2014کے دوران، دنیا کے 75 ملکوں میں انتخابات ہونے ہیں۔ یعنی کہ آدھی دنیا کے لوگ ووٹ ڈالیں گے اور حکومتیں تبدیل ہوں گی۔پاکستان میں بھی گزشتہ مہینے فروری میں بالآخر انتخابات ہو گئے۔اگرچہ سب کو لگتا یہی ہے کہ جیسے انتخابات ہوئے ہی نہیں۔کیونکہ کچھ تبدیل نہیں ہوا۔حالیہ انتخابات میں پاکستان کے اندر ووٹر ٹرن آوٹ 50 فیصد کے آس پاس رہا ۔اگرچہ پاکستان جیسی دیگر ریاستوں میں ٹرن آوٹ 60 فیصد سے اوپر رہتا ہے۔ بھارت میں 67فیصد ہوتا ہے۔مگر پاکستان کے جو حالات ہیں اس کو دیکھتے ہوئے پچاس باون فیصد بھی غنیمت ہے۔تقریبا اتنا ہی ووٹر ٹرن آؤٹ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں بھی رہا۔
لیکن جوبات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ان ووٹ کاسٹ کرنے والوں کی مجموعی تعداد کا35 سے40فیصد وہ نوجوان تھے جن کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے مایوسی کی فضا کے باوجود نوجوان ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکلا ہے، اور یہ بات خوش آئند ہے کہ اتنے سخت حالات کے باوجود پاکستان کا نوجوان سیاسی، جمہوری اور انتخابی عمل کے ساتھ چاہے ظاہری طور پر ہی سہی ،مگر جڑا ہے۔
اگر نوجوان سیاسی عمل کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تو یہ صرف سیاسی جماعتوں کے لیے اچھا نہیں ہے،،بلکہ خود ریاست کے لیے فائدے مند ہے۔اور پوری دنیا میں ترقی یافتہ قومیں یہی چاہتی ہیں کہ ان کا نوجوان سیاسی عمل سے وابستہ رہے اور دلبراداشتہ نہ ہو۔۔۔اس لیے کہ اگر نوجوان اور شہری سیاسی عمل سے مایوسی ہوکر کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں تو پھر ریاست کے لیے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔۔کیونکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شہری ،ملکی ترقی کے لیے سوچنا اور کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کی مقتدرہ پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور انہیں کچھ پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک تو ریاست کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں پہلے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ریڈیکلائزڈ ہے اور بنیاد پرستی کا شکار ہے۔یہاں پہلے ہی کتنے لوگ ہیں جو جمہوریت اور جمہوری نظام کو مانتے ہی نہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے سبب نوجوان وقت کے ساتھ سیاسی عمل سے دلبرداشتہ ہوتے گئےتو اس کا نقصان کتنا ہوگا اور کس کو ہوگا۔
دنیا میں کئی ایسی مثالیں ہیں کہ جہاں ووٹر اور شہری انتخابی عمل اور سیاسی نظام سے مایوس ہیں اور ووٹ کاسٹ کرنےنکلتے ہی نہیں۔ مصر میں، تیونس میں، اردن میں ووٹر ٹرن آوٹ پچیس فیصد، تیس فیصد تک جا پہنچا ہے۔ کیونکہ نوجوان مایوس اور دلبرداشتہ ہیں کہ اگر وہ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں بھی سہی تو اس سے کوئی فرق تو نہیں پڑے گا۔اور یہ چیز خطرناک ہوتی ہے۔
