قلم و قرطاس کا دیوتا

قلم و قرطاس کی دنیا کافسوں کا، لکھاری، عہد حاضر کا سب سے بڑا داستان گو، محی الدین نواب بھی چل بسا۔ وہ تفریحی ادب کی دنیا کے بلاشرکت غیرے دیوتا تھے۔ انسان مر جاتے ہیں۔ لیکن دیوتا، زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوا کرتے ہیں۔ وہ آنے والے ہر عہد میں زندہ رہتے ہیں۔ محی الدین نواب بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ جیتے جاگتے رہیں گے۔ کاغذ پر لکھے حروف سے تخلیق کردہ ان کے امر کرداروں کو بھی کبھی موت نہیں آئے گی۔

محی الدین نواب نے 86 سال کی عمر پائی۔ اس طویل حیات مستعار کے 55 سال انہوں نے لکھنے میں صرف کئے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ انہوں نے پہلی کہانی کب لکھی؟ وہ کہاں شائع ہوئی۔ البتہ ان کا اپنا کہنا تھا کہ وہ پہلی کہانی جس کو پذیرائی ملی وہ ایک ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بس وہ ڈائجسٹوں کے ہی ہو کر رہ گئے۔ یہ قلمکار چونکہ ادب شناس ہر گز نہیں۔ ادبی محفلوں کی انجمن ہائے ستائشی باہمی کی محفلوں کا بھی شریک نہیں رہا۔ لہٰذا اس بات سے بالکل بے بہرہ ہے کہ دنیائے ادب کے منصب دار، ڈائجسٹوں میں چھپے الفاظ کو تحریر بھی مانتے ہیں یا نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ ان تحریروں کو ادب کے کسی نچلے ترین درجے میں جگہ دیتے ہیں یا نہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میرے ایسے نیم خواندہ کو جو درسی کتابوں کی دنیا سے ڈائجسٹوں اور ناولوں کی دنیا میں داخل ہوا۔ اسی راہ پر چلتے چلتے جھجھکتے ہوئے سنجیدہ مطالعہ کی طرف راغب ہوا۔ الحمدللہ کتاب سے ناتہ بھی برقرار ہے۔

ڈائجسٹوں کی جادوئی دنیا سے بھی رابطہ نہیں ٹوٹا۔ ہر مہینہ کم از کم تین دائجسٹ نہایت خضوع و خشوع سے پڑھتا ہوں۔ آج بھی شباب کے بیتے دنوں کی طرح ڈائجسٹ کی آمد میں تاخیر ہو جائے تو مضطرب ہو کر بار بار بک سٹال کے چکر ضرور لگاتا ہوں۔ اتنے کے باہر بیٹھا نگہبان ریک میں جھانکنے سے پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ صاحب جی! ابھی ڈیلیوری نہیں آئی۔ ڈائجسٹ ریک میں سجا دیکھ کر آج بھی دل حقیقی مسرت سے بھر جاتا ہے۔ یہ 160 روپے جو تین ڈائجسٹوں کی خریداری پر صرف ہوتے ہیں وہ واحد رقم ہے جو اپنے آپ پر خرچ کرتے ہوئے ملال کا گزر تک دل میں نہیں ہوتا۔ ادب شناس نہ جانیں کیا سمجھیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں 90 فیصد ادب پرور کتاب کی اعزازی کاپی ہی کو شرف مطالعہ بخشتے ہیں۔ ڈائجسٹوں کو پڑھنے والے وہ واحد مخلوق ہیں جو اس کو خرید کر پڑھتے ہیں۔ ان قارئین کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ وہ بھی اس دور میں جب انٹرنیٹ کے ذریعے، تفریح اور وقت گزاری کے بے شمار ذرائع دستیاب ہیں۔ محی الدین نواب اسی دنیا کے دیوتا تھے۔ ان کے کروڑوں قاری چاہنے والے تھے۔ ایک نسل نے بچپن میں ان کو پڑھنا شروع کیا۔ دور شباب گزار کر ادھیڑ عمری سے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ لیکن محی الدین نواب کے قلم کی سیاہی شائد آب حیات میں گھول کر تیار کی گئی تھی۔ وہ چودھویں کا چاند بن کر ادب کے افق پر جگمگاتا رہا۔ اسے کبھی اندیشہ زوال لاحق نہ ہوا۔ 86 سال کی عمر میں بھی ان کے قلم سے طلسماتی کہانیوں کے چشمے پھوٹ کر بہتے رہے۔ قارئین کو تصوراتی دنیاﺅں میں من پسند سپنوں کی رنگیلی پینگوں پر جھولے جھلاتے رہے۔ ان کا قلم روز آخر تک اس خوبصورت دنیا کو الوداع کہنے سے پہلے تک بوڑھا نہ ہوا۔

سسپنس ڈائجسٹ میں جس کے ساتھ ان کی چار دہائیوں سے اٹوٹ رفاقت رہی، میں آج بھی ان کی لکھی قسط وار کہانی ”ماروی“ کے نام سے جاری ہے۔ ادبی دنیا کو ایسا خدمت گار، ایسا مزدور دوبارہ کہاں ملے گا۔ محی الدین نواب سے پہلا تعارف سسپنس ڈائجسٹ کے صفحات کے ذریعے ہوا۔ اس زمانے میں سب رنگ ڈائجسٹ اپنی آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ دنیا بھر کے چنیدہ ادب سے منتخب شہ پارے ترجمہ ہو کر شائع ہوتے۔ اردو، ہندی ادب کے مانے ادبا کے افسانے، کہانیاں بھی سب رنگ کے صفحات پر چھپتے۔ امربیل اور بازی گر ایسی قاری کو جکڑ کر رکھنے والی سلسلہ وار کہانیاں بھی اسی ڈائجسٹ میں شائع ہوتیں۔ ایسی بھرپور تحیر خیز کہانیوں کے سامنے کسی اور کا چراغ کیسے جلتا۔ فروری 1977ءمیں محی الدین نواب نے قسط وار ناول ”دیوتا“ کی پہلی قسط لکھی۔

ابتداءمیں یہ ناول فرہاد علی تیمور نامی نوجوان کے گرد گھومتا تھا۔ یہ عیش پرست، رنگین مزاج لیکن محب وطن نوجوان، ٹیلی پیتھی ایسی پراسرار صلاحیت کا بھی حامل تھا۔ رومانوی چسکوں اور جرم و سزا کی کش مکش سے لبریز یہ کہانی آہستہ آہستہ مقبول ہوتی گئی۔ مقبولیت کی اصل وجہ نوجوان کی خفیہ صلاحیت ہی تھی۔ چند ہی قسطوں کے رسپانس نے مصنف کو بھی چونکا دیا۔ داستان مقبول ہوتی گئی اور اس کا پلاٹ بھی وسیع ہوتا چلا گیا۔ اس میں نئے نئے کردار شامل ہوتے گئے۔ جلد ہی سسپنس بھی اپنے ہم عصر سب رنگ کے ساتھ برابر آ کر کھڑا ہو گیا۔ سب رنگ بدانتظامی کا شکار ہو کر پہلے جزوی طور پر پھر مکمل طور پر بند ہو گیا۔ سسپنس ڈائجسٹ کو موقع ملا تو محی الدین نواب کے رواں قلم سے نکلی اس طلسماتی داستان کی بدولت نمبر ون میگزین بن گیا۔ محی الدین نواب نے یہ فینٹسی ورلڈ اپنے کمرے میں بیٹھ کر تخلیق کی۔ اس زمانے میں جب پی ٹی وی بھی صرف چند گھنٹوں کے لئے چلا کرتا تھا۔ تفریح کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ ٹیلی پیتھی کیا ہوتی ہے۔

دراصل محی الدین نواب، رئیس امروہوی کے دوست بھی تھے اور ان کے مستقل قاری بھی۔ رئیس امروہوی پرسرار علوم پر لکھا کرتے۔ ان کی تحریروں سے نواب کو ٹیلی پیتھی کے متعلق آگاہی حاصل ہوئی۔ ان معلومات کو اپنے ذہن میں جمع کیا۔ خون جگر جلا کر اس کہانی کا تانا بانا بنا۔ رفتہ رفتہ یہ قسط وار ناول شہرت کے شانوں پر سوار ہو کر سات سمندر پار جا پہنچا۔ سات براعظموں میں ہر وہ کونا جہاں ایک بھی اردو پڑھنے والا موجود تھا۔ اسی سنسنی خیز ناول کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ اس قلمکار نے پہلی دفعہ یہ کہانی ساتویں کلاس میں پڑھی۔ اس فاسٹ سٹیمپو، ہر لحظہ رنگ بدلتی قسط وار داستان نے پہلی محبت کی طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس زمانے میں ابھی یہ ناول کتابی شکل میں شائع نہ ہوا تھا۔ لہٰذا ناول کے سیکونس کو سمجھنے کے لئے مشکل پیش آئی۔ نصابی کتابیں پڑھنے کا تو پہلے ہی کوئی خاص رغبت نہ تھی۔ لہٰذا ماضی کے تمام شمارے تلاش کرنے کے لئے لائبریریوں کی خاک چھانی۔ شہر میں ڈائجسٹ پڑھنے والے عادی مجرم تلاش کئے۔ آخرکار تمام قسطیں تلاش کیں۔ ان کو ترتیب سے پڑھا تب کہیں جا کر افاقہ ہوا۔

محی الدین نواب نے غیر ملکی سفر بہت کم کئے۔ دیوتا کا کینوس وسیع ہوتا گیا۔ فرہاد علی تیمور بین الاقوامی سطح پر اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کے مقابلے میں آ کھڑا ہوا۔ اس وقت تک ریسرچ کے لئے گوگل ایسی سہولت میسر نہ تھی۔ نواب کے کمرے میں دنیا بھر کے نقشے، اٹلس اور انسائیکلوپیڈیا بکھرے رہتے۔ وہ ان شہروں میں جہاں فرہاد علی تیمور سپر طاقتوں سے نبرد آزما رہتے کا ایک ایسا نقشہ کھینچتےکہ قاری اپنے آپ کو ان گلیوں میں مجسم دیکھتے۔ سالوں پر سال گزرتے رہے۔ ”دیوتا“ کی شہرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ایک طویل عرصہ بعد معلوم ہوا کہ اس شاہکار داستان کا اصل مصنف محی الدین نواب ہیں کیونکہ ناول پر راوی ”فرہاد علی تیمور“ ہی درج ہوتا تھا۔ دیوتا کو دنیائے ادب کا طویل ترین ناول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ ناول 33 سال لگاتار شائع ہوتا اور قارئین کے شب و روز کا شریک رہا۔ رواں صدی کی پہلی دہائی کے آخری چند سالوں میں نواب علیل ہو گئے۔ ان کی دانشورانہ دیانت نے تجزیہ کیا کہ اگر وہ ناول مکمل کئے بغیر دنیا سے رخصت ہو گئے تو قاری نفسیاتی طور پر الجھ جائیں گے۔ کہانی ادھوری رہے گی۔ کسی اور نے ناول کو وائنڈ اپ کرنے کی کوشش کی تو شائد وہ اس بکھری داستان کو سمیٹ نہ سکے۔ لہٰذا انہوں نے دی اینڈ کرنے کا سوچا۔ جنوری 2010ءمیں اس طویل و ضخیم داستان کی آخری قسط شائع ہوئی۔ ناول ختم ہوا تو کہرام مچ گیا۔ قارئین کا موقف تھا کہ بہت سے کردار ابھی زندہ ہیں۔ کئی سوالوں کے جواب تشنہ ہیں۔ کئی واقعات ابھی منطقی انجام سے بہت دور ہیں۔ نواب کا موقف تھا کہ ان کی صحت اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس ناول کو جاری رکھیں۔ 33 سال چھپنے کے بعد یہ داستان تمام ہوئی۔ جو آج کتابی شکل میں موجود ہے۔

محی الدین نواب کی صحت بہتر ہوئی تو وہ دیگر کہانیاں لکھتے رہے۔ کچرا گھر، ایمان کا سفر، اندھیر نگری اور ایسی ہی سیکڑوں کہانیاں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ نواب کی آخری دنوں میں خواہش تھی کہ کوئی ”دیوتا“ کا ترجمہ انگلش میں کر دے۔ ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ وہ شہرت سے دور بھاگتے تھے۔ وہ ساری عمر لکھتے رہے۔ صرف قاری کے لئے۔ لہٰذا قاری سے دور رہے۔ لوگ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔ قلمکار نے ان کا لکھا ہر لفظ پڑھا۔ لیکن ان کی پہلی بار تصویر ان کی وفات کے بعد دیکھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔ ان کے لکھے لفظ ان کا تعارف ہیں اور قاری سے انمٹ رشتہ بھی۔ ایسے رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے