شناخت کی سیاست اور ہمار انکتہ نظر

حالیہ جاری دلت شناخت کو لے کر جو بحث سوشل میڈیا سے شروع ہو ئی تھی وہ اب نیوز بلاگز تک پہنچ چکی ہے۔شناخت کی سیاست کیا ہے اور اس کا آغاز کن مقاصدکو لے کر شروع ہوا ترقی پسند تحریک کے لئیے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

پاکستان میں ترقی پسند سیاسی تحریک جہاں اور بہت سے فکری مغالطوں کا شکار ہے وہاں 1980ء کی دہائی کے بعد پوسٹ ماڈرن ازم کے بطن سے جنم لینے والے سیاسی پاپولزم نے بھی ترقی پسند سیاسی نقطہ نظر اور طبقاتی نظرئیے کی تحریک کو کافی زک پہنچائی ہے۔ عام طور پر سیاسی پاپولزم جو کہ مختلف شناختوں کی بنیاد پر جنم لیتا ہے اپنی طرف مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی پرتوں کو متوجہ کرتا ہے۔ چنانچہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس میں سے جنم لینے والا یہ پاپولزم کسی حد تک محنت کش طبقہ کی صفوں میں بھی سرایت کر کے محنت کش طبقے کی یونٹی اور شناخت کو مندمل کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس موضوع پر اپنی بات کو مز ید گیرائی کی طرف لے جائیں بہتر ہو گا کہ ہم شناخت کی سیاست اور شناخت سے کیا مراد ہے پر کچھ وضاحتیں پیش کر دیں تاکہ آگے چل کر قاری کے لیے موضوع کے فہم کو سمجھنے میں آسانی رہے۔

شناخت کی سیاست سے مراد ہے کہ کسی بھی شخص/فرد کو اس کی شناخت کی بنیاد پر تسلیم کیا جائے اور سیاست میں اسے اس کی تسلیم شدہ شناخت کی بنیاد پر متحرک کیا جاسکتا ہے اور متحرک کیا جانا چاہیے۔ شناخت کی سیاست کے نزد یک ایک انسان کی مختلف شناختیں ہو سکتی ہیں لیکن اس کی شناخت وہی ہو گی جس کے ساتھ وہ اپنی شناخت تسلیم کروائے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی شخص مرد بھی ہو سکتا ہے کھیت مزدور بھی اور دلت بھی ۔ لیکن اگر وہ یہ سمجھے کہ اُس کی ذات اُس کی شناخت ہے تو اُس کو اس کی ذات کی بنیاد پر ہی متحرک کیا جاسکتا ہے نہ کہ اس کی ورکر شناخت یا کام کی بنیاد پر۔ شناخت کی سیاست اختلافات اور علیحدگی پر زور دیتی ہے تاکہ منفرد شناختوں کو اُبھارا جائے جس سے لوگ ایک دوسرے کے قریب آنے اور اپنی مشترکہ شناخت پر متحرک ہونیکی بجائے اپنی مختلف شناختوں (رنگ، نسل، لسان، قومیت، برادری، مذہب، فرقہ وغیرہ) کی بنیاد پر متحرک رہیں اور ریاست کے ساتھ مطالبہ بازی تک محدود رہیں۔ اس لیے شناخت کی سیاست بنیادی طور پر سماج میں کسی مشترکہ شناخت کی بنیاد پر جدوجہد کو تقسیم کر کے مختلف شناختوں میں بانٹنے کا کام کرتی ہے۔ عمومی طور پر شناخت کی سیاست کے علمبردار سماج میں رنگ، نسل، زبان،قومیت، جنس، مذہب، فرقہ اور برادری یا اس طرح کے کسی بھی دوسرے فرق کو تسلیم کرنے پر اپنا سارا زور دیتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی شناخت نظر نہیں آتی تو وہ شناخت ہے طبقے کی شناخت، ذرائع پیداوار کے مالک اور بے مالک طبقات کی شناخت، Have اور Have Not کی شناخت۔

اگر ہم اپنی سہولت کے لئے شناخت کو دو حصوں میں تقسیم کرلیں تو دو خانے واضح ہو جائیں گے۔ یعنی کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی سماج میں انسانی شناخت یا تو ذرائع پیداوار اور آلات پیداوار سے جنم لیتی ہے یا پھر سماجی سٹرکچر اور دوسری قدرتی وجوہات سے جنم لینے والی شناخت۔ مثال کے طور پر کسی کا رنگ کالا ہے یا گورا اس کا تعلق موسمی، علاقائی، نسلی حوالوں سے ھے، جو کہ اس انسان کے اپنے بھی بس میں نہیں ہے۔ اسی طرح سے جنس کا معاملہ ہے۔ زبان کا معاملہ ہے۔

شناخت کی سیاست کے علمبردار بنیادی طور پر سماج میں کسی بھی وجہ سے ظاہری طور پر پائے جانے والے فرق کو بنیاد بنا کر سیاست کو ترجیح دیتے ہیں اور اس طرح سے اُس سماجی گروہ کو مشترکہ جدوجہد سے باہر نکال کر ریاست کے کام کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کی منظر کشی ہمیں پاکستان میں ہونے والی سیاست میں باخوبی نظر آرہی ہے۔ نسل، ذات، زبان،قومیت، مذہب ، فرقہ اوراب دلت کے نام پر ہونے والی سیاست ہمارے سامنے ہے۔

شناخت کی سیاست کے علمبردار فرق کے اتنے دلدادہ ہیں کہ اگر ان کو کوئی فرق نظر نہ آرہا ہو تو زبانوں کے مختلف لہجوں (Dialects) کی بنیاد پر سیاست استو ار کرنا ہمارے سامنے ہے۔غرض کہ شناخت کی سیاست سماج میں نظر آنے والے یا نہ آنے والے کسی بھی فرق کو تو ابھارتی ہے لیکن اگر نہیں ابھارتی تو وہ طبقاتی شناخت ہے۔

[pullquote] شناخت کی سیاست کا تاریخی پس منظر
[/pullquote]

1980ء کی دہائی میں سامراجی گلوبلائزیشن کی ایجاد ہوئی جس کے پیچھے گلوبل فنانس کیپیٹل نے فیول فراہم کیا۔ اس سامراجی گلوبلائزیشن اور گلوبل سرمائے کی نقل و حمل کو نئی سائنسی ایجادات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بھی خوب قوت فراہم کی۔ عالمی سرمایہ داری کے اس دور میں سوشلزم کو سوویت یونین کی اتھل پتھل نے بھی شدید دھچکا لگایا اور عالمی سطح پر اس تصور کو بھی شدید دھچکا لگا کہ لوگ سرمایہ داری نظام کو گرا کر اس استحصال سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ سوشلزم کو دھچکا لگنے کی وجہ سے لسانی، قومیتی اور نسلی شناختوں کی سیاست نے خوب زور پکڑنا شروع کر دیا۔ یہی سب کچھ ایک فیشن کی مانند بالکان، مشرقی یورپ اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں جنم لینے لگا۔
فنانس کیپیٹل کی ایجاد اور سوشل ازم کی کمزوری نے شناخت کی سیاست کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ لسانی شناخت کی سیاست ہی تھی جس نے یوگو سلاویہ کی ریاست کے ٹوٹنے کا عمل تیز کیا۔ سلاوینیہ، کروشیا کی تخلیق، بوسینا میں جنگیں اور یوگو سلاویہ کا مختلف نئی ریاستوں میں تقسیم ہونا شناخت کی سیاست کا عالمی سطح پر پھیلنے کا ثبوت ہے۔ مالیاتی اور یورپی سرمایہ نے سابق سوویت یونین کی مختلف قومیتوں کے درمیان مختلف تنازعات کو National Anatoganism کے نام پر ہوا دی اور نئی بننے والی منڈیوں میں اپنی شمولیت کو یقینی بنایا۔ سابق سوویت یونین کی اتھل پتھل اور نئی ریاستوں کی تخلیق دراصل ان ریاستوں کے اندر مارکیٹ اکانومی کو استوار کرنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ عالمی مالیاتی سرمایہ ملٹی پل شناختوں میں منتشر لوگوں کے ساتھ ڈیل کرنا اپنے لیے زیادہ آسان دیکھتا ہے۔ یہ اُس کے لیے آسان ہے کہ وہ مارکیٹ اکانو می کو نئی ریاستوں میں شامل کرے اور ان کا کنٹرول حاصل کرے۔

کنزومر ازم اور منڈی مختلف گروپوں کو اپنے اندر شامل کرتی ہے اور ان کی مختلف شناختوں کو ابھارا جاتا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوں اور سرمایہ کے استحصال اور منڈی کی برتری کو چیلنج نہ کر سکیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست اور سامراجی گلوبلائزیشن کے لیے ایک سے زیادہ شناختوں پر مبنیٰ گروپ زیادہ آسانی سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان کو عالمی یکجہتی کے بینر تلے ایک کرنا اور یہ مطالبہ کرنا کہ معاشی پیداوار اور قدرزائد کی تقسیم برابری کی بنیادی پر کی جائے ایک مشکل ٹاسک بن جاتا ہے۔ سرمایہ داری کی اس گلوبل شکل نے پوسٹ ماڈرن ازم کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔ پوسٹ ماڈرن ازم کو پوسٹ مارکسسٹ تھیوری کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسی پوسٹ ماڈرن ازم نے شناخت کی سیاست کو بنیادیں فراہم کیں ہیں۔

[pullquote] پوسٹ ماڈرن ازم کیا ہے؟
[/pullquote]

پوسٹ ماڈرن ازم ایک بورژوا فلسفیانہ اظہارہے جو کہ 20ویں صدی کی آخری دھائی میں سرمایہ داری کی جیت اور سوشلزم کی وقتی پسپائی کے نتیجے میں ابھر کے سامنے آئی۔ یہ مارکس ازم اور لینن ازم کی نفی ہے۔ یہ اس اعلیٰ احساس کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی ہے کہ ترقی پسندی اور روشن خیالی مردہ اور ختم ہو گئی ہے۔ پوسٹ مارڈن ازم نے تر قی پسندی کی تمام قدروں پر سوال اٹھایا اور اس فلسفہ اور سیاست کو مسترد کیا جو کہ (Universal)عالمی اور(Totalising) پر مبنیٰ تھی۔ پوسٹ مارڈرن ازم نے تمام Totalising تھیوریوں کو Meta Narratives کہہ کر مسترد کر دیا۔ پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک تمام اس طرح کی تحریکیں جو کہ آزادی کے عالمی اور یونیورسل پر انحصار کرتی ہیں وہ دراصل نئی طرح کے جبر ااور استحصال کا سبب بنتی ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم سرمایہ داری اور سوشلزم کو ایک نظام اور ڈھانچہ کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ پوسٹ ماڈرن ازم صرف شناختوں کے مجموعہ، اختلافات اور تنازعات کو تسلیم کرتا ہے اور ان کو ابھارتا ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم اپنے آپ کو انقلابی سماجی نظریہ کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ سرمایہ داری کو چیلنج نہیں کرتا یہ بورژوا نظریوں کا متبادل نہیں ہے بلکہ یہ مارکس ازم کو Counter کرنے کیلئے ایک میزبان کے طور پر استعمال ہو تا ہے۔ اور ایک ایسی سیاست کو ترجیح دیتا ہے، جس سے سرمایہ داری نظام کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہ پوسٹ ماڈرن ازم اور پوسٹ مارکس ازم ہے یہاں سے شناخت کی سیاست جنم لیتی ہے۔ پاکستان آج پوسٹ ماڈرن ازم کی اس سیاسست کا جتنا شکار ہے شائد ہی کو ئی معاشرہ ہو۔جہاں ورکنگ کلاس یونٹی کو جس قدر اس سیاست نے تقسیم کیا ہوا ہے شائد ہی کہیں اور ہو۔پاکستانی سماج میں تقسیم کی عمودی لائنیں دن بدن گہری ہو رہی ہیں اور افقی لائنیں اس قدر مندمل ہو چکی ہیں کہ کہیں نظر ہی نہیںآتی۔سماج لسانی، مذہبی فرقہ وارانہ،نسلی،برادری ازم،علاقیت اور قومیتی حوالوں سے اس قدر منقسم نظر آتا ہے کہ طبقاتی تقسیم اور طبقاتی سیاست کہیں نظر ہی آتی۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ طبقاتی سیاست کے علمبردار بھی اس سیاست کی بھول بھلیوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔

[pullquote] کیا سماجی شناختیں سماج میں استحصال کا ذریعہ بنتی ہیں؟
[/pullquote]

عام طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب سماجی شناختیں سماج میں استحصال کا سبب بنتی ہیں تو پھر کیوں نہ ان شناختوں کو تسلیم کیا جائے اور ان کی بنیاد پر استحصال کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف سماجی شناختوں کی بنیاد پر استحصال نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض دفعہ اور موقعوں پر کئی مخصوص سماجی شناختوں کی بنیاد پر استحصال کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مزدور کا بھی استحصال ہوتا ہے اور اگر ہمارے ملک کے اندر وہی مزدور کسی اقلیت یا نچلی ذات سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا استحصال شاید اس سماجی شناخت کی بنیاد پر بھی ہوتا ہو۔ اسی طرح کی صورتحال بعض دفعہ چند نامساعد حالات کی وجہ سے بعض دوسری سماجی شناختوں کی صورت میں بھی سامنے آ سکتی ہے۔

[pullquote] (What is to be done) کیا کیا جائے.
[/pullquote]

اس حوالے سے ہمیں شناخت کی سیاست کے علمبرداروں کے چنگل سے بچنا ہو گا اور بائیں بازو کی انتہا پسندی سے بھی کیونکہ ہمارے بائیں بازوکے بعض علمبردار بھی بعض اوقات صرف طبقاتی شناخت کی بنیاد پر استحصال پر زور دیتے ہیں اور دوسری سماجی شناختوں کی بنیاد پر استحصال کو رد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے درست مارکسسٹ لیننسٹ نقطہ نظر یہی ہے کہ ہم سماج میں ہر طرح کے استحصال کے خلاف آواز بلند کریں اور ہر جگہ اس کی نفی کریں خاص طور پر اپنی تنظیم کے اندر ایسا ماحول تشکیل دیں کہ یہاں ہر قسم کے سماجی تعصبات سے پاک رشتے قائم ہو سکیں اور تنظیم کے اندر ان نچلی ذاتوں کے ساتھیوں کو اپنی قیادت کا حصہ بنانا ہو گا ۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جو بات اپنے سامنے مدنظر رکھنی ہے کہ سماجی شناختوں اور تعصبات کی بنیادیں مادی ہوتی ہیں اور کسی انسانی گروہ کے اندر کسی دوسرے انسانی گروہ کے متعلق مثبت اور منفی خیالات کا پیدا ہونا دراصل اردگرد کے سماجی ماحول پر منحصر ہوتا ہے جس ماحول میں اس کی پرورش ہوئی ہے۔ مارکس نے بھی کہا تھا کہ
"To me the idea is nothing else than material world reflect in the human mind”
اس لیے ان سماجی خیالات کی تبدیلی اس وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے جب ہم مادی دنیا کو تبدیل کریں گے۔ مادی دنیا کی تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ معاشی ڈھانچہ کی تبدیلی کی جدوجہد کو فوکس بنایا جاے جہاں سے سماجی ڈھانچہ مرتب ہوتا ہے اور سماجی خیالات پروان چڑھتے ہیں۔ اس لیے سماجی تعصبات کا خاتمہ اپنی آخری اور فیصلہ کن شکل میں اس وقت ممکن ہے جب ہم اس معاشی ڈھانچہ کو تبدیل کریں گے۔ معاشی ڈھانچہ کو تبدیل کیے بغیر سماجی خیالات کو تبدیل کرنے کا خواب رکھنے والا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے