طَبلے’ سارنگیوں والے شھید نھیں

قوالی کی ابتداء و ترویج خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے کی ۔ خواجگانِ چشتیہ نے بالخصوص اسے پروان چڑھایا ۔ ھم اھلیانِ برصغیر پاک وھند و بنگلہ دیش کی گھٹی میں سُر ‘ لے اور تال ھے۔ اقبال نے اسے کچھ یوں بیان کیا

اھلِ مشرق کیلئے موزوں یہئ افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نھیں علمِ کلام

خواجہُ معین الدین چشتی ‘ خواجہ بختیار کا کی اور نظام الدین اولیاء ایسے صوفیا اور بزرگان نے تبلیغ واشاعت دین اتنی دلجمعی سے کی اور ھر ایک کو یوں گلے سے لگایا کہ لوگ جوق در جوق اپنا قدیم صدیوں پرانا مذھب چھوڑ کر ان کے ھاتھ قبول اسلام کرتے گئے۔ لاکھوں حلقہ بگوش اسلام ھوئے ۔ ویسے کوئی مولوی میرے علم میں نھیں جس نے چند ھزار بھی مسلمان کئیے ھوں بلکہ کافر کئے ھیں ‘ کچھ فتاویٰ و تکفیر سے اور کئی ایک گفتار و تقریر سے۔ اقبال نے خواجہ نظام الدین کے مزار پر حاضری کے موقع پر ایک نظم بعنوان ” نظام الدین اولیا رح ” کہی۔ جسکے ابتدائی اشعار یہ ھیں۔

فرشتے پڑھتے ھیں جس کو وہ نام ھے تیرا
بڑی جناب تیری فیض عام ھے تیرا
ستارے عشق کے تیری کشش سے ھیں قائم
نظام مہر کی صورت نظام ھے تیرا
تیری لحد کی زیارت ھے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ھے تیرا

ویسے بر سبیل تذکرہ مندرجہ بالا اشعار آج کے دور میں اقبال کی تکفیر کے فتوی کیلئے کافی ھوتے اور اور اگر اقبال آج کے عھدِ ایمان و” اوریان ” میں زندہ ھوتے تو کوئی غازی انھیں راھیِ ملک عدم کرکے اپنی عاقبت سنوار کہ بَہتر حورین کے پہلو میں استراحت فرما رھا ھوتا۔ یہ تو بھلا ھوا کہ ُاس عھد میں لوگوں کے ایمان کمزور تھے اور اقبال طبعی موت ھی پر لوک سدھار گئے۔

امام محمد بن محمد بن محمد الغزالی جو ایک مستند فقہیہ و عالم دین گذرے ھیں انھوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب نسخہ کیمیا یا کیمیائے سعادت میں ایک باب ” سماع اور آدابِ سماع ” پر تحریر کیا اور قلم توڑ دیا۔ جن صاحبان قدردان کو اس موضوع پر راھنمائی درکار ھو ضرور پڑھیں اور بھتر ھے کہ عبدالحمید کا ترجمہ پڑھیں کیونکہ ترجمہ کرنے اور ترجمانی کرنے میں بہرحال بھت فرق ھے اور ترجمانی کوئی کوئی کرسکتا ھے۔ اسے پڑھنے کہ بعد موسیقی حرام ھے کی رٹ لگانے والوں کا دل حلق میں ضرور آجائے گا۔

تو بات ھورھی تھی قوالی کی ۔ قوالی کیا کرتی ھے۔ قوالی ایک ذریعہ ھے انسان کے وجدان کو اس اعلی و ارفعیٰ مقام پر لے جانے کا جو نثر ‘ تحریر و تقریر لے جانے سے قاصر ھے۔ قوالی سننے والے بعض اوقات وجد کی کیفیت میں چلے جاتے ھیں اور اس لطیف احساس کو حواسِ خمسہ سمجھنے سے اوراظہار بیان سے قاصر ھیں۔ دورانِ سماع بعض اوقات کوئی مصرع طبیعت پر ایسی ضرب لگاتا ھے کہ سینکڑوں سالوں کی عبادت و ریاضت اور تپسیا وہ تزکیہِِ نفس نھیں کرسکتی ۔

خواجہ بختیار کا کی محفل سماع میں بیٹھے تھے قوال نے احمد جام کا ایک شعر پڑھا

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
(ترجمہ: جو تیرے( اللّٰ ) کے تسلیم و رضا کے خنجر سے ذبح ھو جاتے ھیں انھیں ھر دور میں ایک نئی زندگی ملتی ھے)

کیفیت تبدیل ھوگئی قوال سے کہا تکرار کرو اس نے تکرار کی وجد طاری ھوا اور اسی حالت وجد میں تین دن بعد روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ یہ سب طبلے سارنگیوں والے تھے اور انھوں نے انسانیت کے سبق سکھائے ‘ محبت کرنا سکھایا آج بھی ان کے مزار مرجع خاص و عام ھیں۔

امجد صابری ایک مسکین طبع ‘ ملین ‘ بے ضرر قوال اور فنکار تھا۔ نعتیں قوالیاں پڑھتا’ خود روتا اور دوسروں کو رلاتا ۔ اس سے دین کو کیا خطرہ پیدا ھوگیا تھا؟ آور جب اسے ناحق ھلاک کردیا گیا تو اسے شھید لکھنے پر فتویٰ جاری کیا گیا کہ امجد صابری کو شھید نہ کہا جائے۔ کیونکہ وہ آلات موسیقی استعمال کرتا تھا اور ایسا شخص شھید نھیں ھو سکتا۔

ایسا لگتا ھے شھادت کا سرٹیفیکیٹ اور ٹائٹل بانٹنے کی ذمہ داری اور اختیار خدا نے ایک مخصوص مکتبہِ فکر کو تفویض کردیا ھے۔ جسے چاھیں کافر اور جسے چاھیں مومن ‘ جسے چاھیں جنتی اور جسے چاھئیں دوزخی قرار دے دیں ۔ لیکن یہ وھی زبانیں ھیں جو اس وقت گنگ ھو جاتی ھیں جب ان سے پوچھا جاتا ھے کہ طالبان شھید ھیں یا افواج پاکستان۔

ان کے نزدیک دین کی خدمت کا بس ایک طریقہ ھے اور وہ ھے جو ان کے مخصوص برانڈ کے اسلام سے اختلاف رکھے وہ واجب القتل ھے اور اسے ماردو۔ چنانچہ ان کے نزدیک تو شھادت صرف پھٹنے اور فساد فی الارض سے مرنے پر ھی حاصل ھو سکتی ھے۔ اور ان کا لوازم تو جیکٹ ‘ دستی بم ‘ میزائل ‘ مارٹر ‘ اے کے 47 ھے ۔ اب طبلے سارنگیوں والے تو شھید نھیں ھوسکتے ناں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے