کسی بھی ملک وقوم کی ترقی کے لئے تعلیم کے ساتھ طالب علموں کی فکری تربیت ضروری ہے۔ اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ فکری تربیت سے محرومی پسماندگی کا سبب ہے ۔ تعلیم انسان کو بھلے اور برے افراد، صفات، اور خصائص کی پہچان کراتی ہے۔ تعلیم انسان کو دوست دشمن کی شناخت حاصل کرنے کے لئے لازم راہ کی نشاندہی کراتی ہے – تعلیم کے ذریعے قومیں اپنا معیار زندگی بناتے ہیں ، بلکہ ملک و معاشرے کے لئے بہترین افرادی قوت بھی فراہم کرتی ہے، شرط یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے والے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ فکری تربیت یافتہ بھی ہوں ۔ طلباء کو فکری تعلیم سے آراستہ کرنا اساتذہ کی اہم ذمہ داری ہے۔ اگر اساتذہ احساس ذمہ داری کے ساتھ طلباء کی علمی تشنگی کو بجھانے کے ساتھ ان کو فکری تربیت سے بھی آراستہ کریں ، تو آئندہ معاشرہ فکرومنطق پر استوار ہوگا ۔ اس لئے کہ مستقبل کا معاشرہ انہی سے تشکیل پائے گا۔ فکری تربیت سے مراد عقل وفکر کی پرورش ہے ۔ جب سٹوڈنس حصول تعلیم کے ساتھ فکری تربیت کے بھی حامل ہوں گے، تو وہ بآسانی جھوٹی بات سے سچی بات کو جدا کرسکیں گے۔ ضعیف بات سے قوی بات کو، منطقی بات سے غیر منطقی بات کو جدا کرنے پر قادر ہوں گے۔ بدون شک قوم کے بچے اساتذہ کے ہاتھوں امانت ہیں ۔ ان کے بننے یا بگڑنے کا تعلق اساتذہ سے ہے۔ ایک استاد کا ہدف صرف یہ نہیں، کہ وہ کچھ معلومات، اطلاعات، اور فارمولے طالب علم کے دماغ میں ڈال دے، وہاں پر ذخیرہ سازی کردے اور اس کا ذہن ایک ایسے حوض کی مانند ہوجائے کہ جس میں تھوڑا سا پانی جمع ہوجائے، بلکہ معلم کا ہدف اس سے بہت بلند ہے ، اور وہ یہ ہے کہ طالب علم کی فکری توانائی کو پروان چڑھائے، اسے خود اعتمادی و خود سازی بخشے۔ واقعی طور پر استاد کا کام آگ جلانے والے اس کپڑے کی مانند ہے ، جس سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اگر آپ ایک تنور کو گرم کرنا چاہتے ہیں تو ایک مرتبہ آپ باہر سے آگ لاکر اس میں ڈال دیتے ہیں، تاکہ تنورگرم ہوجائے ۔ اوردوسری دفعہ خود اس تنور میں لکڑیاں اور ایندھن جمع ہے، آپ باہر سےصرف ایک کپڑا کہ جس پر مٹی کا تیل لگا ہوا ہو، کولاتے ہیں ، اور اتنی دیر تک اسے ان لکڑیوں اورایندھن کے نیچے رکھتے ہیں،کہ یہ خود آہستہ آہستہ آگ پکڑلیتی ہے اور تنور اپنے اندر موجود لکڑیوں کے جلنے سے گرم ہوجاتا ہے۔ سورہ زمر کی ایک آیت ہے جس میں یوں ارشاد حضرت حق ہوتا ہے کہ میرے بندوں کو بشارت دے دو جو بات کو کان لگا کرسنتے ہیں ۔ اس کے بعد کیا کرتے ہیں؟ جو بھی سن لیں اس پر یقین کرلیتے ہیں اور اسی پر عمل کرنے لگتے ہیں یا تمام کے تمام کو رد کر دیتے ہیں؟( قرآن کہتا ہے) یہ لوگ نقاد ہیں،کھوٹے کھرے کا جائزہ لیتے ہیں ۔اور بہتر انتخاب شدہ پر عمل پیرا ہوتےہیں۔ قرآن فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں ،جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں ۔ یہی لوگ حقیقت میں صاحب عقل ہیں ۔ ہمارے تعلیمی مراکزمیں فکری تربیت کا کوئی معقول انتظام نہ ہونے کے سبب آج ہمارے سٹوڈنس عقل وخرد کے ذریعے تدبر وتفکر کرکے وہ اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل کو حل کرتے دکھائی نہیں دیتے ، بلکہ ان پر خیالات و توہمات کا غلبہ دکھائی دیتا ہے ۔ اپنی شعوری قوت کو بروئے کار لانے کے بجائے زندگی کے تمام شعبوں میں تقلیدی ذہنیت ان پر حاکم نظر آتی ہے۔ یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے، کہ انسان معاشرے کا ایک مفید اور فعال رکن بن کر قوم، وطن،اورملت کی خدمات احسن طریقے سے تب سر انجام دے سکتا ہے ، جب اس کو معیاری تعلیم دلوانے کے ساتھ ساتھ اس کی فکری تربیت کا بھی خصوصی انتظام کیا جائے۔ طلباء کی فکری بنیادوں کو مستحکم کئے بغیران کا معاشرے کی تعمیر وترقی کے لئے سودمند اور مفید ثابت ہونے کی توقع رکھنا لغو ہے۔ فکری تربیت کے یوں تو بہت سارے فائدے ہیں،سب سے اہم فائدہ تخلیقی صلاحیت کا پیدا ہوجانا ہے۔ آج کے اس پیشرفتہ دور میں جتنی ضرورت اس کی ہے، اتنی ضرورت کا احساس شاید تاریخ کے سابقہ ادوار میں نہیں تھا۔ تخلیقی صلاحیت سے مراد انسان کی وہ استعداد وصلاحیت ہے ، کہ جس کی بدولت وہ نئے نئے آئیڈیاز تخلیق کرتا ہے ، اور اس کی بنیاد پر عملی زندگی کے مختلف میدانوں میں نئی نئی چیزیں اختراع کرتا ہے ۔ بلاشبہ آج کا یہ دورترقی وپیشرفت کا دور ہے ،تمام شعبہائے زندگی میں حیرت انگیز اختراعات ہوئی ہیں ، یہ ساری اختراعات، ایجادات اور انکشافات تخلیقی صلاحیتوں کا معلول ہیں ۔ تخلیقی صلاحیتوں کے اجاگر کرنے میں حوصلہ افزائی کا اہم کردار ہے ۔ روز مرہ زندگی میں یہ ہمارا مشاہدہ ہے، کہ جن افراد کو بچپنے میں حوصلہ افزائی ملتی ہے، وہ بڑے ہوکر بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کا مالک بن جاتے ہیں۔اور اس کا برعکس جن کو چھوٹی عمر میں حوصلہ شکنی سے دوچار کیا جاتا ہے، وہ بڑے ہوکر معاشرہ انسانی میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پرلائق تعریف خدمات سر انجام دینے سے قاصر و ناتواں دکھائی دیتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے تعلیمی مراکز میں حکومت اور تعلیمی اداروں کے ذمہ دار افراد کی غفلت اور بےتوجہی کی وجہ سے طالب علموں کی فکری تربیت کا کوئی ٹھوس انتظام موجود نہیں۔ ہمارے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں صرف اور صرف روایتی انداز اور مغربی طرز فکر کے مطابق پڑھا کر اور کتابوں کورٹواکر بچوں اور جوانوں کی استعداد پر کاری ضرب لگا رہے ہیں۔ ان میں سمجھ کی قوت کو پروان چڑھائے بغیر کتابوں کو طوطی وار رٹانا نہ صرف مفید نہیں بلکہ مضر ہے ۔ فکری تربیت سے چشم پوشی کرنے کا نتیجہ ہے، کہ آج ہمارے اکثر طالب علموں میں تخلیقی صلاحیت کا فقدان دکھائی دیتا ہے ۔ ہمارے طالب علموں کی یہ پوری ذہنیت بنی ہوئی ہے، کہ بس ہم نے کسی نہ کسی طریقے سے امتحانات پاس کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، ڈگری لینی ہے، پھر اس ڈگری کے ذریعے ہم نے ایک اچھی جاب تلاش کرکے اپنی بقیہ زندگی کے لمحات کو خوش خرم گزارنی ہے۔ جبکہ حصول تعلیم کا ہدف اس سے بہت بلند وارفع ہے۔ یہ ذہنیت خودی خود ناگہانی طور پر ہمارے متعلمین کے شاداب ذہنوں میں راسخ نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہ عرصہ دراز ہماری فکری تربیت سے خالی تعلیمی درسگاہوں میں رہ کر حاصل کی ہوئی خشک تعلیم کا نتیجہ ہے ۔ یہی وجہ ہے ، کہ ہمارے سکولوں میں ان بچوں اور جوانوں کو اساتیذہ ذیادہ پسند کرتے ہیں ،جو بغیر چوں وچرا کے دوسروں کی باتوں کو چپ چاپ قبول کرتے ہیں ۔بدون اشکال و اعتراض اساتیذہ کے پڑھائے ہوئے دروس اور دئے ہوئے لیکچرز سنتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے یا نہ آئے کلاس میں وہ خاموشی کے بت بن بیٹھتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں وہ بچے جو ذیادہ سوال پوچھتے ہیں ،سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود نختار ہیں، کسی باتوں کو من وعن چپ چاپ قبول نہیں کرتے ہیں ہماری درسگاہوں میں ان کا کوئی خاص مقام نہیں ہوتا ہے، ان کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ شہروں سے دور نالہ جات کے سکولوں میں تو فکری تربیت کجا خود تعلیمی نظام بلکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹیچرز ایسے نہیں کہ وہ اسکول سنبھال سکیں، وہ برائے نام اساتذہ تو ہیں مگر ان میں پرائمری اسکول چلانے کی اہلیت نہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے، کہ تعلیمی شعبہ میں ان افراد کی بھرتی میرٹ پر نہیں ہوئی ہے ، بلکہ سیاسی اثرورسوخ چلاکر ان کو اہلیت نہ رکھتے ہوئے بھی رشوت لے کر قوم کے غریب نونہالوں کے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر غیر حاضر رہتے ہیں ۔ اگر اسکول جاتے بھی ہیں تو بچوں کو پڑھا نہیں سکتے ہیں۔ صرف ٹائم پاس کرکے اپنی حاضری لگا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے تعلیمی اداروں کے ذمہ دار افراد گلگت بلتستان کےتعلیمی مراکز میں تعلیمی مضبوطی کے ساتھ ساتھ طالب علموں کی فکری تربیت کے لئے بھی خصوصی توجہ سے ٹھوس نظام وضع کریں، اور تعلیمی شعبہ انتہائی اہم شعبہ ہے اس کو بھی سیاسی رنگ دے کر اس مقدس شعبہ کے ساتھ کھیل کر اس کی بے حرمتی کرنے والے افراد کو قانونی دائرے میں کھینج کر قانونی سزا دلوانے میں تاخیر نہ کریں
گلگت بلتستان کے تعلیمی مراکز میں طلباء کی فکری تربیت کی ضرورت
on: In: تجزیے و تبصرے, تعلیم
محمد حسن جمالی
بلاگر آئی بی سی اردو

About the author
Related Articles
آئی بی سی کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں
آئی بی سی کا فیس بک پیج لائک کریں
تجزیے و تبصرے
-
شہباز حکومت کو بھی کسی ”سائفر کہانی“ کی ضرورت ہے؟نصرت جاوید
-
نفرت کے بیوپاریجاوید چوہدری
-
اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا اصل مطلبوسعت اللہ خان
-
جنرل باجوہ نے چھ “خلاف آئین” کاموں کا اعتراف کر لیا .شاہد میتلا
-
لڑکیوں کو دوسری شادی کی اجازت کیوں نہیںرابعہ سید
-
اپنے آپ کو مت جلاؤحامد میر
-
ایک حقیت ایک افسانہ۔۔۔۔فضا مسلم
-
خیبر پختونخوا میں گھریلو بچہ مشقت کے حوالے سے قوانین !فاطمہ نازش
-
اب بھگتو اپنی سزاحامد میر
-
منکہ مسمّی ایک عالم فاضلعطا ء الحق قاسمی
-
پرسکون زندگی کے لیے ذہنی صحت کی اہمیتڈاکٹر عابدہ خالق
-
اسلامو فوبیا ! تعارف ، اسباب، تدارک محمد اسرار مدنی
-
ملنگ کی موتحامد میر
-
میں ایک اچھا مرد ہوتا اگر وہ تربیت کرتیںرابعہ سید
-
ہم تم اک کمرے میں بند ہوں وسعت اللہ خان
-
بھکاری سیٹھعطا ء الحق قاسمی
-
75 برس کا آڈٹ کیسے کیا جائےیاسر پیر زادہ
-
عدم توجہی کا شکار دہی علاقے اور بڑھتی ہوئی مہنگائیفریحہ رحمان
-
اتفاقی حکومت ناکام کیوں؟سلیم صافی
-
خبریں اور کالم پڑھنے کا صحیح طریقہعطا ء الحق قاسمی
-
طاہر نجمی : اردو صحافت میں استاد کا درجہ رکھنے والے صحافیمبشر زیدی
-
خواتین کا عالمی دن اور عورت مارچڈاکٹر عابدہ خالق
-
موجودہ معاشی بحران اور ہمارے نوجوانوں کا مستقبل فریحہ رحمان
-
کیا یہ عورت مارچ پسماندہ خواتین لیئے بھی ہے؟رابعہ سید
-
اگلی حکومت کس کی ہوگی؟حامد میر
-
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائیں!عطا ء الحق قاسمی
-
عمران اور ثاقب نثار کی ’’صداقت وامانت‘‘سلیم صافی
-
عورت مارچ….مرد اپنی حدود میں رہیںیاسر پیر زادہ
-
قائدِ منطق حضرت مولانا کے دلائل مبارکوسعت اللہ خان
-
کورٹ مارشل بہت ضروری ہےحامد میر