اسلام آباد میں منسٹری آف پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور بریٹش کونسل پاکستان کی اشتراک سے پیس اینڈ جسٹس نے "نیشل یوتھ کلائمیٹ ایکشن فیلوشپ” فیئر کیا۔ ایونٹ منتظمین کے مطابق اس فیلو شپ کیلئے 900 سے زائد لوگوں نے اپلائی کیا اور اپنے آئیڈیاز پیش کئے جس میں صرف 22 لوگوں کو فیلوشپ دیا گیا۔ منگل کے روز فیلوز نے سٹال لگائے تھے ، جس کو دیکھنے اور سمجھنے کیلئے مختلف یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس آئے ۔فیلوز نے سٹوڈنٹس کو اپنے آئیڈیا اور کام کے بارے میں آگاہ کیا اور ان کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔
ڈاکٹر انعام جو خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کر رہے ہیں وہ بھی اس فیئر کو دیکھنے کیلئے پشاور سے آئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ دیکھنا اور سمجھنا چاہتا تھا کہ ہم میڈیکل فیلڈ والے موسمیاتی تبدیلی کو روکنے یا کم کرنے میں کیا کیا کرسکتے ہیں ۔ یہاں آکر مختلف فیلوز نے مختلف زاویوں سے بتایا اور اس تبدیلی کو کم کرنے کیلئے کیا کیا اقدامات ہورہے ہیں۔ایک عام بندہ اپنی زندگی میں معمولی سی احتیاط کرے تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں بہت کردار ادا کرسکتا ہے۔
ثوبیا مصطفیٰ بھی اس کلائمیٹ ایکشن میں شرکت کیلئے ہنزہ سے آئی تھی اور اس کا سٹارٹ اپ تھا "گلگت میں پائیدار سیاحت”۔اس حوالے سے ثوبیا کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی آپریٹر ہی بین الاقوامی سیاحوں کو گلگت لاتا ہے جس سے ذیادہ فائدہ باہر کے لوگوں کو ہوتا ہے اور گلگت کے مقامی آپریٹر کو کم تو اس لیئے میں نے لوکل ٹورسٹ آپریٹرز کو ٹرینگ دی ان کو مارکیٹ کرنا سیکھایا کیا اور پھر ان کو پروموٹ کیا تاکہ مقامی آپریٹر ذیادہ مستفید ہو سکیں ۔ اس کے ساتھ پائیدار ماحول اور مقامی لوگوں کی مالی حیثیت بہتر ہوجائے گی ۔
علی شاہ شیرازی کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ پی ایچ ڈی سکالر ہے وہ بھی اس کو کلائمٹ ایکشن فیلو شپ کیلئے منتخب کیا گیا۔اس نے اس فیلوشپ میں "𝐂𝐥𝐢𝐦𝐚𝐭𝐞 𝐀𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐂𝐨𝐮𝐫𝐬𝐞 𝐟𝐨𝐫 𝐓𝐫𝐚𝐧𝐬𝐠𝐞𝐧𝐝𝐞𝐫 𝐂𝐨𝐦𝐦𝐮𝐧𝐢𝐭𝐲 ” پر کام کیا۔علی شاہ کہتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے بارشیں ذیادہ ہوگئی۔لیکن ہمارے کمیونٹی کو نہیں پتہ کہ موسمیاتی تبدیلی بھی کوئی چیز ہے۔اس لئے میں نے ٹرانسجنڈر سکول ملتان میں آگاہی پروگرام کیئے ان کو بتایا کہ شدید گرمی ،شدید سردی کم بارشیں اور زیادہ بارشوں کیلئے آپ نے تیار رہنا ہے اور اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ان کو یہ بھی سکھایا کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں آپ نے کردار ادا کرنا ہے ۔
فہیم اللہ (ڈی ایف او وائلڈ لائف نیشنل پارک) کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔انھوں نے بھی اس کلائمیٹ ایکشن کانفرنس میں حصہ لیا ہے ان کا آئیڈیا تھا کہ مقامی لوگوں کے ذریعے کوہ سلیمان رینج میں موجود قدرتی جنگل میں زیتون کے درختوں میں پیوندکاری یا گرافٹنگ کی جائے جس سے مقامی لوگوں کی نہ صرف زندگی بدل جائے گی بلکہ پاکستان زیتون میں خودکفیل بھی ہوجائے گا۔فہیم اللہ کے مطابق کوہ سلیمان رینج میں 25 ہزار ہکٹیئر پر جنگلی زیتون موجود ہے ۔جو بڑے پیمانے پر مقامی لوگوں کھانا پکانے کیلئے اس کے لکڑی کو استعمال کرتے ہیں۔
اس آئیڈیا کے ذریعے مقامی لوگوں کو متبادل کچھ دینا ہے۔اب مقامی لوگوں کے ذریعے اگر جنگلی زیتون میں پیوند کاری یا گرافٹنگ کی جائے تو اس سے دس، بارہ مہینے بعد مقامی لوگ زیتون حاصل کرسکتے ہیں۔جس کے بعد مقامی لوگ ان درختوں کی نہ صرف حفاظت کریں گے بلکہ مزید جنگلی درختوں میں پیوند کاری یا گرافٹنگ کریں گے ۔اس کے بعد ممکن ہے کہ جہاں پودے لگانے کی جگہ ہو وہاں بھی زیتون کے پودے لگائیں گے۔
فہیم اللہ کا کہنا تھا کہ وہاں تعلیم کی کمی ہے اس لئے ہم نے آگاہی مہم شروع کی ہے کہ کس طرح کب اور کہاں پر آپ نے پیوند کاری یا گرافٹنگ کرنا ہے اور یہ ہم مقامی لوگوں کے ساتھ پریکٹیکلی پانچ ایکڑ کو بطور ماڈل پیوند کاری یا گرافٹنگ کی کہ کوئی مشکل کام نہیں ۔ہم نے مقامی لوگوں کو یہ بھی سیکھایا کہ پیوند کاری یا گرافٹنگ کے بعد پودے کی مانیٹرنگ کس طرح کرنی ہے اور پھر پھل کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ پیوند کاری یا گرافٹنگ سے لیکر پھل حاصل کرنے تک کا مرحلہ صرف دس مہینے میں مکمل ہوجاتا ہے۔
فہیم کا کہنا تھا کہ اگر کوہ سلیمان میں موجود زیتون میں پیوند کاری یا گرافٹنگ کی جائے تو اس سے سالانہ 30 ملین ڈالر تک آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) اقوام متحدہ کی طرف سے 2015 میں طے کیے گئے اہداف کا مجموعہ ہیں، جنہیں 2030 تک حاصل کیے جانا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی حد اور اثرات کو محدود کرنے کے لئے فوری ‘موسمیاتی کارروائی’ کرنا ان اہداف بھی اس میں شامل ہیں۔جس کیلئے حکومت کام کررہے ہیں۔