آزادکشمیرالیکشن دنگل: کون کیا کر رہا ہے؟

آزاد کشمیر میں سیاسی گفتگو کا سدا بہار رہتی ہے خواہ وہ آزاد کشمیر کی سیاسی صورت حال ہو ، پاکستان کی یا پھر دنیا کی لیکن ایک طالب علم سے لیکر ایک بوڑھے شخص تک کا موضوع سیاست ہوتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ آزاد کشمیر کے عوام کی عادت ہے تو بے جا نہیں ہوتا۔جب راولاکوٹ میں طالبعلم ہوتا تھا تویاد ہے کہ ایک عرصہ میں آزاد کشمیر کے کلرکوں کے مطالبات نہ ہونے کے باعث لمبے عرصے تک ہڑتالیں چلیں اور ایپکا راولاکوٹ کے اس وقت کے صدر کچہری پارک میں احتجاجی دھرنے سے روزانہ کی بنیاد پر تین چار گھنٹے خطاب کرتے اور امریکہ اور فرانس تک کی سیاست ان کی تقریروں کا موضوع رہتی تھی .

شروع میں حیرت ہوئی کہ یہ مسئلہ تو مقامی انتظامیہ سے ہے اس میں امریکہ یا فرانس کی سیاست کا کیا کردار لیکن بعد سمجھ آئی کہ جب تک ہم بین الاقوامی سیاست کو زیر بحث نہ لائیں تب تک ہماری تقریر پوری نہیں ہوتی۔اس وقت بھی بین الاقوامی سیاست بالخصوص امریکہ کہ انتخابات کے ساتھ آزاد کشمیر کے انتخابات بھی موضوع بحث ہیں امریکہ کی سیاست سے تو نابلد ہوں لیکن آزاد کشمیر کی سیاسی صورت حال پر کچھ سوالات جو ہر زبان زد عام ہیں ان پر ناقص سا تبصرہ کروں گا۔ اس وقت آزاد کشمیر کی سیاست کے حوالے سے سب سے زیادہ جو سوالات سامنے آ رہے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

کیا مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کیلئے سادہ اکثریت حاصل کر سکے گی؟

کیا بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سردار عتیق کا سیاسی اتحاد مطلوبہ نتائج حاصل کر پائے گا؟

سردار خالد ابراہیم کیا کرنے جا رہے ہیں؟

مشتاق منہاس کا اگلی حکومت میں کیا کردار ہو گا؟

پیپلز پارٹی انتخابات میں کیا کرنے جا رہی ہے؟

قوم پرست جماعتوں کی حکمت عملی کیا ہو گی؟

ممکنہ اتحاد کیا کیا ہو سکتے ہیں اور ان کے نتائج کیا ہوں گے؟

اس میں سب سے پہلے آزاد کشمیر میں ن لیگ کی سیاسی صورتحال کو موضوع بحث بنایا جائے تو وہ آزاد کشمیر کی سیاست میں ابھی تک نا پختہ اور غیر متوازن نظر آتی ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال وفاقی وزراء کی آزاد کشمیر میں سرکاری عہدیدران کے خلاف تلخ لہجہ اور پھر رد عمل پر اس سے بڑھ کر ردعمل دینا اور دوسری بڑی کمزوری مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں یہ نظر آئی کہ وہ تنہا اور بغیر کسی بڑے نام کے ساتھ انتخابات میں آنے کے ساتھ ساتھ اندرونی اختلافات کا شکار بی نظر آ رہی ہے۔

آزاد کشمیر کی سیاست کو دیکھا جائے تو یہ ہمیشہ بڑے ناموں کے ساتھ چلتی رہی ہے اور اس حوالے سے گزشتہ انتخابات (2011 ) کی مثال دینا چاہوں گا ۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ آزاد کشمیر کی سیاست پر با اثر شخصیات جن میں سردار یعقوب خان اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو بھی شامل کیا اور ان کو اہم مقام دیا یہاں تک کہ بیرسٹر سلطان کوانتخابی مہم کا انچارج بھی بنایا جس کا پیپلز پارٹی کی سیاست بڑی حد تک مثبت اثر پڑا لیکن ن لیگ کی موجودہ پالیسی کو دیکھا جائے تو یہ نا صرف اہم شخصیات کو خود سے دور رکھے ہوئے ہے بلکہ اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہے۔ابھی تک کسی انتخابی حلقے میں کسی بڑی شخصیت کو شامل کرنے میں ناکام رہے کوٹلی سے ایک بڑی شخصیت کو شامل کیا لیکن وہ بھی اندرونی حالات سے تنگ آ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔

ن لیگ کی قیادت اس وقت سمجھ رہی ہے کہ وہ تنہا انتخابات میں آ کر حکومت بنا سکیں گے تو یہ انتہائی مشکل ہو گا کیونکہ وہ مسلم کانفرنس کی ٹوٹی ہوئی جماعت ہے اور ہر حلقے میں مسلم کانفرنس کا کم یا زیادہ ووٹ بنک ن لیگ کے امیدواروں کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے ۔عوامی رائے کو ہموار کرنے کیلئے جلسے جلوسوں اور ورکرز کنونشن کا اہتمام کیا لیکن ان کو بھی وفاقی وزراء کی بد زبانی اور دیگروجوہات کی وجہ سے مکمل ثمرات حاصل نہ کئے جا سکے۔

جماعت کی مرکزی قیادت جموں کشمیر پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی سے اتحاد کی سوچ رہی ہے لیکن آزاد کشمیر ن لیگ کا اس حوالے سے انکاری سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ جماعت اسلامی کی حمایت کے بغیر راجہ فاروق حیدر کا اپنی نشست جیتنا مشکل نظر آتا ہے اسی طرح جموں کشمیر پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر ڈاکٹر نجیب نقی اور سردار خان بہادر کی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی۔

سب سے اہم بات یہ کہ ن لیگ آزاد کشمیر کے دوسرے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور ان کی مرکزی قیادت آزاد کشمیر کے معروضات سے نابلد بھی نظر آ رہی ہے اور جس قدر کامیابی کی توقع وہ لگائے بیٹھے ہیں اس کا حصول مشکل نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کی آئندہ حکومت یک جماعتی کے بجائے مخلوط ہو گی۔

آزاد کشمیر کے آئندہ انتخابات میں مسلم کانفرنس اور تحریک انصاف کے اتحاد سے تحریک انصاف کے کارکنوں میں خاصی مایوسی دیکھنے کو ملی اس سے قبل بھی جب بیرسٹر سلطان کو تحریک انصاف آزاد کشمیر کا صدر بنایا گیا تو اس وقت سے پرانے کارکنان کے کئی تحفظات سامنے آ رہے ہیں اور ان میں شدید مایوسی ہے کہ ایک ایسا شخص جس کو جماعتیں بدلنے سے فرصت نہیں اسے جماعت کا صدر بنا دیا ہے۔ اس اتحاد کو اقتدار میں رہنے کے خواہشمندوں کا گٹھ جوڑ قرار دیا جا رہا ہے ۔ مسلم کانفرنس کے پاس اسوقت اسمبلی میں چار جبکہ تحریک انصاف کے پاس صرف ایک نشست ہے اس کے باوجود انہوں نے کونسل کے انتخابات میں چودہ ووٹ لئے جو پیسے کی ریل پہل کے علاوہ آئندہ عام انتخابات میں بھی اس طرف جھکاؤ دکھا رہے ہیں۔

اس اتحاد سے ایک طرف کارکنوں میں مایوسی اور دوسری طرف کچھ سیاسی حلقوں کو بھی آنکھ میں کھٹک رہا ہے کیوں کہ بیرسٹر سلطان سے لاکھ اختلافات سہی لیکن وہ انتہابی مہم کو عمدہ طریقے سے چلاتے ہیں جس کے نتائج حیران کن بھی ہو سکتے ہیں لیکن کچھ حلقے اس اتحاد کو متاثر کرتے نظر آئیں گے جیسے کہ مظفر آباد (حلقہ کھاوڑہ اور کوٹلہ)اور باغ میں حلقہ وسطی پر دونوں جماعتوں میں اختلافات کا باعث بن سکتے ہیں تاہم اقتدار کیلئے اس قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں کلی طور پر یہ اتحاد مسلم کانفرنس کیلئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے تاہم یہ دو جماعتی اتحاد حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا جب تک پیپلز پارٹی ان کے ساتھ نہ ہو۔

سردار خالد ابراہیم کی جماعت آزاد کشمیر میں زیادہ کارگر ہو یا نہ لیکن پونچھ اور سدھنوتی کے حلقوں میں بااثر نظر آتی ہے ۔اس سے قبل سردار خالد ابراہیم کو ن لیگ کے اتحاد میں لا کر آزاد کشمیر کی صدارت دینے کی خبریں بھی آچکی ہیں لیکن ان کی اتحاد کی پہلی ہی شرط (نواز شریف ان کے پاس جا کر اتحاد کرے)پوری ہوتی نظر نہیں آرہی اس لئے تنہاان کا مستقبل بھی خاص نظر نہیں آ رہاتاہم وہ انتخابات میں اثر انداز ہوتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ آج ہر جماعت یا الائنس سردار خالد ابراہیم کو اپنا اتحادی بنانے کی کوشش میں نظر آ رہا ہے۔

مشتاق منہاس ن لیگ کے ٹکٹ سے باغ کے انتخابی حلقہ وسطی سے انتخابات میں آ رہے ہیں گو کہ ان کو مرکز کی حمایت حاصل ہے لیکن ان کو جماعت کے اندر سے مخالفت اور انتخابی حلقے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔اس سے قبل کئی سیاسی اور صحافتی حلقے ان کو آزاد کشمیر کا آئندہ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں ۔ ان کے حلقے کی صورتحال دیکھتے ہوئے ان کی جیت کسی صورت ممکن نظر نہیں آ رہی ہے۔ کئی حلقے مشتاق منہاس کو آزادکشمیر کی آئندہ فریال تالپور بھی کہتے ہیں تاہم ایسا بھی نظر نہیں آ رہا کیونکہ وہ پارٹی ڈسپلن میں آ چکے ہیں ان کا مرکزی قیادت (میاں نواز شریف) سے جو تعلق پہلے تھا اب کسی طور ممکن نہیں ہو سکتا ۔

قوم پرست جماعتیں جو خود کو ریاست جموں کشمیر کا وارث سمجھتی ہیں وہ بھی انتخابی عمل کا حصہ بننے جا رہی ہیں ۔ ایک جماعت تو گزشتہ انتخابات میں بھی سامنے آئی لیکن قابل ذکر مقبولیت حاصل نہ کر سکی کئی دیگر وجوہات کے ساتھ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے سوائے نعروں کے اس لئے انتخابی میدان میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں رہتی۔

ممکنہ اتحاد کو دیکھیں تو میثاق جمہوریت کو لیکر مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی سے کرنا چاہیے تاکہ معائدے کی پاسداری ہو سکے یہ اتحاد اگر انتخابات سے قبل ممکن نہ ہوا تو انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں کی ضرورت ہو گا(اگر پیپلز پارٹی کسی گرینڈ الائنس کا حصہ نہ بنی تو) اور اس کے نتائج مضبوط حکومت لیکن عوام کے حالات اس سے بھی ابتر ہونگے۔ ایک اور ممکنہ اتحاد مسلم لیگ ، جموں کشمیر پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کا ہو سکتا ہے یہ اتحاد حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔

اس اتحاد میں کچھ مشکلات ضرور ہیں جیسے کہ سردار خالد ابراہیم کی ہٹ دھرمی (کہ میاں نواز شریف ان کے گھر آ کر اتحاد کریں، دو جماعتی اتحاد ہونا چاہئیے ) سب سے بڑھ کر پونچھ کا حلقہ تین (راولاکوٹ شہر) کیونکہ گزشتہ انتخابات میں بھی اسی تین رکنی اتحاد کی وجہ سے سردار خالد ابراہیم اور جماعت اسلامی کے سابق امیر سردار اعجاز افضل مد مقابل آ گئے تھے اور دونوں کو سردار یعقوب سے شکست ہوئی تھی)اور کچھ دن قبل سردار خالد ابراہیم نے زرداری حکومت کو نواز حکومت سے بہتر بھی قرار دیا تھااس وجہ سے بھی ن لیگ آزاد کشمیر سردار خالد ابراہیم سے دور ہو رہی ہے

۔تیسرا اتحاد مسلم کانفرنس اور تحریک انصاف کا اتحاد ہے جو انہی دو چھوٹی جماعتوں جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سے اتحاد کر کہ انتخابات میں ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کر یں گے۔

یہ کچھ انتخابی الائنسز پر تبصرہ تھا۔ سیاسی جماعتوں کے منشور اور دیگر چیزوں کو دوسرے کالم میں سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے