عبادت میں تجارت

خدائی خدمتگار خان عبدالغفار خان کے ایک بہت ہی قریبی ساتھی اور پشاور یونیورسٹی کے استاد باچا خان کے بارے میں بات کر تے ہوئے کہنے لگے کہ باچا خان سیاست میں عبادت کرتے تھے۔پھر ہنستے ہوئے بولے جبکہ آج کل تو سیاست دان عبادت میں بھی تجارت ڈھونڈتے ہیں۔اس بندہ خدا کے یہ الفاظ سن کر میں سوچ میں پڑ گیا۔اور ان کے اس فقرے پر ہر پہلو سے غور و فکر کرتا رہا۔

خان عبدالغفار خان کے سیاسی افکار کا میں خود مکمل حامی نہیں رہا۔ لیکن جو لوگ باچا خان کے ذاتی زندگی کو قریب سے جانتے ہوں وہ استاد کے ان الفاظ کی ضرور تائید کریں گے۔کہ واقعی اس درویش نے عمر بھر سیاست کو عبادت کا درجہ دیا ۔یہی حال مولانا مفتی محمود اور ان جیسے کئی قومی رہنماؤں کا رہا۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خدا پرستی کو انسان دوستی اور خدمتِ خلق میں ڈھونڈا۔ان درویشوں کی زندگی اختلاف کے باوجود عوام کی امانت اور کھلی کتاب کی طرح ہر فرد کے دسترس میں رہی۔
یہ دور تھا کہ جب نظریات کو مفادات پر ترجیح دی جاتی تھی۔سیاست میں کچھ اصول ہوا کرتے تھے۔ قومی مفادات اور ملکی وقاراور پارٹی کے دستور و منشور کو محترم اور مقدم سمجھا جاتا تھا۔

اس کے برعکس جب میں آج کل کے سیاستدانوں اور انکے حب الوطنی کے معیار کو سوئس بینک اکاؤنٹس، پانامہ لیکس، وکی لیکس اور نیب کے کرپشن بھرے کیسز کے تناظر میں دیکھتا ہوں تو ایک عجیب قسم کی حیرت اور مایوسی کا عالم فکر و شعور کی دنیا پر چھا جاتا ہے ۔آج کل کی سیاست میں نظریات اور اصول پرستی گزرے ہوئے زمانے کی باتیں سمجھی جاتی ہیں ۔ ہر جماعت اور ہر رہنماء اصول اور دستور کی مالا جپتے ہوئے اپنے عمل و کردار سے اصولوں اور نظریات کی سیاست پر خندہ زن ہے۔

اب وہ دور جیسے دیوانے کا خواب لگتا ہے ، جب ہماری قومی ، سیاسی دھارے میں ان لوگوں کو وقعت اور اہمیت دی جاتی تھی جو اپنے اصول پرستی اور نظریات کے اوپر ڈٹ جانے کے لئے جانے جاتے تھے۔ سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والوں نے یا تو گوشہ نشینی کی زندگی میں عافیت سمجھی یا پھر سیاست کے تاجروں نے ان جیسے قومی اثاثے کو گمنامی کے سیاہ عقوبت خانوں کے حوالے کردیا۔
افغان جہاد کے خاتمے کے ساتھ ہی اس ملک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہونے لگا۔جمہوریت ایک ایسی طرزِ حکومت کہ جسکو اگر اپنے حقیقی معنوں میں کسی بھی ملک میں نافذ کیا جائے تو اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں شاید ہی کوئی چیز رکاؤٹ بن جائے۔یہ آج کل کے دور میں وہ نظام ہے جو انسانی معاشرے کے ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آج کل کے تقاضوں اور انسانی معاشرے کو دیکھ کر سب سے بہتر اور ہمارے اسلامی حکومت کے تصور کے سب سے زیادہ قریب تر ہے۔

لیکن شاید اس سلسلے میں میں پاکستان اور اہلِ پاکستان بدقسمت ہی رہے ۔ کہ یہاں جمہوریت کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں روزِ اول سے چلی گئی۔ جو یا تو آمریت کی کوکھ سے جنم لے کر میدان میں آئے۔ یا پھر وہ ان خاندانوں کے گھر وں میں یرغمال ہوکر رہ گئی جو اپنی عملی زندگی میں جمھوری سوچ اور جمھوری طرزِفکر کی ضد تھے۔صحیح جمھوری نظام اور جمھوری طرزِ حکومت میں سرمایہ دار اور سرمایہ دارانہ سوچ رکھنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔کیونکہ سرمایہ دار اور جاگیردار اور ان سے جڑا ہوا جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کبھی غریب اور معاشرے کی بہتری کا نہیں سوچ سکتا۔

لہذا پاکستان میں ملک کے چند مخصوص گھرانوں اور سرمایہ داروں نے جب دولت اور طاقت کے بل بوتے پر جمھوریت اور جمھوری نظام کو یرغمال بنا لیا۔ تو پھر انکے مخصوص طرزِ فکر کے نظارے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ جمھوریت ایک مریل اور کمزور جسم کے ساتھ انکے فرعونیت کے رحم و کرم پر رہ گئی ۔ لیکن اس مقدس نام پران جمھوری آمروں نے اپنے محل اور اپنے گلشن خوب سجا لئے۔پارلیمان اور حکومت کی سیج کو تجارت اور دکانداری کا ایک پر کشش اڈہ بنا کر یہاں سے اپنی تجوریوں کو ایسے بھرا کہ جیسے یہ عمرِ نوح بمع اپنے اہل و عیال لے کر آئے ہیں کہ کہیں دولت قیامت تک انکے اولاد کے لئے کم نہ پڑ جائے۔

میں کسی مخصوص جماعت یا فرد کی بات نہیں کر رہا بلک ہ بحثیتِ مجموعی آج کل کے سیاسی ماحول کا ماتم کر رہا ہوں ۔ کہ ڈھونڈنے سے بھی ان میں درویش ، خداترس اور محبِ وطن قیادت کسی بھی سیاسی جماعت کی باگ ڈور سنبھا لے نظر نہیں آرہا۔ جو مخلص اور محب، وطن ہیں انکی حیثیت پارٹیوں میں خاموش گنتی کے اور کچھ نہیں کہ انکی بقاء اسی میں ہے ورنہ قومی اور ملکی مفاد کے لئے شدید خطرے کے نام سے الگ کر دئے جاتے ہیں۔

آج کل کے سیاسی شعبدہ باز اور تجارتی کھلاڑی ہمیشہ ہمارے فوجی اداروں کو جمھوریت پر شب خوں مارنے کے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اپنی حکومتوں کو لولی لنگڑی جمھوریت کا نام دیکر سیاست میں تجارت کے یہ کھلاڑی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ فوجی جرنیل یا پھر مقتدر قوتیں انکے خزانوں کی ترقی اور کارخانوں اور جائیدادوں کے اضافے میں کبھی حایل نہیں ہوئے،صرف انکو ملک کی تعمیر و ترقی سے روکتے رہے؟؟

اے کاش!!گزشتہ ۳۰ سالوں میں ان سیاسی نما تاجروں کے اپنے اثاثے اور جائیدادیں جتنی بڑھیں اس کے پچاس فیصد کے برابر بھی اگر ملک بھی ترقی کرتا تو آج ہر کوئی انکے ترقی کے گن گاتا۔ لیکن انکا مقصد ملک و قوم کی خدمت نہیں اپنے خاندانوں کی اجارہ داری اور اس پاک اور مقدس فریضہء سیاست کو اپنی تجارت گاہ بناکے غریبوں کو عمر بھر اپنے آگے مجبور و بے بس کرکے ان پر حکومت کرنا ہے۔
جبھی تو ہر رہنما کا پورا خاندان ہی قیادت کے مزے لے رہا ہے۔ جو اس قابل نہیں وہ اس بد قسمت ملک سے کہیں دور یورپ و امریکہ میں یا پھر دبئی میں پر تعیش زندگی گزار رہا ہے۔

سیاست کے یہ بیوپاری مختلف نعروں اور ناموں سے قوم کے سادہ لوح عوام کو پچھلے کئی دہائیوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ کہیں مذہب اور دین کے جذباتی نعرے کانوں میں گونج رہے ہیں تو کہیں قوم پرستی اور قومیت کا سیسہ جذباتی اور شعور سے عاری عوام کے کانوں میں انڈیلا جاتا ہے۔ کہیں غربت اور مجبوری سے لاچار عوام کو ترقی اور خوشحالی کے سہانے خواب دکھا کر لوٹا جاتا ہے۔ تو کہیں زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھ کر انکے جذبات اور احساسات پر شب خوں مارا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے ۔ کہ سوائے ان سیاسی تاجروں کے خاندانوں کی اور ذاتی ترقی کے ملک ، غریب اور غربت جہاں تھی وہیں کی وہیں کھڑی انکے جھوٹے وعدوں کا ماتم کر رہی ہے۔ کوئی سینما کے ٹکٹ بیچنے کو چھوڑ کر اس عبادت کا استحصال کرتے ہوئے دبئی کے پُر تعیش زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے۔ تو کوئی اپنے باپ دادا کا خاندانی چلتا کاروبار چھوڑ کر اس مکروہ تجارت کے بل بوتے پر اپنے اولاد کو اس عمر میں کروڑوں اور اربوں کاکاروباری بنا بیٹھا جس عمر میں عموما بچے سکول اور کالجز میں محو تعلیم ہوتے ہیں۔کوئی مسجد سے اٹھ کردین کی حفاظت کرتے کرتے مفادات اور دولت پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا تو کوئی کھیل کے میدانوں سے اٹھ کر سیا ست کے کاروباری اور استحصالی طبقے کے بیچ یرغمال ہوکر رہ گیا۔

آج قوم کی کسمپرسی اور بدحالی دیکھ کر نگاہیں پھر ان ساستدانوں کو ڈھونڈ رہی ہیں جو عملا سیات کو عبات سمجھ کر عملا میدانِ عمل میں سرگرمِ عمل ہوں تاکہ کبھی اس بدقسمت قوم کے بھی دن بدل سکیں اور باوجود تمام وسائل کے جس بدحالی اور بے کسی میں یہ قوم جی رہے ہے۔ کبھی اسے بھی فخر کے ساتھ سراٹھا کے جینے کے دن دیکھنے نصیب ہوں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے