مادر ملت فاطمہ جناح کا خط

کیسے ہو میرے ہم وطنو!

بھول تو نہیں گئے اپنی مادر ملت کو ۔۔۔ لگتا ہے ذہنوں سے فراموش کر ہی بیٹھے ہو۔خیر میرے لیے کوئی نئی بات نہیں ۔۔ میں کیا‘ کئی تو ایسے ہیں جو بابائے قوم کے اقوال اور ان کی قربانیوں کو صندوق میں بند کرکے؛ تالے لگا کر کہیں چھپا آئے ہیں۔ دل بڑا کڑھتا ہے پاکستان کے حالات دیکھ کر ۔ بالخصوص صنف نازک کے ساتھ برے برتاؤ نے تو اندر سے توڑ کر رکھ دیا ہے ۔ سنا ہے کہ اسمبلی میں کسی خاتون کو ’ٹریکٹر ٹرالی ‘ کا خطاب ملا ہے ۔ مجھے قطعی حیرت نہیں ہوئی ۔ کیونکہ میں تو یہ سب جھیل چکی ہوں ۔

میری تھوڑی بہت قربانیاں اور محنت کے بدلے نجانے مجھے بھی نجانے کن کن القاب اور خطاب سے نوازا گیا ۔ کبھی ’ غدار وطن ‘ کبھی ’ بھارتی ایجنٹ ‘ ۔

یہ سارے الزام اور یہ سارے خطاب یاد کرتی ہوں تو روح کانپ جاتی ہے ۔ کیونکہ میں نے صرف یہ جرات کی تھی کہ صدارتی الیکشن میں جو کھڑی ہوگئی تھی ۔ اور بھلا یہ کسی کو گوارہ ہوتا کہ ایک کمزور سی، لاغر سی اور وہ بھی خاتون، ملک کی صدر بنے ۔ تو بھئی سب احسانات فراموش کرکے بس میری کردار کشی پر کمر کس لی گئی ۔ خوشی تو مجھے اس وقت ہوئی جب بے نظیر کو دیکھا ۔ کیسے تمتما رہا تھا اس کا چہرہ جب پہلی بار وزیراعظم بنی ۔ وہ بھی خاتون ہوتے ہوئے ۔ لیکن اس بے چاری کو بھی ایک پل صراط سے گزرنا پڑا ۔

کیا کیا فتوے نہیں آئے تھے اس کے خلاف ۔، اسمبلی آتی تو کیسے کیسے بے ہودہ القاب دیے جاتے ۔ لیکن وہ پھر بھی نہ ڈری ۔ سہمی بھی نہیں ۔ ڈٹی رہی ۔ اور دو بار یہ اعزاز پا گئی ۔دل کو اطیمنان ہوا کہ چلو میں نہیں تو بے نظیر ہی صحیح ۔ اکثر ہوتی ہے اس سے ملاقات تو دل کی بات رکھ دیتی ہوں سامنے ۔ مسکراتی ہے اور پھر رنجیدہ ہوجاتی ہے ۔ وجہ دریافت کرتی ہوں تو کہتی ہے کہ آپا ، اب دور دور تک کوئی نہیں ایسا ۔

اب تو ایوانوں میں کیا ٹی وی شوز میں خواتین کو دیکھ کر مرد جل بھن جاتے ہیں۔ شیریں لہجے میں تلخی سی گھل جاتی ہے ۔ گوارا ہی نہیں صنف نازک کا برابر بیٹھنا ۔ جبھی تو دیکھیں کیسے کیسے جملے کستے ہیں۔ہم نے تو اس ایوان میں اتنی گنجائش دی تھی کہ ہمارے ہی صدر پر ایک بھاری بھرکم خاتون نے دوپٹہ اور چوڑیاں تک پھینک ڈالی تھیں۔

اب تو یہ جرات بھول کر بھی کوئی نہیں کرسکتا مبادہ کہیں ایوان میں ہی خون کی ندیاں نہ بہہ جائیں ۔ میں ہنستے ہوئے یہی کہتی ہوں کہ اب انہی خاتون کی کی حکومت میں دوپٹہ اور چوڑیاں اس قدر مہنگی ہوگئی ہیں کہ کوئی کسی کی طرف پھینکتے ہوئے بھی دس بار سوچے گا ۔خیر بہت ہی نازک صورتحال ہے ۔ دھان پان سی لڑکیاں بڑے بڑے فیصلے کرلیتی ہیں تو مردوں کے معاشرے میں ان پر زمین تنگ سے تنگ ہوتی جارہی ہے ۔

لو بتاؤ پسند کی شادی بھی جرم بن گیا ۔ جبھی تو دیکھیں کیسے گھر کی ’ زینت ‘ کوشعلوں سے بھسم کیا جارہا ہے۔ ہیں۔ یہ مردوں کے جرگے ’ مرُدے ‘ ڈھونڈتے ہیں۔ اب ذرا میرے بھائی اور آپ کے قائد اعظم کو ہی لے لیں ۔ان کی بیٹی نے اپنی پسند کی شادی کی تو فیصلہ پسند نہ آیا اور پھر راہیں جدا کرلیں بس ۔ ۔۔یہاں تو مائیں تک کوکھ سے جنم لینے والی پریوں کی زندگیوں کے گلے گھونٹ رہی ہیں۔ وہ بھی کیا کریں مردوں کا جو معاشرہ ہے ۔ برداشت تو رہی نہیں ۔ سب کو ٹریکٹر ٹرالی کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے ۔

ویسے مجھے ڈر ہے کہ اب شیریں خفا نہ ہوجائے مجھ سے ۔ برا مت ماننا اور ہرگز خواجہ کی بات دل پر بھی نہ لینا ۔ اور عورت کا سراپا نہیں اس کا باطن اور اس کی ذہانت ہی مردوں کے سامنے اسے اور ممتاز بناتی ہے ۔ ویسے بھی قوموں کی عزت ہم سے ہی تو ہے ۔ل یکن ہمارے یہاں کے مردوں سے اللہ بچائے ۔ جو اسی نکتے پر پھنسے ہیں کہ عورت کو ہلکا مارنا ہے یا زیادہ ۔۔ ویسے تم سب کے لیے اچھی خوشخبری یہ ہے کہ ہیلری اگلی صدر ہوگی ۔ بس پھر دیکھنا کیا خواجہ، کیا چوہدری ، کیا شاہ اور کیا مخدوم اور کیا مولانا ، سب اس طعنے کو بھول کر کہ ’ شوہر بننے کی کوشش نہ کرو‘ بس کلنٹن کی بیوی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے آئیں گے نظر ۔ بس تھوڑا سا انتظار کرلو ۔۔

تمہاری مادر ملت

فاطمہ جناح

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے