جہالت برائے فروخت

پاکستان کا قیام کسی خاص مقصد کے تحت عمل میں آیا اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان پر ہمیشہ اللہ کی ذات کا خاص کرم رہا ہے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک اس کے باسیوں کو بے شمار مسائل کا سامنا رہا ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں کی لوٹ مار ہو ےا پھر عوامی امنگوں کے سینے پر فوجی بوٹوں کی تھاپ، افسر شاہی کی من مانیاں ہوں یا عدالتی عمل کی پیچیدہ صورتحال، اس عوام نے یہ سب جھیلنے کے لیے ہمیشہ خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیے رکھا۔

اس سارے معاملے کے پیچھے اگر دیکھا جائے تو عوام کی کچھ کمزوریاں ایسی ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے کا طاقتور طبقہ ہمیشہ عوام کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوتا رہا ہے۔ سیاستدانوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے عوام الناس کو جہالت کے قیمتی تحائف سے نوازتے ہوئے شاہ دلی کا خوب مظاہرہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اور پھر یہ عوام جب بھوک اور افلاس سے مرنے پر آ جاتی ہے تو یہی جہالت کے تحائف انہی سیاستدانوں کے آگے بیچنے چلی جاتی ہے۔

اس کاروبار کے اہم ترین ایام الیکشن کے دوران ہوتے ہیں۔ جب اس جہالت کا ریٹ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ خریدنے والا کوئی بھی دام لگانے کو تیار نظر آتا ہے اور بیچنے والوں کے مختلف طبقات اپنی سوچ کے مطابق کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ زیادہ تر افراد تو اپنی جہالت الیکشن والے دن ایک ڈبہ بریانی ےا پھر ووٹ ڈالنے کے لیے ملنے والی پک اینڈ ڈراپ کے بدلے بیچ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ خود کو ایک گروپ کی شکل دے دیتے ہیں اور پھر اپنے مال کی مشترکہ بولی لگواتے ہوئے گلی پکی کروانے سے لے کر گروپ لیڈر کے بیٹے کی سرکاری نوکری تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

کچھ دن یہ کاروبار بہت عروج پر رہتا ہے اور پھر عوام کو تب فائدہ بھی ڈبل نظر آ جاتا ہے جب یہ سیاستدان پارلیمنٹ میں آنے کے بعد دوبارہ انہی لوگوں میں یہ جہالت تحائف کی صورت میں بانٹتے نظر آتے ہیں۔ پوری دنیا میں جہالت کا کاروبار مندی کا شکار رہتا ہے جب کہ جس کو اس کاروبار میں منافع چاہیے ہوتا ہے وہ پاکستان میں آ کر عوام کے ساتھ جہالت خریدے اور بیچنے کا کاروبار شروع کر دیتا ہے۔

یہاں ایک طبقے کا ذکر انتہائی ضروری ہے اور وہ چند گنے چنے لوگ ہیں جو اس منافع بخش کاروبار کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے خود کو تعلیم سے آراستہ کرنے نکل پڑتے ہیں اور باغیوں کا یہ چھوٹا گروہ اکثر اوقات تو بھوک سے مارا جاتا ہے یا پھر یہ لوگ بھی کاروبار کرنے کا خیال ذہن میں لے کر سیاسی بیوپاریوں کے دربار میں حاضر ہو جاتے ہیں۔

اب چونکہ جہالت تو ان کے پاس ہوتی نہیں کہ انکو کوئی بہتر ریٹ مل سکے ، لہذا یہ چند لوگ اکثر پیکج ڈیل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس میں عالم کو علم سمیت خریدا جاتا ہے۔ یہ بیوپاری پھر اس ” مال “ سے خوب منافع کماتے ہیں۔

ابھی بھی کچھ باغی ایسے ہیں جو ان بیوپاریوں سے اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں تا ہم اگر یہ باغی اپنی بغاوت جاری رکھتے ہوئے اپنے گروہ میں مزید لوگوں کو شامل کرنے میں کامیاب نا ہو سکے تو بہت جلد معاشرہ اخلاقی دیوالیہ پن کے تمام حدیں عبور کرتے ہوئے زمانہ جاہلیت کی تصویر پیش کرے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے