پاکستان میں زرخیز زمین کا ایک وسیع رقبہ ہے لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس زمین سے ملکی ضروریات کے مطابق زرعی اجناس حاصل نہیں کرسکتے اور جو چیزیں پیدا ہو رہی تھی وہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کم ہوگئی جیسے گرمی کی شدت میں اضافہ ہونا یا بارشوں کا کم یا ذیادہ ہونا۔اسی وجہ سے پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنےکوملی اور یوں خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کئی اشیاء درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔
اب ہم زمین کو بڑھا نہیں سکتے لیکن بہتر مینجمنٹ سے زیادہ فصل ضرور حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے لیے انٹرا کراپنگ بہترین حل ہے یعنی ایک ہی زمین سے ایک ہی وقت میں ایک ہی پانی اور ایک ہی کھاد کے ساتھ دو یا دو سے زیادہ فصل حاصل کر سکتے ہیں۔
انٹراگرافنگ سے فی ایکڑ پیداوار میں 30 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹراگرافنگ سے فی ایکڑ پیداوار میں 30 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ کھادوں کے اخراجات میں 10 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے اور زمین کی زرخیزی بھی قدرتی طور پر بحال ہو سکتی ہے۔
سرگودھاسے تعلق رکھنے والے 62 سالہ محمد جاوید ڈوگرا نے امرود کے باغ میں دان کی فصل کاشت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ باغ کے قریب پانی کا بڑا نالہ ہے تو میں نے امرود کے درختوں کے گرد دائرے کو موٹا کر دیا ہے تاکہ ڈاریکٹ پانی جمع نہ ہو ۔اور اس کے بعد باقی زمین کو دھان کی فصل کے لیے تیار کرلیا۔ اب ایک فصل خرچے پوری کرتا ہے تو دوسری فصل بچت ہوتی ہے دیکھ بھال تو ایک فصل کی بھی کرنی ہے تو فصلیں اگر دو ہوں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ امرود کے درخت بڑے ہں تو ان کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ بڑا خطہ افریقہ ہے جہاں قابل کاشت 83 فیصد رقبے پر انٹراکرافٹنگ کی جاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر چائنہ جہاں قابل کاشت رقبے کے 25 فیصد پر اور تیسرے نمبر پہ بھارت جہاں 17 فیصد قابل کاشت رقبے پر انٹراکرافنگ کی جاتی ہے۔
سرگودھا سے تعلق رکھنے والے مظہر علی کا کہنا ہے کہ میں نے کریلے کے ساتھ شملہ مرچ کی فصل کاشت کی ہے اس نے بہت فائدہ دیا اس کا مزید کہنا تھا کہ انٹراکرفنگ کا مطلب یہی ہے کہ خالی زمین کو قابل کاشت میں لانا لیکن اس کے لیے آپ کو فصلوں کی سلیکشن سوچ سمجھ کر کرنا ہوتی ہے . کریلے کے ساتھ اگر توری لگاؤ گے تو یہ فائدے کی بجائے نقصان دے گی یہ تو دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں مگر ایک دوسرے کو سپورٹ نہیں کر سکتے۔ اگر توری کے ساتھ پیاز لگا دیا جائے تو یہ بہت بہتر کمبینیشن ہے۔کریلے کے ساتھ بھی پیاز لگایا جا سکتا ہے۔کریلا یا توری سایا دار ہیں تو یہ پیاز کو سورج سے بچاتا ہے ۔ جس سے آپ پیاز کو تھوڑا لیٹ مارکیٹ میں لے جا سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ ٹینڈے کے ساتھ دھنیا لگایا جا سکتا ہے۔
ہمسایہ ملک میں 70 فیصد سے زیادہ دالیں انٹراکرافنگ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں
اعجاز شاہ جن کا تعلق بھی بہاولپور سے ہے اور پچھلے دو سالوں سے انٹراکرافنگ کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ میں نے مکئی اور سویابین کی اینٹراکرافٹنگ کی جس سے مجھے بہت فائدہ ہوا ۔اسی دفعہ سویابین مہنگے داموں فروخت ہوئی اور مکئی اسی طرح سمجھو کہ فری میں ملی ۔میرے پاس زمین ایک تھی جس پر میں نے دو فصلیں کاشت کیں یعنی مکئی اور سویابین۔ پچھلے سال ٹماٹروں کے ساتھ پیاز کاشت کی تھی جس نے بہت فائدہ دیا۔ زرعی سنٹر یا حکومت کے کسی بھی ادارے نے مدد نہیں کی ، یہ سب کچھ میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا اور وہاں سے سیکھا۔
حکومت کی انٹر کرافنگ میں سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایگری ٹرانسفارمیشن پلان 2025 میں انٹراکرافنگ کا نام تک نہیں ہے۔
ڈاکٹر قیصر (ڈائریکٹر ہارٹیکلچر، ملتان) کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک کو انٹراکرافنگ کی ضرورت ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک فراہم کرنا ایک چیلنج ہے۔ یہ خوراک کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے اور کسانوں کو مناسب آمدنی حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے، لیکن انٹراکرافنگ کیلئے کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جیسے انٹراکرافنگ میں اگر ایک فصل زمین کی زرخیزی کو ختم کرنے والا ہے تو یہ لازم ہے کہ دوسرا فصل وہ لگائے جو زمین کی زرخیزی کو بڑھانے والا ہو۔
پاکستان میں انٹراکرافنگ عام نہیں اور یہ صرف ایک فیصد زرعی زمین پر ہوتی ہے
ڈاکٹر محمد حیدر (ڈپٹی ڈائریکٹر برائے مخلوط کاشتکاری) انٹرا کرافنگ میں کئی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ایسے فصلوں کا چناؤ کیا جائے جو زمین کی زرخیزی کو بڑھا سکیں جیسے گننے کے ساتھ سویابین یا کریلے کے ساتھ پیاز یا مکئی کے ساتھ سویا بین مطلب ایسے فصل کا چناؤ کیا جائے جس میں ایک فصل کا قد لمبا ہو اور دوسری فصل کا قد چھوٹا ہو۔اس کے ساتھ ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو لمبا ہوتا ہے وہ وائنڈ بریکر کام کرتا ہے پچھلے دو سالوں میں جب بہت ہوا چلی تو گندم کی فصل گر گئی تھی اس کے لیے گندم کو سٹرپ میں کاشت کریں اور درمیان میں کوئی سبزی لگائے تو اس سے سبزی بھی اچھی کاشت ہوگی اور ہوا سے گندم بھی محفوظ رہے گی۔
حکومت نے سال 2022 میں ریسرچ سینٹر فار انٹراکرافنگ بہاولپور کی بنیاد چین کی مدد سے شروع کی۔اس سنٹر نے 25 ایکڑ زمین پر ریسرچ کا کام شروع کیا ہے۔ پاکستان کے زرعی سائنس دانوں کے ساتھ چینی ماہرین بھی اس منصوبے پر تحقیقی کام کر رہے ہیں۔اس منصوبے کے تحت گزشتہ سال پنجاب سندھ اور خیبر پختونخواہ میں ایک ایک ایکڑ کے 65 ازمائشی پلاٹ لگائے گئے ان میں مکئی اور سویابین کاشت کی گئی تجربہ کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ کسانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 1500 ایکڑ زمین پر مخلوظ کاشتکاری کی جس سے کسان مطمئن نظر آئے۔