جب عوام سیاسی عمل میں دلچسپی لینا چھوڑ دیں تو ملک ترقی نہیں کرتے۔پھر وہاں ایسے گروہ مضبوط ہوتے ہیں جو سرے سے جمہوریت دشمن ہوتے ہیں۔پھر ٹی ٹی پی جیسے گروہ مزید مضبوط ہوتے ہیں۔جونوجوان اور ووٹر جمہوری اور سیاسی عمل سے کناہ کش ہوں گے یا اس سے دور ہوں گے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ پھر کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ وہ کون گروہ ہیں جو جمہوریت کو اور ریاستی اداروں کو ملک کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔وہ یہی عسکریت پسند ہی ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ بالفرض اگر نوجوان رفتہ رفتہ نظام سے ہی مایوس ہوتے گئے تو پھر ان میں سے کتنوں کی سوچ ریڈیکلائزڈ ہوگی۔
نوجوانوں کے حوالے سے غور کرنے کا دوسرا پہلو سیاسی جماعتوں کے لیے ہے۔وہ یہ کہ جب ملک کا نوجوان اتنی بڑی تعداد میں آپ کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو آپ پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،اگر آپ سچ میں اس ملک اور ان نوجوانوں کے خیرخواہ ہیں۔
آپ کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ آپ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کس طرح کر رہے ہیں۔کیا انہیں شہریت ،انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے بارے میں بتا رہے ہیں۔یا جمہوریت کا مطلب آپ کے لیے صرف یہ ہے کہ ہم ایک سیاسی جماعت ہونے کا کلیم کرتے ہیں تو آپ ہمیں ووٹ دیں، اور اقتدار تک پہنچائیں۔اس کے بعد آپ فارغ ہیں، پھر آپ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔اگر اسٹیبلشمنٹ ہمیں اقتدار سے باہر نکالتی ہے تو آپ ہماری جنگ لڑیں۔ظاہر ہے یہ جنگ نوجوان ہی لڑ رہا ہے۔یہاں کسی ایک مخصوص یاسی جماعت کی بات نہیں ہورہی، بلکہ تمام سیااسی جماعتیں یہی کرتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس کا ووٹر جمہوری ہے، جمہوریت اقدار کا حامی ہے اور اس نے اس لیے ووٹ دیا ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت قائم ہو، اور غیر سیاسی قوتوں کا راستہ بند کیا جاسکے۔حقیقی جمہوریت یہ ہے کہ آپ جمہوریت پسند ذہنیت بھی رکھتے ہوں، آپ کے اندرسیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہو۔آپ اس ووٹر کا بھی احترام کریں جس نے دوسری جماعت کو ووٹ دیا ہے۔
اگر آپ حقیقت میں غیرسیاسی قوتوں کے خلاف ہیں تو پھر آپ نوجوان کو جمہوریت کا حقیقی مطلب بھی سمجھائیں۔انہیں بتائیں کہ کچھ جمہوری اقدار بھی ہوتی ہیں۔شہریت کا مفہوم کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کانام تو نہیں۔اگر آپ یہ نہیں کرسکتے اور خود کو ہی بالاتر سمجھتے ہیں تو آپ بھی ڈکٹیر ہی ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری سیاسی اشرافیہ عام لوگوں کو جمہوریت کا حقیقی مفہوم نہیں سمجھاتی کیونکہ حقیقی جمہوریت میں صرف عام آدمی کا فائدہ ہے۔
مصر کے سابق صدر حسنی مبارک نے کہا تھا کہ جمہوریت ہم اتنی آنے دیں گے جتنی ہم سہہ سکیں گے۔بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کے لیے کوئی بھی جماعت پوری طرح دیانتدار نہیں ہے۔ اشرافیہ چاہے سیاسی ہو یا غیرسیاسی، وہ جمہوریت کی بس اتنی ہی بات کرتی ہےجتنا وہ سہہ سکے اور جتنا اس کے اپنے مفاد میں ہو۔جبکہ مکمل جمہوریت اور جمہوری اقدار کا فروغ ہی وہ واحد شے ہے جو عوام کے مفاد میں ہے۔اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ جماعتوں کے بارے میں نہیں، بلکہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے بارے میں سوچیں۔بہ طور شہری ،اپنے حقوق کے بارے میں سوچیں۔