ماروی، حمداللہ اور معاشرہ

حمداللہ اور ماروی سرمد، دو متضاد بیانیوں کے وہ چہرے ہیں جو ظاہری طور پر مختلف مگر باطنی طور پر بالکل ایک جیسے ہیں۔ جس طرح حمداللہ ایک ایسے مذہبی بیانیئے سے متعلق ہیں، جو دین حنیف کی "وکھری” تشریحات کے لیئے مشہور ہے اور گاہے بگاہے اس بیانیئے کے فرمودات سے عوام محظوظ ہوتے رہتے ہیں، ایسے ہی ماروی سرمد بھی ایک ایسے انتہاپسند بیانیے سے تعلق رکھتی ہیں، جس کا کام پبلک فورمز پر معاشرتی، دینی، سماجی و معاشی طور پر نازک ایشوز پر استہزاء اور جمہور کے احساسات کی پرواہ کیئے بغیر دشنام درازی ہے۔ گو کے دونوں بیانیئے ظاہری طور پر مختلف نطر آتے ہیں مگر اپنے رویوں، نفسیات اور عادات میں شاید ان سا مشترک نہ کوئی ہے اور نہ ہو۔اب یہ "شلوار” والے ٹاک شو کا ہی قصہ لے لیں۔ اس واقعے میں ایک فریق میڈیا بھی ہے، جس کا کام ریٹنگز کے چکر میں ایسے کھلاڑیوں کو مدعو کرنا ہے جو ‘ماحول’ بنا سکیں کہ "دکھے گا تو بکے گا” کے مصداق ریٹنگز بڑہائی جا سکیں۔ علمی طور پر دونوں بیانیوں میں ماہرین اور اہل علم حضرات کو چھوڑ کر تماشہ گروں کو ٹاک شوز میں مدعو کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مقصد اصلاح نہیں بلکہ تماش بینوں کو تماشہ دکھلانا ہے۔

حاصل گفتگو یہ نہیں کہ ماروی کے ساتھ زیادتی ہوئی یا حمداللہ کی مذمت کی جانی چاہیئے۔ حاصل گفتگو کچھ اور ہے۔ وہ یہ بھی ہے کہ یہ صرف پاکستانی دقیانوسی معاشرے، جو تیسری دنیا کے ایک عذاب کے کم نہیں، میں ہی ممکن ہے کہ کرتوت کی جانچ پڑتال صنف، عمر یا مرتبے پر کی جاتی ہے،مثلا عورت پر جب جملے کسے جائیں تو وہ مظلوم، مگر وہی عورت جو خود جملے کسے تو؟، محترمہ فردوس اعوان صاحبہ کا مشہور زمانہ ٹاک شو، جس میں آپ نے محترمہ کشمالہ طارق کی پذیرائی کی تھی دوستوں کو یاد ہی ہوگا۔ اب دیکھیں نا، یہ جو نادیہ مرزا ماروی سرمد سے معافی مانگتی پھرتی ہیں کہ ان کے شو میں ماروی صاحبہ سے بدتمیزی کی گئی، تو کیا کبھی انہوں نے اپنی صحافی برادری سے یہ سوال کیا کہ جب یہی ماروی سرمد صاحبہ، محترم زید حامد کو آن لائن لال ٹوپی والا بندر اور ایسے دوسرے القابات نوازتی تھیں تو اس وقت نسوانیت کی توہین نہیں ھوئی تھی؟

الفاظ کی آگ بھڑکانے میں ماروی صاحبہ بھی کچھ کم نہیں کہ ایک اور شو میں ان کی ایک مولانا کو غبارے کی آفر اپنے سیاق و سباق میں شلوار اتارنے پر ہی موقوف ہونی تھی۔ اب یہ جو تماشہ لگا ہے، اسی میں دیکھ لیں کہ بات کاٹنے کی ابتداء مرد دستار سے ہوئی، جو گفتگو کے شائستہ آداب کے منافی ہے۔ مگر اسی ٹاک شو میں ذاتی سطح پر جملے کسنے کا آغاز صنف نازک کی نمائندگی کرنے والی موصوفہ سے ہوا۔ گو کہ یہ بات ایک دلیل کے طور پر نہیں کی جا سکتی مگر شوشل لیول پر الفاظ کا چناؤ ایک بہت بڑا چیلنچ ہوتا ہے، کہ جس میں حمداللہ اور ماروی صاحبہ دونوں تہی دامن دکھائی دیے۔ دیگر یہ کہ برابری کی دعوےدار کے ساتھ برابری کے سلوک پردوستوں کے مذمتی کالموں پر صنفی امتیاز کا شبہ ہوتا ہے۔

یہ ہمارے معاشرے میں ہی ممکن ہے کہ کوئی بزرگ زیادتی کرے تو عمر کا لحاظ مگر کوئی نوجوان غلط کر بیٹھے تو "چھتر پریڈ”؟ اسی طریق پر یہ پاکستانی معاشرے میں ہی ممکن ہے کہ ایک معاشرتی المیے کو مذہب کی پوشاک اوڑھا دی جائے اور پھر مذہب کے حساس عنوانات پر زبان درازی کی جائے ، اب یہ جو شوشل میڈیا پر پچھلے چند دن سے ایک پوسٹ شیئر کی جا رہی ہے کہ چار عورتیں جلائی جانے پر کوئی کچھ نہیں بولا اور اگر کسی نے نورانی قاعدہ جلادیا ہوتا تو آسمان سر پر اٹھا لیا جانا تھا”، یہ کس چیز کا شاخسانہ ہے یہ اس بیمار ذہنیت کی پیداوار ہے، جو صرف اپنے نظریات کو ہی ٹھیک سمجھتی ہے۔

بھئی ظلم تو ظلم ہے، اور بلا تفریق مسلک و مذہب، رنگ و نسل، اسے ظلم ہی گردانا جانا چاہیئے اور اس کے خلاف آواز آٹھائی جانی چاہیئے، مگر یہ بھی ایک بھیانک انتہاء پسندی ہے کہ جمہور کے احساسات کی پرواہ کیے بغیر ایک نازک ترین ایشو کو، جسکا مظلوم خواتین کے جلائے جانے سے کوئی تعلق نہیں، درمیان میں اڑا دیا جائے۔ اسی حرکات بائیں بازو کی انتہاء پسندی کا مظہر ہیں۔ پاکستان کے معتدل طبقے، پڑھے لکھے اور متوازن ذہنیت کے افراد کو خطرہ صرف ھارڈکور انتہاء پسندوں سے نہیں، بلکہ دائیں اور بائیں دونوں بازوؤں سے منسلک انتہاء پسندوں سے ہے، کہ دونوں ہی اپنے اصل میں متضاد انتہاءپسندی کو پروموٹ کرتے ہیں۔ ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے اپنے عقائد میں اتنے مقید ہو چکے ہیں کہ وضعداری، شائستگی، اور آداب کی بھی پرواہ نہیں اور نہ ہی اس بات کا لحاظ ہے کہ دلیل کے میدان میں دلیل ہی جیت سکتی ہے۔ طاقت، ظلم، نفرت، یا استبداد سے نہ تو کوئی نظریہ کبھی ہارا ہے، نہ ہارے گا۔ اپنے نظریے کو دلیل کی بنیاد پر ثابت کرنے کے لیئے دلیل، انکسار، ذہنی وقعت، احترام باہمی، رواداری، خوش زبانی اور خوش اسلوبی چند ایسی خوبیاں ہیں، جو ہمارے ہاں ناپید ہیں۔ انہی خوبیوں کی قلت انتہاء پسندی پیدا کرتی ہے، جو ہمارے سامنے موجود ہے۔

سماجی، مذہبی اور سیاسی منظرنامے پر ہونے والے خوائین مخالف واقعات جو ٹریکٹرٹرالی سے شروع ہو کر چار خواتین کے زندہ جلائے جانے پر موقوف ہوئے، وہ نہ تو کسی بھی طور اسلامی طرزفکر کی عکاسی کرتے ہیں نہ ہی کوئی بھی ذی شعور، کہ جس نے قرآن و حدیث اور سنت کا مطالعہ کیا ہے، ان کو قبول کرتا ہے۔ ہاں مگر یہ مسئلہ برصغیر کی بکتربند مردانگی اور عورت کو جاگیر سمجھنے والی ذہنیت کا عکاس ہے جس کے ذمہ دار یہاں کا مرد اور عورت دونوں ہیں۔ ایسے ایشور کا حل مداری بلا کر ٹاک شوز منعقد کرنا نہیں، بلکہ فکری، تعلیمی، تربیتی اور سماجی سظح پر منظم حکمت عملی سے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم مداریوں اور تماشہ گروں کے چنگل سے آزادی کی اشد ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے