلت کے سبب کارکنوں کے معاوضے بھی بڑھانے پڑ گئے۔تیرہ سو اکیاسی میں یورپی کسانوں نے صدیوں میں گڑے جاگیرداری نظام کے خلاف بھرپور بغاوت کی کوشش کی۔اس سے جاگیرداری نظام کی چولیں ہل گئیں اور پھر مرکنٹائل ازم اور اس کے بل بوتے پر پہلے صنعتی انقلاب اور پھر انقلابِ فرانس کی راہ ہموار ہوئی۔
کوویڈ ہماری زندگیوں میں کون کون سی فیصلہ کن تبدیلیاں لایا ہے یا لائے گا۔اس کا اندازہ فوراً نہیں ہوگا بلکہ عشرہ وار کھلتا چلا جائے گا۔جیسے انیس سو چودہ میں آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے قتل سے شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ نے پرانی دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔یا انیس سو انتیس میں شروع ہونے والی عظیم کساد بازاری نے پرانی سرمایہ داری کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا اور اس کے ملبے سے کارپوریٹ کلچر کی تعمیر ہوئی۔
یا پھر انیس سو تینتیس میں ہٹلر کے عروج نے اگلے بارہ برس میں دنیا کو جس طرح تہہ و بالا کیا۔اسی کے اثرات کے سبب انیس سو پینتالیس کے بعد تشکیل پانے والے نئے عالمی نظام میں ہم دو ہزار بیس تک جی رہے تھے۔کوویڈ نے پچھتر برس سے رواں اس مالیاتی و اقتصادی بریٹن وڈ نظام کی تبدیلی کی نیو رکھ دی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ اس نیو پر کیسی دیوار اٹھ رہی ہے۔مگر ڈھانچہ اندر باہر سے ہل چکا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس
(جاری ہے)