جبلت اورعقل کی کشمکش

انسان بلکہ تمام جاندارفطری طور پرعدم تحفظ کی جبلت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ تمام عمر وہ ذاتی دفا ع کی تگ و دو(survival) میں بِتا دیتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے دو طریقے ہیں۔ ایک وہ جو جبلت میں پایا جاتا ہے، یہ طریقہ انسان اورجانوردونوں اختیار کرتے ہیں، جب کہ دوسرا طریقہ انسان نے اپنی ارتقاء پذیرعقل سے سیکھ لیا، یہ طریقہ دیگر حیوانات اجتماعی طور پر نہ سیکھ سکے، اگرچہ چند جانوروں میں یہ انفرادی طور پر دیکھنے کومل بھی جاتا ہے۔

تحفظ کے حصول کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان اور جانوراپنی اپنی نوع میں گروہ اور ریوڑ بنا کراورعلاقے مختص کرکے رہتے ہیں۔ اپنے سے مختلف جانوروں میں شامل نہیں ہوتے حتی کہ اپنی ہی نوع کی دیگر اقسام کے جانوروں میں بھی شامل نہیں ہوتے۔ کوئی دوسرا ان کے علاقے میں داخل ہو تو اس سے لڑتے ہیں اور اسے نکال باہر کرتے ہیں۔ جانوروں میں اس کی مثال درندوں کی ہے یعنی شیر، چیتا، لکڑ بگڑ وغیرہ ۔ اس کے برعکس ہرن، ہاتھی، زرافہ وغیرہ ، یعنی سبزی خور جانور بھی ریوڑ بنا کر رہتے ہیں ، لیکن چونکہ وہ زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کےریوڑ میں جتنا اضافہ ہو، اچھا ہے۔

انسان سارے کے سارے ایک ہی نوع تھے۔ لیکن انھوں نے خود کواعلی، ادنی، کم تراور کمترین کے خود ساختہ درجات میں تقسیم کر لیا۔ رنگ، نسل، مذھب، زبان، زمین، فکر، ثقافت وغیرہ کے نام پر ان گنت تقسیمیں ایجاد کر لیں۔ ا نسان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے کے بعد خود بھی ایک دوسرے سے ڈرنے لگے، عدم تحفظ کی جبلت نے انہیں اپنے جیسے افراد، جن کے ساتھ ان کی مشترکہ اقدار دوسرے افراد کی نسبت زیادہ تھیں، کے ساتھ گروہ بندی پر مجبور کیا۔ پھرعلاقے مختص کئے، حدبندیاں کیں، چنانچہ اب کوئی ان حدود میں ان کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا تھا ۔ اگر کوئی داخل ہونے کی کوشش کرتا تو اس سے لڑتے اور نکا ل باہر کرتے۔ انسان چونکہ ذرا زیادہ چالاک جانور واقع ہوا ہے، اس لیے اس نےگروہ بندی اور حد بندی میں بھی وہ جدتیں اختیار کیں جو دیگر جانوروں کے بس کی بات نہیں تھی۔ پہلے پہاڑوں اور دریاؤں کی فطری زمینی تقسیم کو اس نے ملکوں کی تقسیم قرار دے کر اپنے لیے ذاتی دفا ع کے نام پر علاقے علیحدہ کیے، پھر خار دار تاروں کی ایجاد کے بعد، کسی بھی علاقے کی زمین پر باڑ لگا کر مزید تقسیم کی سہولت حاصل کر لی۔ چناچہ اب ملک ہی نہیں، صوبے، شہر، اورگاؤں بھی الگ الگ کرنا ممکن ہو گیا۔

تحفظ کے حصول کا دوسرا طریقہ، جو انسان نے اپنی عقل اور تجربے سے سیکھا، وہ اس جبلی طریقے سےبالکل مختلف، بلکہ برعکس تھا، اور وہ یہ تھا کہ جن افراد سے خطرات اور خدشات لاحق ہیں، ان کو دوست بنا لیا جائے، ان سے الگ ہو کرآپس کی اجنبیت میں اضافہ کرکے مزید کشمکش کے امکانات پیدا کرنے کی بجائے، اجنبیت کی دیواروں کو گرا کر مانوسیت پیدا کر لی جائے ۔ رنگ، نسل، زبان ، زمین، فکرو خیال، اورثقافت کے فطری اور کسبی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی، ان کو قائم رکھتے ہوئے بھی، باہمی تعاون اور تنظیم کے ساتھ انسان اکٹھا ہو کر، مل جل کر رہیں۔ ۔یہ نظریہ، جسے ہم ‘ ہر قومی نظریہ’ کہہ سکتے ہیں، انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ اسے جبلی عدم تحفظ سے نکال کر عقل کی راہ سے حاصل کردہ تحفظ کی منزل دکھاتا ہے۔

لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں، سیاسی قیادت کی باگ، ہمیشہ اول الذکر یعنی جبلی خصلت کے حامل افراد کے ہاتھوں میں رہی ہے، اور ثانی الذکر نظریہ کے حاملین محض مبلغ اور پرچارک ہی رہے ہیں۔ ۔جبلی طور پر عدم تحفظ کے شکار انسانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو برانگیخت کرنا ہمیشہ بہت آسان رہا ہے، جب کہ ان کو مل جل کر رہنے اور دوست بنا لینے کی تلقین ہمیشہ ایک مشکل کام رہا۔ تاریخ انسانی میں یہ دونوں نظریات جب بھی اکھٹا ایک معاشرے میں کار فرما ہوئے، تو عدم تحفظ کے مارے انسان کی کی جبلت نےعقل پرفتح پائی، انسانوں کو اکٹھا رکھنے اورایک ساتھ رہ کر جینا سکھانے والے اکثرناکام ہی ہوئے۔ تاہم، جب جب انسان کے شعور کو سانس لینے کا موقع ملا، اور جب جب وہ جبلت کی گرفت سے آزاد ہوکر انسانی عقل کی بلند سطح پر سوچنے کے قابل ہوسکا، اس نے انسانوں کے ساتھ اکٹھا رہنے کو بہتر خیال کیا۔ چنانچہ ہمارے دور میں جب کہ ایک طرف تقسیم اور گروہ بندی کی جبلی نفسیات انسانوں کو لڑوا رہی ہے، تقسیم کروا رہی ہے، وہاں مخلوط معاشرے بھی وجود میں آرہے ہیں۔ ایک طرف جہاں، خاردار تاروں کی نئی باڑیں لگائی جارہی ہیں، تو دوسری طرف، کچھ ملکوں کی سرحدیں راہداریاں بنتی جا رہی ہیں۔

اگرغورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جن ممالک میں تعلیم اور امن ہے، صرف وہاں کا انسان ہی اس بلند فکرکا حامل پایا جاتا ہے، کہ وہ اپنے سے مختلف لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے اوراکٹھا رہنے پرتیار ہے، جب کہ تقسیم کی جبلی نفسیات کے حامل وہ ممالک ہیں، جو تعلیمی پسماندگی اور بد امنی کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔
وہ لوگ جو خود عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں، خوف جن کو دامن گیر رہتا ہے، وہ اگر ناصح، رہنما، اور قائد بھی بن جائیں تووہ اپنے سامعین اور پیروکاروں کو آپس میں لڑوا کر اور مروا کر ہی چھوڑتے ہیں۔ ماضی اور حال ان مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ خوف کی نفسیات انسانوں کو انسانوں سے لڑوا کر اپنے دراصل اپنے خوف کا علاج چاہتی ہے۔ مگر اس کی قیمت عام انسان کو ادا کرنا پڑتی ہے، جو انسانی عقل سے زیادہ حیوانی جبلت کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے