مستحکم چینی معیشت عالمی اقتصادی بحالی کیلئے کلیدی محرک

"چین نے گزشتہ برسوں میں سالانہ عالمی اقتصادی نمو میں تقریباً 30 فیصد تک کے حصہ سے شمولیت کی ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں چونکہ عالمی معیشت کووڈ-19 کے اثرات اور عوامل سے شدید متاثر رہی یے چینی معیشت نے عالمی اقتصادی بحالی کے لیے کلیدی محرک کی قوت کا کردار ادا کرتے ہوئے عالمی معاشی استحکام کو برقرار رکھا ہے” اس حوالے سے کمبوڈین پیپلز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے خارجہ تعلقات کے کمیشن کے سینئر اہلکار تھونگ مینگ ڈیوڈ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ چین کی حالیہ برسوں میں کامیابیاں چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کے فوائد کو پوری طرح سے ظاہر کرتی ہیں اور چین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی اہم بین الاقوامی حیثیت اور کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔چین کے حوالے سے گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے، مینگ ڈیوڈ، جو کمبوڈیا کی وزارت محنت اور پیشہ ورانہ تربیت میں بطور سینیٹر عہدیدار بھی خدمات انجام دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ سب سے پہلے 2018 میں چین کی شنگھائی جیاؤٹونگ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔
مینگ ڈیوڈ نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ، "چین میں میرا تجربہ مجھے کمبوڈین اور چینی دونوں نقطہ نظر سے تقابلی مطالعہ کرنے کے قابل بناتا ہے، تاکہ میں چین اور دنیا میں اس کے کردار کو بہتر طور پر سمجھ سکوں۔”ان کے مطابق، چین میں اپنے ڈیڑھ سال کے قیام میں، انہوں نے بنیادی طور پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) اور کمبوڈیا کی اقتصادی ترقی پر اس کے اثرات کا مطالعہ کیا۔مینگ ڈیوڈ نے کہا، "چین ہمارا بیرونی دنیا میں سب سے قابل اعتماد ترقیاتی شراکت دار ساتھی ہے،” انہوں نے مزید کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام فریم ورک کے تحت جب سے یہ اقدام چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے مجوزہ تجاویز نے حوالے سے پیش کیا گیا ہے اسے عملی تعاون نے ٹھوس اور نتیجہ خیز نتائج حاصل کرنے میں موثر کردار ادا کیا ہے۔ مینگ ڈیوڈ نے نوٹ کیا کہ BRI بین الاقوامی تعاون کے لیے دنیا کا سب سے وسیع البنیاد اور سب سے بڑا پلیٹ فارم بن گیا ہے، جو اپنے راستے اور علاقائی معیشت کے ساتھ ساتھ اس پروگرام سے منسلک ممالک کی ترقی میں کلیدی قوت کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تجارت اور ترقی پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسیان کنیکٹیویٹی 2025 کے ماسٹر پلان کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے آسیان کو سالانہ 60 بلین سے 146 بلین ڈالر کی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام اور آسیان کنیکٹیویٹی 2025 کے ماسٹر پلان کے ساتھ ملتے جلتے اہداف کا اشتراک، ایک دوسرے سے خاصی مماثلت رکھتا ییں۔اس طرح سے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام چین اور آسیان ممالک کے درمیان جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو بڑھانے کے لیے وسیع مواقع پیدا کرے گا۔مینگ ڈیوڈ نے مزید واضح کیا کہ بی آر آئی نے دونوں فریقین کے درمیان رابطوں، مشترکہ صلاحیتوں کی تعمیر، علم کے تبادلے اور انسانی وسائل کی ترقی پر تعاون کے معیار کو بہتر بنایا ہے اور علاقائی ممالک کی اقتصادی اور سماجی ترقی کو مؤثر طریقے سے فروغ دیا ہے۔دنیا اس وقت گزشتہ ایک صدی میں نظر نہ آنے والی گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ مینگ ڈیوڈ نے عالمی امن کے تحفظ اور باہمی مفادات اور فواید کے نتائج کو فروغ دینے کے لیے چین کے عزم کو سراہا۔”چین حقیقی کثیرالجہتی تعاون کو برقرار رکھتے ہوئے بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک کمیونٹی کی تعمیر کا بھر پور حامی ہے، اور دنیا بھر کے ممالک کو سیاسی نظام، تاریخ، ثقافت اور ترقی کے مراحل میں اختلافات کو ایک طرف چھوڑنے کے لیے موثر رہنمائی پیش کر رہا ہے، تاکہ مشترکہ طور پر امن، ترقی اور مشترکہ فوائد کے حصول کی کوشش کی جا سکے۔” عالمی ترقی کو پائیدار اور لچکدار بنانے کے لیے،” مینگ ڈیوڈ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب عوامل ایک بڑے ملک کے طور پر چین کے احساس ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔کمبوڈیا کے عہدیدار نے پہلے صدی کے ہدف کو حاصل کرنے میں چین کی کامیابی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلی ترجیع، جو کہ خود کو ہر لحاظ سے ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرہ بنانا ہے، کمبوڈیا کے عہدیدار نے کہا کہ نئے دور کے لیے چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کے بارے میں شی جن پنگ کی سوچ زمانے کے سوالات کے جوابات فراہم کرتی ہے۔ چین کی کامیابی کی کلیدی محرکات عالمی بینک کی بین الاقوامی غربت کی لکیر کے مطابق، چین نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران تقریباً 800 ملین افراد کو انتہائی غربت سے باہر نکالا ہے اور اس کثیر ابادی کے معیار زندگی کو بہتر بنایا ہے۔
اس حوالے سے ایک محتاط رپورٹ کے مطابق چین نے جتنی بڑی ابادی کو انتہائی غربت کی لکیر سے باہر نکالا ہے،یہ عالمی غربت میں کمی کا 75 فیصد سے زیادہ ہے۔ مینگ ڈیوڈ نے کہا کہ چین نے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے مطلق غربت کے خاتمے کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔انہوں نے کہا کہ چین کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (CPC) کی قیادت میں ہم آہنگی پر مبنی انسانی فطرت کے بقائے باہمی کی طرف بڑی پیش رفت کر رہا ہے، اور 2030 سے ​​پہلے اپنے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کنٹرول کرنے اور 2060 سے پہلے کاربن غیر جانبداری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔انہوں نے ہائیڈرو پاور، ونڈ پاور، فوٹو وولٹک اور نیوکلیئر پاور پلانٹس کی زیر تعمیر صلاحیت میں چین کی عالمی درجہ بندی کو سی پی سی اور چینی عوام کی ایک اور بڑی کامیابی قرار دیا۔مینگ ڈیوڈ نے کہا کہ کمبوڈیا کے بادشاہ نورودوم سیہامونی نے رواں سال فروری میں بیجنگ 2022 سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب اور متعلقہ سرگرمیوں میں شرکت کی، جو کہ دونوں اطراف گہرے روابط اور روایتی دوستی کے ساتھ ساتھ کمبوڈیا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی باہمی اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔2018 میں، چینی صدر شی جنپنگ اور سیہامونی نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 60ویں سالگرہ کے موقع پر مبارکبادی پیغامات کا تبادلہ کیا۔ شی نے کہا کہ دونوں فریقوں کے درمیان جامع تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری کو مسلسل تقویت ملی ہے، جس سے دونوں اطراف کے لوگوں کے لیے ٹھوس فوائد حاصل ہوئے ہیں اور خطے اور پوری دنیا کی پرامن ترقی میں کردار ادا کیا گیا ہے۔مینگ ڈیوڈ کا خیال ہے کہ کمبوڈیا اور چین اپنی روایتی دوستی کو مزید آگے بڑھائیں گے، باہمی فائدہ مند تعاون کو مزید گہرا کریں گے اور اپنے تعلقات کو مسلسل نئی منزلوں پر لے جائیں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے