اعتکاف کیا ہے ؟اعتکاف ہے کہ رمضان المبارک میں اوصاف ملکوتی کے حصول کے لئے جو محنت کی جارہی ہے اس پر مزید اضافہ کیا جائے مزید اضافہ کیا ہے ؟ گھر سے نکل آئے ،کاروبار سے لاتعلق ہو گئے ،بیویوں سے الگ ہو گئے ،اولادکے مسائل اگر رکھ دئےے، تن تنہا ایک جان لے کر اﷲ کے گھر میں مقیم ہو گئے ، اعتکاف کے نویادس دنوں کے لئے سوائے اﷲ سے باتیں کرنے کے اور کوئی کام نہیں اب اعتکاف میں بھی بہت سی رسومات آ گئی ہیں پردے لگا دو،ایک بندے کو بند کردواگر پانی بھی مانگنا ہو تو چٹ لکھ کرمانگے یہ ساری رسومات ہیں ضروری بات نہ کرنا بھی مکرو ہ ہے۔
ہرکام کو اس کے کرنے کے ضابطے کے مطابق اورپورے خلوص سے کیا جانا چاہےے یہ دونوں باتیں مکمل ہوں خلوص نیت بھی ہو ،خلوص قلبی بھی ہو پوری توجہ سے کرے اور سارے طریقے،سلیقے اور احکام کی پابندی بھی کرے اس کے بعد بھی ثمرات اﷲ جل شانہ ¾ کی مرضی پر ہیں کس کو کتنا دیتا ہے ؟ قبول فرماتا ہے یا نہیں چونکہ اﷲمحتاج نہیں ہے ہم محتاج ہیں ہمیں غلط فہمی یہ ہوجاتی ہے کہ جب ہم نے خانہ پُری کردی تو کام ہوگیا یہ کام خانہ پری سے نہیں ہوتا مثلاً اعتکاف کی سعادت نصیب ہوئی یہ بہت بڑا اﷲ کاا حسان ہے مسلمانوں کی کتنی ایسی تعداد ہے کہ جنہیں صلوٰة خمسہ بھی نصیب نہیں خود رمضان شریف میں چوریاں کرتے پھرتے ہیں ڈاکے مارتے پھرتے ہیں قتل و غارت گری کرتے پھرتے ہیں آخر کہلانے کوتووہ بھی مسلمان کہلاتے ہیںاﷲ کی کتنی مخلوق ایسی ہے جنہیں عبادت تو نصیب ہے مگر اعتکاف نصیب نہیں ہواگنتی کے چندلوگوں کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے اب یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ اسے خانہ پوری میں ڈالنا چاہتے ہیں اپنی نیکی اور اپنی پارسائی کا اشتہار بنانا چاہتے ہیں یا اس کے مقصد کو پانا چاہتے ہیں اس کا مقصد تو یہ ہے کہ اعتکاف کے جو لمحات ہیں وہ سوائے اﷲ کے کسی سے کوئی رابطہ نہ رہے یعنی رمضان اس لئے ہے کہ اوصاف ملکوتی پیدا ہوںاور رمضان میں پھر مزید اعتکاف وَاَن ±تُم ± عٰکِفُو ±نَ فِی ال ±مَسٰجِد (البقرہ: 187) اس آیہ کریمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرد کا اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے،اعتکاف کے لئے مسجد میں بیٹھنا پڑتا ہے ذکر اذکار اور ذکر قلبی اوصاف ملکوتی کے حصول کا سب سے بڑا سبب ہے اگر آپ کو اﷲ نے یہ نصیب فرمایا تو اوصاف ملکوتی کا تقاضا یہ ہے وحی الہٰی کا اتباع کیا جائے پھر آپ وہ کریں جو اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺنے کرنے کا حکم دیا ہے معتکف گویا ہر لحظہ بارگاہ الوہیت میں حاضر ہے ہر بندہ ہر آن اﷲ کے روبرو ہے لیکن وہ اﷲ کی طرف سے ہے بندہ تو بے خبر ہوتا ہے اپنے کاروبار میں مگن ہوتا ہے اسے تو اﷲ یاد ہی نہیں ہوتا وہی چیزیں اس کے پیش نظر ہوتی ہیں جو اس کے دل اوردماغ میں ہوتی ہیںذات باری کاتو تصور بھی نہیں ہوتا لیکن اﷲ تو تب بھی ساتھ ہوتا ہے اﷲ تو ہر قت ہر جگہ موجود ہے یہ سارا کچھ چھوڑ چھاڑ کر سب سے نکل کرایک ایسا وقت مختص کر لینا یوں تو جب بھی مسجد میں بیٹھنے کی فرصت ملے اعتکاف کی نیت کی جاسکتی ہے اس کے لئے رمضان ہی ضروری نہیں ہے غیر رمضان میں بھی کی جاسکتی ہے نفل اعتکاف کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں جتنا وقت کسی کے پاس ہو اتنے وقت کے لئے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں رک سکتا ہے جب کہ سنت اعتکاف بیس رمضان المبارک کی افطار سے شروع ہوتا ہے اور شوال کے چاند نظر آنے پر ختم ہوتا ہے اعتکاف سنت ہو یا نفل دونوں کا مقصد متوجہ الی اﷲ ہونا ہے لیکن رمضان المبارک اوراس کا آخری عشرہ جس کی بے شمار فضیلتیں اور جس میں لیلة القد جیسی نعمتیں اور سنت محمد رسول اﷲﷺ پر عمل کرتے ہوئے کہ آپ ﷺ اعتکاف فرماتے تھے اور جبرائیل امین کے ساتھ قرآن حکیم کا دورہ فرمایاکرتے سب سے زیادہ مصروفیت اعتکاف میں جو رسول اