میں ایک ‘اثاثہ’ ہوں…

میں ایک "اثاثہ” ہوں…

(ایک فسانہ جو حقیقت ہے)

میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا… بچپن سے ہی یہ خواب دیکھا کرتا کہ… پاکستان ایک جدید ترین اسلامی’ فلاحی ریاست بنے… جہاں انسان’ انسان سے محبت کرے… اپنے فرائض سے آگاہ ہو… اور حقوق کا شعور رکھے… جہاں سماجی انصاف ہو اور انسانی زندگی کی ضروریات… ہر انسان کو حاصل ہوں… میرے والدین محنت مزدوری کر کے مجھے پڑھا رہے تھے… ان کا خواب تھا کہ میں اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کر کے نہ صرف اپنے خاندان کا سہارا بنوں… بلکہ اپنے ملک اور قوم کو علم و تحقیق کے میدان میں بھی آگے لے جاؤں… میں ایک ذہین ترین طالب علم تھا… ہر امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرتا… اور آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مجھے ملک کی ایک اعلی یونیورسٹی میں پی-ایچ-ڈی کے لئے سکالرشپ مل گیا…

[pullquote]یونیورسٹی میں میرے ابتدائی دن تھے…
[/pullquote]

اور ابھی ابتدائی کلاسز شروع ہوئی تھیں کہ ایک روز یونیورسٹی کینٹین میں چند لوگوں سے ملاقات ہوئی… جنہوں نے باتوں باتوں میں مجھے بتایا کہ پاکستان سخت خطرے میں ہے… اور مسلمانوں پر کشمیر اور افغانستان میں ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں… میں یہ سب جان کر کافی پریشان ہوا… چند ہوئے تھا کہ ایک شام ٹی-وی- پر ایک ڈرامہ دیکھا جس میں کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کو نمایاں کیا گیا تھا… پھر ٩:٠٠ بجے کے پی ٹی وی کے خبرنامے میں بھی روزانہ مظلوم مسلمانوں کی حالت زار پر ‘ہیڈ لائنز’ آتیں… میں بے چین ہوتا گیا اور یہ بے چینی بڑھتی گئی… وہی لوگ ہر ہفتہ دو ہفتہ کے دورانئے میں ہماری یونیورسٹی میں نظر آتے رہتے تھے اور کچھ دوسرے طلباء کے ساتھ ساتھ مجھ سے بھی گپ شپ کرتے رہتے اور میرے اندر جذبۂ جہاد اور شوق شہادت پیدا کرتے رہتے تھے…

[pullquote]اور پھر ایک روز…
[/pullquote]

میں انہی لوگوں کے ساتھ… اپنے والدین اور دیگر اہل خاندان کو بتاے بغیر ایک ‘مخصوص ادارے’ کی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں بیٹھ کر عسکری ٹریننگ لینے ایک نا معلوم مقام پر چلا گیا… چند ماہ وہاں گزارے اور تربیت مکمل کر کے اچانک اپنے گھر واپس آ گیا… میرے گھر والوں کا برا حال تھا… میری جدائی میں میری والدہ تقریبا پاگل ہو چکی تھی’ والد صاحب کی صحت بتاتی تھی کہ کئی روز سے نہ سوے تھے اور کچھ کھایا پیا تھا… میری بہن کی شادی ملتوی اور پھر رشتہ ٹوٹ چکا تھا کیونکہ لڑکے والے مزید انتظار نہیں کر سکتے تھے… میرے پی-ایچ-ڈی کے سپروائزر نے میری راہنمائی کرنے سے یہ کہ کر انکار کر دیا تھا کہ میری سیٹ میری غیر موجودگی میں… کسی اور سٹوڈنٹ کو دے دی گئی تھی… چونکہ والد صاحب میری تلاش میں سرگرداں تھے اور فیکٹری نہیں جا سکتے تھے… اور جاتے بھی تو کام ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتے تھے’ لہذا فیکٹری مینیجر نے انھیں بھی نوکری سے نکال دیا تھا… ہمارے گھر کے حالات دیکھتے ہوئے باقی خاندان نے منہ پھیر لئے تھے… الغرض میرا گھر ایک اجڑی بستی تھی… جہاں دکھ’ غم اور آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں تھا… اور میں… میں والدین کو کشمیر اور افغانستان کی آزادی کے خواب سنا رہا تھا… انھیں بتا رہا تھا کہ ہم جلد ہی دہلی کا لال قلعہ فتح کر لیں گے… اور واشنگٹن کو جلا کر رکھ دیں گے… پاکستان ایک سپر پاور بن جائے گا… اور ہمارے سارے گھرانے کو جنت ملے گی وغیرہ وغیرہ…

[pullquote]چند دن گھر گزارنے کے بعد…
[/pullquote]

اپنے گھر کی کسی بھی قسم کی ذمہ داری لینے کی بجاے… اپنے ‘سرپرستوں’ کی گاڑی میں بیٹھ کر دوبارہ ٹریننگ کیمپ جا پہنچا… گھر والوں کو چھوڑتے وقت نہ مجھے اپنی ماں کے آنسوؤں کا احساس تھا… اور نہ ہی اپنے والد کے بوڑھے ہوتے جھکے کاندھوں کا… اور نہ ہی لاچار اور بے بس و لاچار بہن کے ارمانوں کا خون نظر آیا تھا… مجھے صرف اور دہلی کا لال قلعہ فتح کرنا تھا اور واشنگٹن کو جلا کر راکھ کرنے کی دھن تھی… میرے سرپرستوں نے مجھے یہی بتایا تھا اور اسی کے خواب دکھاے تھے…

پھر ایک دن آیا کہ مجھے اپنے جنت کے خوابوں کی تعبیر اپنے سامنے نظر آنے لگی… جی ہاں! آج میری لانچنگ کا دن تھا… مجھے آزاد کشمیر کے ایک سیکٹر سے اپنے جیسے چند اور جوانوں کے ساتھ کچھ ندی نالوں’ کچھ چٹانوں’ کچھ جنگلوں وغیرہ کو عبور کر کے… بھارتی فوج سے بچتے بچاتے… مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونا تھا… میرے سرپرستوں میں سے کچھ عہدے دار… جو ہماری لانچنگ کی نگرانی کر رہے تھے’ کافی خوش تھے… کیوں کہ آج ہی ان کے بچوں کو ملک کے طاقتور ترین ادارے یعنی ان کے اپنے ادارے میں ‘کمیشن’ ملا تھا… خیر… میں اپنے ہتھیار بند دوستوں کے ساتھ روانہ ہوا لیکن یہ کیا؟ بھارتی بزدلوں نے ہم پر فائرنگ کر دی… ہم واپس پلٹے تو اپنے سرپرستوں کی طرف سے بھی فائرنگ شروع ہو گئی اور میں اور میرے دوسرے ساتھی دونوں طرف کی ‘کراس فائرنگ’ میں پھنس گئے… یہ تو الله کا فضل ہوا کہ ہم کسی طرح جان بچا کر نکل گئے اور مقبوضہ وادی پہنچ گئے جہاں ہم نے کچھ عرصہ گزارا اور کچھ معرکوں میں حصہ لیا… چند دن ہی گزرے تھے کہ مجھے وہیں میرے سرپرستوں نے اطلاع پہنچائی کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا تھا… میں رنج میں تھا لیکن پھر دل کو تسلی دے کر صبر کر لیا کہ… اپنی ماں سے… جنت میں ملاقات ہو گی… کم بیش چھ مہینے وادی میں گزارنے کے بعد میں واپس پاکستان ٹریننگ کیمپ میں آ گیا… لیکن واپسی پر میرے ساتھ جو دوست گئے تھے ان میں سے آدھے کم تھے… آدھے شہید ہو چکے تھے…

[pullquote]میں کبھی کبھار…
[/pullquote]

والد اور بہن سے ملنے گاؤں چلا جاتا تھا لیکن بہت مختصر وقت کے لئے… میرے سرپرستوں نے میری لگن اور خلوص کو دیکھتے ہوۓ خاموشی کہ ساتھ میرے گھر والوں کو معمولی سا خرچہ پانی بھیجنا شروع کر دیا تھا… سنا تھا کہ سرپرستوں کا رئیل اسٹیٹ اور پروڈکشن وغیرہ کا کاروبار بہت ترقی کر گیا تھا جہاں ان کے وہ بچے… جو ان کے ادارے میں کوئی عھدہ حاصل نہیں کر سکے تھے’ بڑی بڑی پوزیشنز پر لگ گئے تھے… اور وہ میرے جیسے جوانوں کی خدمات کا کچھ نہ کچھ معاوضہ ادا اکرنا چاہتے تھے… میں کافی خوش ہوا کہ میرے سرپرست میرا بہت خیال رکھ رہے ہیں… ہم دل و جان سے اپنے سرپرستوں کے ایک اشارے پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے کیونکہ ہمیں پتہ تھے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں… صرف اور صرف اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی حفاظت کے لئے ہی تو کر رہے ہیں…

[pullquote]لیکن پھر…
[/pullquote]

پھر ٩/١١ ہو گیا… میرے سرپرستوں نے ہم سب کوحاضر ہونے کا کہا… جب سب اکٹھے ہو گئے تو ہمیں بتایا گیا کہ عالمی صورت حال اب بزدل بنئے اور طاقتور امریکیوں سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتی… ہمیں ہتھیار رکھنے کا کہا گیا… ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ اب ہم کیا کریں؟ گھر بار’ رشتہ دار’ تعلیم’ کاروبار الغرض سب کچھ تو اپنے سرپرستوں کے مشن کی بھینٹ چڑھا چکے تھے… ہم کیا کرتے؟ کہاں جاتے؟ اتنے سال نارمل زندگی سے دور رہنے کے بعد ہم آخر کس قابل رہ گئے تھے؟ تاہم ہمیں تسلی دی گئی کہ آپ لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھا جائے گا اور مشن کو بہرحال جاری رکھا جائے گا… ہم پھر خوش ہو گئے… اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے…

جب میں گھر پہنچا تو میرے والد نے مجھے پھر بھی سینے سے لگایا اور بہن نے بھی محبت و احترم میں اپنا سر میرے سامنے جھکا دیا کہ اس پر دست شفقت رکھوں… جو میں نے رکھ دیا… میں نے گھر کے قریب ہی ایک فیکٹری میں سیکورٹی گارڈ کی نوکری کر لی… میں اپنے سرپرستوں کا مشکور تھا کیوں کہ یہ فیکٹری انہی میں سے ایک کے داماد کی تھی… کچھ دنوں بعد فیکٹری مالک کی بیوی کی سالگرہ تھی… میری ڈیوٹی لگائی گئی کہ میں شہر کا ایک معروف "کلب ہال” بک کرواؤں… میوزک سسٹم کا انتظام کروں اور نیے بھارتی اور انگریزی گانوں کی سی-ڈیز کا بھی… اس کے علاوھ ‘صاحب’ اور ‘بیگم صاحبہ’ کے لئے فراسیسی یا اٹالین طرز کا ڈریس بھی تیار کرواؤں… رات کو پارٹی تھی… پارٹی کیا تھی’ ایک جشن تھا… جس میں میرے سرپرست’ ان کے اہل خاندان’ دوست احباب نے خوب لطف اٹھایا’ بھارتی انگلش گانوں پر اپنی اور ایک دوسرے کی عورتوں کے ساتھ ڈانس ہوئے’ کچھ "اس چیز” سے بھی لطف اٹھایا گیا جو گناہگار یا کافر پیتے ہیں… رات کے آخری پہر امریکی اور فرانسیسی قسم کے ڈانس بھی ہوئے… پارٹی کے دوران ہی صاحب اور بیگم صاحبہ نے اپنے دو بچوں کی شادیاں ‘اپنے ہی جیسی’ ایک اور فیملی کے بچوں میں طے کر دیں… وہ جشن تھا کہ بس کیا بتاؤں… اورمیری وہ ساری رات مہمانوں کی خدمت گزاری میں گزر گئی… مصروفیت کے سبب میں اپنی بیمار بہن کو سرکاری اسپتال بھی نہیں لے جا سکا تھا…

اگلی صبح فیکٹری گیٹ پر جیسے تیسے دن گزارا… شام کو تھک ہار کر گھر آیا اور لیٹ گیا تو میری بہن جو خود بیمار تھی’ میرے سرہانے آ بیٹھی اور میرا سر دبانے لگی اسی میں میری آنکھ لگ گئی… آنکھ تب کھلی جب آدھی رات کو ہمارے گھر کے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی اور پھر دروازہ ٹوٹنے کی آواز آئ… میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا… آن کی آن میں کچھ ہیبت ناک جوان دروازوں کو لاتیں مارتے’ میری بہن اور والد کو خاموش رہنے کے اشارے کرتے مجھے پر جھپٹے اور لاتوں مکوں کی بارش کر دی… مجھے گھسیٹ کر باہر لے جایا گیا جہاں میرے سرپرستوں کی گاڑی کھڑی تھی… میں تھکن اور مار سے نڈھال کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا… خیر مجھے کسی نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا گیا جہاں میرے بہت سے ساتھی’ میری ہی حالت میں’ پہلے سے موجود تھے…

جب میں اس قابل ہوا کہ اٹھ سکوں’ بات کر سکوں اور کچھ سوچ سکوں تو میں نے ارد گرد دوستوں سے پوچھا یہ سب کیا معاملہ ہے؟ ہم کہاں ہیں اور ہمیں یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ میرے دوستوں نے بتایا… کہ ہمارے سرپرست کہ رہے ہیں کہ جتنے بھی ‘اثاثے’ ہیں… ان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ انھیں مخصوص مقامات جنہیں عرف عام میں ‘نو گو ایریاز’ کہا جاتا ہے اور جہاں ‘سیف ہاؤسز’ بنے ہوتے ہیں… ان میں رکھنا ضروری ہے اور یہ کہ… اب صرف بوقت ضرورت ہی ہمیں باہر نکالا جائے گا… میں حیران تھا کہ یہ بات تو وہ لوگ بھی مجھے بتا سکتے تھے جو مجھے گھر سے لینے آے تھے… اب میں اور دیگر اثاثے انہی محفوظ علاقوں میں رہتے ہیں… ہمارے سرپرستوں نے بتایا ہے کہ جب تک ‘ہماری جنگ’ ختم نہیں ہو جاتی’ تب تک کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں ما سواے چند مخصوص اثاثوں کے… آج کل ہم اسلام اور پاکستان کی ‘قومی سلامتی’ کے لئے جو خدمات سرانجام دیتے ہیں… ان میں: ١) الیکشن کے دنوں میں جہاں ایک ظاہری مہم چل رہی ہوتی ہے’ ایک مہم پس پردہ بھی چل رہی ہوتی ہے جو ہم جیسے اثاثے چلاتے ہیں… ہم مختلف روپ اختیار کر کے جن لیڈروں کو جتوانا ہوتا ہے’ ان کے لئے عوام میں فضا تیار کرتے ہیں… مختلف حلقوں میں اثر و رسوخ والے لوگوں کو ‘لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ’ ہمارے پسندیدہ امیدوار کی حمایت کا اعلان کرواتے ہیں… ہر ایک کو منانے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں… ٢)جب کبھی سویلین حکومت کو ناکام کرنا ہو تو مختلف جگہوں پر دھماکے اور قتل وغیرہ کرنا… کیونکہ ہمارے سرپرستوں کا خیال ہے کہ چند جانوں کی قربانی دے کر بری سویلین حکومتوں پر دباؤ ڈالنا سراسر ثواب کا کام اور قومی سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے… جو لوگ ہمارے سرپرستوں پر کسی بھی قسم کی تنقید کریں ان کو اٹھانا’ تشدد کرنا یا بعض اوقات قتل کرنا بھی ہمارے ذمے ہے… اگر ہمارا کوئی دوست اپنی بشری کمزوری یا کسی اور وجہ سے ہمیں چھوڑ کر آزادی اختیار کرنا چاہے… تو اس کا ‘بندوبست’ بھی ہم سے ہی کروایا جاتا ہے… اس کے علاوھ بھی کئی دوسرے کام ہم ‘قومی سلامتی’ کی خاطر کرتے ہیں… اس سلسلے میں ہمیں انٹرنیٹ اور وائرلیس کمیونیکشن کے استمعال کی تربیت بھی دی جاتی ہے اور ضروری آلات بھی… اس ٹیکنالوجی کا فائدہ یہ ہے کہ ہم کچھ مخصوص ناموں کے ساتھ مختلف کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں… ہمیں یقین ہے کہ ہمارے سرپرست کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتے… ان کا مقصد آج بھی لال قلعے کو فتح کرنا اور واشنگٹن کی تباہی ہے… وہ اور ان کی اولادیں اگر بھارتی ثقافت میں رنگی ہوئی ہیں تو یہ صرف اور صرف حکمت کا تقاضا ہے… وہ اگر امریکا سے ڈالر لے کر اپنے ہی ملک کے مختلف علاقوں میں آپریشن کرتے ہیں… یا اس کے لئے ‘جواز’ پیدا کرتے ہیں تو یہ اسلام کی خدمت نہیں تو اور کیا ہے؟ سننے میں آیا ہے کہ بعض لوگ ‘ہماری جنگ’ کو ہماری جنگ نہیں سمجھتے… دراصل نا سمجھ لوگ ہیں یہ… قومی سلامتی کے تقاضوں کا سرے سے کوئی شعور نہیں انہیں… ہمارے وہ دوست جو دوسری قسم کے اثاثے ہیں… وہ ہمارے سرپرست ادارے کی زیر نگرانی "آزاد زندگی” گزارتے ہیں… ان کے ذمے کچھ "اور” قسم کے کام ہیں…

[pullquote]ہر چیز نارمل چل رہی ہے…
[/pullquote]

محفوظ مقام پر رہتا ہوں… کھانا پینا’ کپڑا وغیرہ میرے سرپرست فراہم کر دیتے ہیں… بس کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میں بھی عام انسانوں کی طرح باہر نکلوں… اور اپنے والد اور بہن کے پاس چلا جاؤں… والد صاحب… کہ جنہوں نے مجھے گود میں اٹھایا تھا… کاندھوں پہ بٹھا کہ سکول لے کر جایا کرتے تھے… جو عید پر خود نیے کپڑے اس لئے نہیں لیتے تھے… تاکہ مجھے نیۓ کپڑے اور جوتے مل سکیں… جنہوں نے خواب دیکھے تھے کہ میں ان کا سہارا بنوں گا…بہن جو اس وقت تک کھانا نہیں کھاتی تھی جب تک میں نہ کھا لوں… جو اچھی اچھی روٹیاں اور سالن اور بوٹیاں میرے لئے رکھا کرتی تھی… جو میرے کپڑے اور جوتے تیار کیا کرتی تھی… جس نے خواب دیکھے تھے کہ میں اس کی ڈولی اٹھاؤں گا… یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ دیکھوں… کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کیا سوچتے ہیں؟ اپنے ان دوستوں سے ملوں جن کے ساتھ میں بیلوں کی دوڑ دیکھنے جایا کرتا تھا’ جن کے ساتھ میں بنٹے اور کرکٹ کھیلا کرتا تھا… جو ایکدوسرے کو کہا کرتے تھے کہ ہمارا یہ دوست بڑا قیمتی انسان بنے گا… گاؤں کا وہ نائی جو میرے بال بناتے ہوئے لاڈ کیا کرتا تھا اور کہتا تھے کہ آج تیرا کان کاٹ لوں گا… تھڑے والے ہوٹل والا چاچا کہ بچپن میں کھیلتے ہوئے تھک جاتا تو اپنے ہوٹل پر بیٹھا کر دودھ کی ایک پیالی پلاتا کہتا "پتررج گیا یا ہور دودھ دیواں؟”… مسجد والے قاری صاحب جن سے قرآن پڑھا تھا اور جو کان مروڑا کرتے تھے… میرے اساتزہ کرام جو میری پیٹھ پر تھپکی لگا کر کہا کرتے تھے "ہمارا یہ سٹوڈنٹ ہمارا نام روشن کرے گا”… دل چاہتا ہے لوٹ کر… اڑ کر انھیں لوگوں میں واپس چلا جاؤں…

[pullquote]لیکن اب ڈر لگتا ہے کہ…
[/pullquote]

اگر یہاں سے نکلا تو شہید ہو کر دیا جاؤں گا یعنی یا تو کہیں مصنوعی پولیس مقابلے میں مار دیا جاؤں گا یا پھر کسی ڈرون حملے میں مروا دیا جاؤں گا… اور ان دونوں سے بچ گیا تو کسی ریاست دشمنی کا ڈرامہ رچا کر مار دیا جاؤں گا… لہذا اب اسلام اور پاکستان کی قومی سلامتی کی خاطر "محفوظ زندگی” پر ہی قناعت کر لی ہے…

[pullquote]تو…
[/pullquote]

تو اے میری والدہ محترمہ… میرے والد محترم … میری پیاری بہنا… میرے دوستو… میرے قاری صاحب… میرے اساتذہ کرام… میرے گاؤں والو… مجھے معاف کر دینا کہ میں آپ سب میں سے کسی کی خواہشات و توقعات پر پورا نہیں اتر سکا… میں تو بس ایک اثاثہ ہی بن سکا… جی ہاں…

میں ایک ‘اثاثہ’ ہوں…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے