پَٹ بھی ہماری ، چَٹ بھی ہماری

پاکستان کا وجود ایک ایسی اسلامی و فلاحی ریاست پر رکھا گیا جس میں اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ہر شہری کو بلا تفریق، رنگ و نسل مساوی حقوق مل سکیں، اس لئے پاکستان کے نام کیساتھ اسلامی جمہوریہ کا لفظ لکھا گیا۔ پاکستان کا آئین و قانون اپنے ہر شہری کی جان و مال، عزت و حرمت کی ضمانت دیتا ہے۔قانون کی حکمرانی، آئین کی بالا دستی اور انصاف کی فراہمی ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سے ہی جمہوری نظام اور ملکی استحکام کے ساتھ ساتھ گڈ گورننس کویقینی بنا یا جا سکتا ہے تاکہ ایک عام شہری کے مسائل ومشکلات کوبہتر اندازسے حل کیا جا سکے۔ سزا و جزا کا قانون اب مذاق لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقوں کی محرومیوں اور مایوسیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ایک روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرہ کا قیام بھی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

معاشرے کے مختلف طبقوں کے درمیان عدم مساوات کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے جس سے حکمرانوں اور عوام کے اندر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے معاشرتی، سماجی اور نسلی اور لسانی اختلافات کو فروغ مل رہا ہے۔
ہمار ا ملک آج کل جن بحرانوں کا شکار ہے اس کی ایک بڑی وجہ انصاف کی عدم فراہمی ہے۔ ہمارے حکمران اور سیاست دان خود کو احتساب سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک ملک پر قابض طبقات کو معلوم ہے کہ قانون میں لچک، نرمی، رشوت، سفارش اور اپروچ استعما ل کرنا کا حق سیاست دان، بیورکریٹ، بزنس مین اور حکمران طبقہ کو حاصل ہے۔ ہمارا قانونی سسٹم اچھی طرح جانتا ہے اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو ان کو اپنے منصب سے بے اثر اور بے دخل کر دیا جائے گا جس سے ان کے ناجائز اختیارات کے ساتھ ذاتی مفادات کے مزے بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس ثناء میں اکثر واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ غریب، بے بس، بے اختیار اور لا چار شہریوں کو انصاف کیلئے قانون میں سختی، اور جبر کے ساتھ دھونس،دھمکیوں کا سامنا بھی کرناپڑتا ہے۔

ایسے کئی ٹیسٹ کیس، واقعات موجود ہیں جس میں قانون کی پاور ہونے کے باوجود انصاف اپنے تقاضا پورے نہیں کر سکاجس سے اس کا اندھا پن صاف نظر آتا ہے۔حال ہی میں پیش آنی والی درد ناک کہانی جس میں ایک مشہور سیاست دان، سابق وفاقی وزیرکے بیٹے نے عدالتی سسٹم کے بے اثر، بے اختیار، بے سود ا ہونے کی مثال قائم کی۔ صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو نے بہت ڈھٹائی ساتھ ایک انتہائی شریف فیملی کے واحد چشم وچراغ زین کو قتل کر دیا۔ مدعی اور تمام گواہوں کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ڈرایا اور دھمکایا گیا۔ خوف و ڈر سے ان سب کی زندگیوں کی قیمت لگا کر خرید لیا۔ پھر وہی ہوا عدالت کے اندر سب گواہ منحرف ہو گئے اور صدیق کانجو اپنے باپ کے سیاسی اثر و رسوخ، دولت اور اختیار کے بنیاد پر باعزت بری ہوگئے او ر کیس ختم ہو گیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اور حکومت قانون کی پیچیدگیوں کے آگے بے بس ہے۔ قانون یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ شخص قاتل ہے مگر اس کے باوجود وہ باعزت بری ہو کر عوام کو یہ پیغام دے گیا ہے کہ سیاسی اثرو رسوخ، پاور، اختیار، رشوت اوردولت کے آگے قانون ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ ریاست اپنی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کرتی۔اس کے ساتھ مدعی، گواہان کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی جاتی کیا زین کا قصوریہ تھا کہ وہ ایک عام شہری کے گھر پیدا ہوا۔لگتا ایسا ہے کہ حکومت،قا نون و آئین نے شہریوں کو یہ پیغام دیا کہ اختیار، پاور اور قیمت کی بناء پر ایسے قدامات کئے جا سکتے ہیں اور ان کو روکنا ان کے بس کی بات نہیں۔

ہما رے جوڈیشنل / عدالتی نظام میں ان گنت خامیاں موجود ہیں جو حصول انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں جس کی وجہ سے عوام کا نظام عدل کے اوپر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناانصافی کا عنصر غربت، مہنگائی اور بد امنی جیسے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ جس سے ملکی اور معاشرتی سطح پر عدم اطمینان پھیلاتا جا رہا ہے آخر میں اختتام اس شعر پر کہ شاید اس ملک میں قانون اور آئین کی بالا دستی اصل روح کے مطابق قائم ہو سکے۔
قَانون کا انصاف اب مذاق لگتا ہے
یہاں جابر مظلوم صابر محکوم لگتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے