این ایس جی :پاک،انڈیا سفارتی جنگ

نیو کلئیر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی دوڑ اس وقت پاکستان اور بھارت کے مابین سفاتی میدان جنگ بن چکی ہے۔ بھارت نے 12 مئی 2016ء کو شمولیت درخواست جمع کروائی جس کے جس کے جواب میں پاکستان نے بھی فی الفور 19 مئی این ایس جی میں باقاعدہ شمولیت کے لئے درخواست جمع کروا دی۔ این ایس جی کیا ہے؟ این ایس جی 48 ممالک کی ایک نمائندہ تنظیم ہے جس کے ممبر ممالک بین الاقوامی طور پر ایٹمی مواد کی سپلائی اور خرید و فروخت قانونی طور پر کر سکتے ہیں۔

اس گروپ کا قیام 1974ء بھارت کی جانب سے کئے جانے والے ایٹمی دھماکے کے بعد عمل میں لایا گیا تھا۔ جوہری ٹیکنالوجی کے پر امن خرید و فروخت کا یہ نگران ادارہ ہے اس کے ممبر ممالک اس وقت تک ایٹمی ٹیکنالوجی کی خرید و فروخت نہیں کر سکتے جب تک وہ یہ اطمینان نہ کر لیں کہ اس ڈیل کے نتیجے میں ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ نہیں ہو گا۔ اس کے تمام اراکین ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے یعنی این پی ٹی پر دستخط کر چکے ہیں مگر یہ تنظیم میں شمولیت کی شرط نہیں ہے ۔

این ایس جی کے تمام فیصلے مکمل اتفاق رائے سے ہوتے ہیں اور کسی بھی ایک ممبر کی مخالفت کی صورت میں فیصلہ کالعدم ہو جاتا ہے ۔ تنظیم کے معاملات ایک تین رکنی تکون چلاتی ہے جس میں ایک سابقہ موجودہ اور مستقبل کی چیئر شامل ہوتے ہیں ۔اس وقت اس کی نگران کوریا اور ارجنٹائن ہیں ۔

مستقبل میں توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ایٹمی ری ایکٹرز کی مانگ اور توانائی کے شعبے میں ایٹمی ٹیکنالوجی بے انتہا مانگ کی صورت میں ایک بہت بڑی اور منافع بخش منڈی نظر آرہی ہے۔ اسی بات کے پیش نظر پاکستان اور بھارت اس تنظیم میں شمولیت کے لئے اپنا اپنا زور صرف کر رہے ہیں ۔

امریکہ بھارت کا 7 ایٹمی ری ایکٹر فروخت کرنے کا معاہدہ کر چکا ہے جب کہ باراک اوبامہ 2010 میں بھارت کو این ایس جی کی شمولیت میں حمایت کا یقین دلا چکے ہیں،جس کے بعد سے امریکہ مسلسل بھارت کے حق میں لابنگ کر رہا ہے۔ اس لابنگ کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا ہے کہ وہ ممالک جو بھارت کی شمولیت کو مکمل طور پر ناپسند کرتے تھے اب اپنے اپنے رویوں میں نرمی لا چکے ہیں۔ رواں ماہ بھارتی وزیر اعظم کےدورہ امریکہ کے موقع پر 7 جون کو اوبامہ نے اپنے وعدے کا اعادہ کرتے ہوئے بھارت سے وعدہ کیا ہے کہ وہ بھارتی ممبر شپ کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔

دوسری جانب پاکستان کا بنیادی تحفظ یہ ہے کہ بھارتی شمولیت کی صورت میں پاکستان کی آئندہ اس تنظیم میں شمولیت کا امکان خطرے میں پڑ سکتا ہے کیونکہ اس تنظیم میں شمولیت کے لئے 100 فیصد ممبران کا رضامند ہونا ضروری ہے۔ دوسری جانب بھارت کو چین ، آسٹریا، ترکی اور چند دیگر ممالک کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ پاکستانی آرمی چیف کا ہنگامی دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں جرمنی آسٹریا اور دیگر یورپی ممالک جو اس تنظیم کے ممبر ہیں ان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان بھارت سے زیادہ اس تنظیم کی ممبرشپ کا اہل ہے۔

جہاں دونوں ممالک سفارتی سطح پر اس تنظیم میں شمولیت کے لئے سرگرم ہیں وہیں تبصرہ نگاروں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے کچھ منفی پوائنٹس بھی ہیں جو ان کو اس تنظیم میں شمولیت سے روک سکتے ہیں، ان میں سرفہرست این پی ٹی یعنی جوہری توانائی کے عدم پھیلاؤ سے متعلق عالمی معاہدے پر دستخط نہ کرنا ہے ۔

دوسری بڑی کمزوری یا منفی نقطہ جو ممبر ممالک کی جانب سے اٹھایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں ایٹمی توانائی کی تیاری سے لے کر فروخت تک تمام تر کنٹرول حکومت یعنی ریاست کے پاس ہے۔

نیویارک ٹائمز کے رواں ماہ شائع ہونے والے اداریےمیں کہا گیا ہے کہ بھارت اس تنظیم میں شمولیت کی شرائط پر پورا نہیں اترتا، اور اس میں امریکی کانگریس ممبران کی جانب سے اوابامہ کو کی جانے والی اس تنبیہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس میں بھارت کے خلاف تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے اس کے تنظیم میں شمولیت کی حمایت نہ کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ اداریے میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت چونکہ ایٹمی توانائی اور پھیلاؤ کے سلسلے میں اپنے قوانین مسلسل تبدیل کرتا رہا ہے اس لئے وہ تنظیم میں شمولیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔

دوسری جانب پاکستان کا ایک منفی پوائنٹ یہ بھی گنوایا جا رہا ہے کہ پاکستان از خود ایٹمی ری ایکٹر تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے مگر کیونکہ یہ اس تنظیم میں شمولیت کی شرائط میں شامل نہیں ہے لہذا اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ، پاکستانی دفتر خارجہ کا موقف ہے کہ پاکستان اس تنظیم میں شمولیت کی تمام شرائط پوری کرتا ہے۔ پاکستان کے پاس یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت سے لے ہیوی واٹر، جوہری مینوپلیٹرز، مرجنگ سٹیل اور زرکونیم تیاری جیسے اہم مراحل از خود کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے اور پاکستان کی پیداوار اتنی ہے کہ وہ عالمی منڈی میں اپنی مصنوعات اور ٹیکنالوجی کو فروخت کر سکتا ہے ۔ جبکہ پاکستان کا ریکارڈ بھی ایٹمی توانائی کے شعبے میں شاندار ہے جس میں ایک بھی حادثہ رپورٹ نہیں ہوا اور نہ ہی معیار سے متعلق کسی قسم کی کوئی شکایت کہیں سے موصول ہوئی ہے، جبکہ 70 کی دہائی میں ہونے والے ایٹمی پھیلاؤ کے الزامات کے بعد اس قسم کا بھی کوئی الزام اس کے بعد نہیں لگایا جا سکا، دوسری جانب چین اور روس سمیت کئی ممبر ممالک میں جوہری توانائی کی تیاری کا مکمل کنٹرول ریاست کے پاس ہے لہذا یہ جواز بھی بالکل بے بنیاد ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان اس تنظیم میں شمولیت کا مضبوط امیدوار اور بھارت سے زیادہ اس کا اہل ہے۔

دوسری جانب یورپی مبصرین کی رائے ہے کہ چین کے اصرار اور ویٹو کے بعد اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ 24 جون کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کی شمولیت کو فی الحال ٹال دیا جائے گا ۔ جبکہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے متعلق ایک معتبر ادارے کارنیگی انڈومنٹ برائے انٹرنیشنل پیس نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے سینئر آفیسر مارک ہبز نے این ایس جی پر زور دیا یے کہ وہ ہندوستان کو قطعی طورپر جوہری کلب میں شامل نہ کرے۔

بھارت 2008ء میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ( آئی اے ای اے) میں رکنیت کے لئے بھی اپنے ہتھیاروں میں اضافہ کر چکا ہے جو این ایس میں شمولیت کے لئے بھارت کا منفی پوائنٹ ہے۔ بھارت کی جانب سے چین امریکہ اور دیگر ممالک کے دوروں اور لابنگ کے بعد بھی پاکستان کی موثر حکمت عملی کے نتیجے میں بھارت کا این ایس جی میں شمولیت کا خواب چین کے وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بھارت اس تنظیم میں شمولیت کی بنیادی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ چینی وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ اگر بھارت کو این پی ٹی پر دستخط کئے بغیر تنظیم میں شامل کرنے پر اتفاق رائے کیا جاتا ہے تو اس صورت میں پاکستان اور اسرائیل بھی اس سلسلے میں مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک بھی این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے معاملے میں بھارت کے ساتھ برابر کھڑے ہیں۔

اس تمام تر صورت حال کے بعد بھی اس وقت پاکستان اور بھارت کی خارجہ جنگ زوروں پر ہےجس میں دونوں ممالک کی جانب سے تابڑ توڑ بیانات داغے جا رہے ہیں جبکہ سفارتی سطح پر اپنے اپنے ملک کے حق میں لابنگ بھی زوروں پر ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس لابنگ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ، آیا یہ دونوں ممالک یا ان میں سے کوئی ایک ملک این ایس جی کی ممبر شپ حاصل کرنے میں کامیات ہوتا ہے یا نیویارک ٹائمز کے بقول معاملہ "ٹل” جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے