عبدالقادر کوہلی کو کیسے آؤٹ کرتے؟

2016 کے 58ویں دن میرپور کے شیر بنگلہ اسٹیڈیم میں کھیلے جا رہے ایشیا کپ کے مقابلے میں 83 رنز کے بے ضرور سے مجموعے کے دفاع میں محمد عامر نے ہندوستانی اوپنرز کو تہس نہس کرتے ہوئے پویلین واپسی پر مجبور کردیا۔ 2.4 اوورز میں آٹھ رنز اور تین وکٹوں کے حامل اس خوبصورت اسپیل نے سرحد اس پار کرکٹ کے دیوانے شائقین کے دل میں امید کی ایک نئی پیدا کردی کہ اب شاید میچ بن سکتا ہے۔

تاہم کریز پر ایک شخص موجودگی کی وجہ سے شائقین کھل کر جشن منانے سے قاصر تھے حالانکہ ایک مشکل وکٹ پر چار فاسٹ باؤلرز جارحانہ باؤلنگ کر رہے تھے۔

اس دوران تمام شائقین کے دلوں کی دھڑکنیں اس وقت تیز ہو گئیں جب گیند ان کے پیڈ سے ٹکرائی یا بلے کا باہری کنارہ لیتی ہوئی گلی کے حصے سے نکل گئی۔ سب ہی اس وکٹ کی اہمیت سے واقف تھے اور اس بات اندازہ تھا کہ وہ پاکستان کی فتح کی راہ میں واحد رکاوٹ ہیں۔ ابتدا میں انہیں تھوڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر جلد ہی انہوں نے قدم جما کر 49 رنز کی فتح گر باری کھیل کر شاہد آفریدی الیون سے اس میچ کو چھین لیا۔

20 دن بعد روایتی حریف اک بار پھر آمنے سامنے آئے تاہم اس مرتبہ یہ نسبتاً بڑا میچ تھا، دونوں ہی کولکتہ میں کھیلے گئے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے گروپ میچ میں مدمقابل تھے اور کسی کو بھی حیرات نہ ہوئی جب اسی بلے باز نے ایک مرتبہ پھر ذمے داری لیتے ہوئے 37 گیندوں پر 55 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر ہندوستان کو فتح سے ہمکنار کرایا اور ٹورنامنٹ میں اپنی ٹیم پیش قدمی کی امیدیں زندہ رکھیں۔

یہ ویرات کوہلی کے سوا کوئی اور نہیں جو بلاشبہ اس وقت دنیا کے سب سے بہترین بلے باز ہیں۔

عظیم بلے باز سچن ٹنڈولکر کو مشعل راہ سمجھتے ہوئے ان نقش قدم پر چلنے والے اس نوجوان بلے باز نے اپنی قابلیت اور بہترین اسٹروک پلے کی سبب ریفوں کیلئے ہمیشہ ہی ڈراؤنا خواب بنے رہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی یہ بات سوچنے پر مجبور ہو سکتا ہے کہ آیا اس 28 سالہ بلے باز کی کوئی قابلیت ہے بھی یا نہیں یا وہ بھی سابق پاکستانی عظیم گیند بازوں کا سامنا کرتے ہوئے خوف کا شکار ہوتے؟۔ ایسے میں میرے ذہن میں پہلا نام وسیم اکرم کا آیا ہے۔ بائیں ہاتھ کے باؤلر نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ دائیں ہاتھ کے اس بلے باز کو باؤلنگ کرنا ان کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوتا۔

لیکن پاکستان کرکٹ کی تاریخ ایسے عظیم باؤلرز سے بھری پڑی ہے جو باؤلنگ اور بیٹنگ میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام امر کر گئے۔

اس سلسلے میں میرے ذہن میں دوسرا نام عبدالقادر کا آتا ہے جنہوں نے اپنی جدت اور گیندوں میں مختلف ورائٹیز کی بدولت اپنے عہد کے بڑے بڑے بلے بازوں کو چکمہ دیا۔ عبدالقادر کی جانب سے ویرات کوہلی کو باؤلنگ کرتے ہوئے دیکھنے کا سوچ کر ہی ایک دلفریب احساس جنم لیتا ہے۔

اور پھر مجھے ایک خوبصورت صبح یہی سوال عبدالقادر سے کرنے کا بھی موقع ملا اور ماضی کے مایہ ناز لیگ اسپنر اس کے جواب میں کچھ گویا ہوئے۔

عبدالقادر نے کہا کہ ایک سازگار وکٹ پر کوئی بھی بلے باز لیگ اسپنر کے خلاف مہارت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیگ اسپنر کے پاس بہت ورائیٹیز ہوتی ہیں اور یہ صلاحیت اسے ناصرف اسپن وکٹوں بلکہ ایک آسان وکٹ پر بھی اسے کامیاب بناتی ہے۔

اس موقع پر انہوں نے کوہلی کیلئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار کیے بغیر انہیں موجودہ دور کا سب سے بہترین بلے باز قرار دیا۔ تاہم ابتدائی دعوے کو ثابت کرنے کیلئے انہوں نے ایک مثال پیش کی کہ کس طرح بہترین فارم میں ہونے کے باوجود ایک لیگ اسپنر نے ان کی وکٹ لی تھی۔

عبدالقادر نے 2011 میں ویسٹ انڈیز اور انڈیا کے درمیان کھیلی گئی سیریز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں دیکھ رہا تھا کہ ویرات وکٹ پر سیٹ ہو کر 20 سے زئاد رنز بنا چکا تھا جب ویسٹ انڈیز کے سیمیول بدری آف اسٹمپ پر گیند کرائی اور انہیں ڈرائیو کھیلنے پر مجبور کیا جس پر وہ اسٹمپ ہو گئے(یہ باؤلر انتھونی مارٹن تھے جن کو غلطی سے عبدالقادر بدری سمجھ بیٹھے)۔

ایک اوور میں چھ مختلف گیندیں کرانے کی صلاحیت کے حامل عبدالقادر کوہلی کو ان میں سے کوئی گیند نہیں کراتے اور لیگ اسپن کراتے ہوئے کوشش کرتے کہ کوہلی یہ بوجھنے کی کوشش کریں کہ وہ گوگلی کب کریں گے۔

‘آپ ایک بڑے بلے باز کے خلاف زیادہ چالاکی نہیں دکھا سکتے۔ میں انہیں لیگ اسپن کرتا اور کوشش کرتا کہ وہ میرے اگلے قدم کا انتظار کریں۔ میں کوہلی کو اپنے رن اپ سے چکما دینے کی کوشش کرتے ہوئے کریز سے دور، بیچ سے اور قریب سے گیند کرنے کی کوشش کرتا تاکہ وہ بوجھیں کہ میں کون سی گیند کرنے جا رہا ہوں’۔

کرکٹ یقیناً دماغ کی جنگ ہے اور دماغ سے جب کھیل کی بات کی جائے تو اس میں عبدالقادر کو انتہائی مہارت حاصل ہے۔

عظیم لیگ اسپنر اس دور کے سب سے بہترین بلے باز کی بیٹنگ پر گہرہ نگاہ رکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ کوہلی کی لیگ اسپنرز کی گیند کو لیگ سائیڈ پر ہدف بنانے کے شائق ہیں اور یہی چیز انہیں آؤٹ کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ان کیلئے ہندوستانی بلے باز کو گیند کرنا آسان ہے کیونکہ وہ کرس گیل یا آندرے رسل کی طرح گیند کو گراؤنڈ سے باہر نہیں پھینکتے۔

عظیم لیگ اسپنر جارحانہ ذہنیت کے حامل ہیں اور باؤلرز کی جانب سے کوہلی کو دفاعی انداز میں باؤلنگ کرتے دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اگر خود کوہلی کو باؤلنگ کرتے تو جارحانہ انداز اپناتے۔

انہوں نے بتایا کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے میچوں میں گیند اسپنر کر ہی تھی، اگر میں ان وکٹوں پر باؤلنگ کرتا تو میں ایک سلپ اور سلی پوزیشن کا فیلڈر رکھتا اور جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ باؤلنگ کرتا’۔

عبدالقادر کا کہنا ہے کہ آف اسٹمپ پر گیند کرنا لیگ اسپنر کیلئے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس طرح اسے وکٹ سے بھی ٹرن ملتا ہے اور کوہلی کو پھنسانے کیلئے بھی وہ ایسا ہی کرتے۔

‘میں آف اسٹمپ چینل پر لیگ اسپن باؤلنگ کرتا اور کوشش کرتا کہ وہ میرے پہلے پورے اوور کے دوران گوگلی کا انتظار کرے۔ میں انہیں ایک ایسی گیند پر باؤلنگ کرتا جہاں سے ان کیلئے کٹ یا ڈرائیو کرنا ناممکن ہوجاتا۔ وہ آن سائیڈ پر شاٹ کھیلنے کی کوشش کرتے جس سے بیٹ کا کنارہ لگنے کا موقع پیدا ہوتا اور اور گیند ممکنہ طور پر سلپ، سلی پوائنٹ یا لیگ پر کھڑے کسی فیلڈر کے پاس جائے گی۔

لیکن اگر وہ عبدالقاددر کی لیگ اسپن پر کوئی خطرہ مول لینے کی کوشش ہی نہ کرے توپھر وہ کیا کریں گے؟۔ اگلے اوور میں جب وہ مطمئن ہو جائیں گے اور گوگلی پر سے ان کی توجہ ہٹ جائے گی تو میں تیز گوگلی کروں گا۔

کوہلی اور عبدالقادر اپنی کہانی خود لکھتے ہیں، ردعمل دکھانے کے بجائے عمل کرتے ہیں، وہ کسی کے بھی حکم کی من مانی سے انکار کر دیتے ہیں۔

عبدالقادر اپنی حکمت عملی اور اسپن سے کوہلی کو مات دے سکیں گے یا نہیں اس کا جواب تو ماہرین ہی دے سکتے ہیں لیکن چاہے کچھ بھی ہو، ان دونوں کو مقابلہ کرتے دیکھنا ایک دلچسپ امر ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے