امریکا: پاکستان کیلئے امداد روکنے کا بل منظور

واشنگٹن: امریکی کانگریس کے پینل نے، حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر پاکستان کو 45 کروڑ ڈالر کی امداد روکے جانے کے حوالے سے بِل کے مسودے کی توثیق کردی۔

ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی جانب سے 2017 کے لیے منظور کردہ نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ (این ڈی اے اے) میں، پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے کے عزم کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا ہے۔

بِل کے مسودے میں ترمیم کے بعد، پینل کی جانب سے بعد از ادائیگی کے لیے موجود رقم کی حد ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کردی گئی ہے، جس میں سے 90 کروڑ ڈالر پاکستان کے لیے ہوں گے۔

کانگریس کی جانب سے قبل ازیں پاکستان کو دفاع کی مد میں 35 کروڑ ڈالر کی امداد روکی گئی تھی، جو صرف اس صورت میں جاری کی جائے گی جب امریکی سیکریٹری دفاع اس بات کی تصدیق کردیں کہ پاکستان، شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات اٹھا رہا ہے۔

گزشتہ سال مئی میں جب یہ شرط رکھی گئی تھی، پاکستان شمالی وزیرستان میں آپریشن مکمل کرچکا ہے۔

امریکی مبصرین بھی شمالی وزیرستان کا دورہ کرچکے ہیں اور انہوں نے علاقے سے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں کے خاتمے کے پاکستانی دعوے کی توثیق کردی ہے، جس کے بعد پاکستانی سفارت کاروں کو امید ہے کہ امریکی سیکریٹری دفاع جون کے آخر تک مطلوبہ سرٹیفکیٹ جاری کردیں گے۔

اسی طرح اگر نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ بِل کی منظوری کے بعد پاکستان کی مجوزہ 45 کروڑ ڈالر کی امداد روکی جاتی ہے، تو آئندہ سال جون سے قبل پاکستان کو توثیقی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔

بِل کے مسودے کے مطابق سیکریٹری دفاع کو اس بات کی بھی تصدیق کرنی ہوگی کہ پاکستان، شمالی وزیرستان کی سرزمین کو افغانستان میں دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال کرنے والے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور سرحد پار دہشت گردوں کے نقل و حمل کو روکنے کے لیے، افغانستان سے تعاون کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے، جب چند روز قبل کانگریس نے ایف 16 طیاروں کی خریداری کے لیے پاکستان کو امداد کی مد میں دیئے جانے والے فنڈز روک دیئے تھے، جس کے بعد امریکی حکومت نے بھی پاکستان کو امداد نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ طیاروں کی خریداری کے لیے اب پاکستان کو خود فنڈز کا انتظام کرنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے