صحافت و سیاست دو کردار

کسی بھی ملک میں دو قسم کے شعبے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

ایک ان میں سے صحافت اور دوسرا سیاست ، ان دونوں شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات عوام کی نظروں کا مرکز و محور ہوتی ہیں اور لوگ انہیں آئیڈیل کے طور پر گردانتے ہیں۔

صحافت سے وابستہ لوگ عام طور پر پڑھے لکھے، سنجیدہ اورمعتدل مزاج سمجھے جاتے ہیں اور درحقیقت ایسا ہی ہونا چاہیے۔

جب کبھی کسی ملک میں کشیدگی پیدا ہو جائے تو عوام کی نظریں صحافی برادری پر مرکوز ہو جاتی ہیں اور ان کے تجربات کی روشنی میں دی گئیں آراء چاہے ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا پھر الیکٹرانک مییڈیا سے انہیں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

اور پورے ملک میں یہ تجزیے اور تبصرے عمومی رائے اختیار کر جاتے ہیں۔ لوگ ان آراء کی روشنی میں مستقبل کے فیصلے بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمومی فضا حکومتی ایوانوں پر بھی اثر انداز ہو تی ہے۔

اس لیے ایک صحافی کو بہت سی خوبیوں سے متصف ہونا چاہیے ۔

معاشرے میں دوسرا اہم کردار سیاسی رہنما کا ہوتا ہے ، وہ عوام کے قیمتی ووٹ سے منتخب ہو کر آتا ہے ، لوگوں کا اعتماد اسے ایوان تک پہنچاتا ہے اور لوگ انہیں اپنے لیے سرمایہ فخر سمجھتے ہیں۔

سیاسی رہنمائوں کو بھی مہذب اور بااخلاق ہونا چاہیے ، اس لیے کہ اپنے لیڈر سے محبت کرنے والے لوگ اس کی ادائوں کو نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ہونے والے ایک لائیو شو میں ملک کے معروف تجزیہ کار اور سینیئر صحافی ” حسن نثار صاحب ” اور مسلم لیگ ن کے سینیٹر "مشاہد اللہ صاحب” کے درمیان ہونے والے مکالمے میں جس ذبان کا استعمال کیا گیا وہ باعث تائسف ہے اور نوبت گالی گلوچ تک جاپہنچی۔

اختلاف رائے ہو جانا عیب کی بات نہیں لیکن ایک دوسرے کی بات حوصلے سے سننی چاہیے۔

اس طرح کی نازیبا اور تہذیب سے عاری گفتگو صحافت وسیاست دونوں کی روح کے منافی ہے۔ بلکہ یہ دونوں کردار اس قدر روشن ہوں جن سے لوگ رہنمائی حاصل کر سکیں۔

دونوں کردار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا مگر انہیں خود کو بھی کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے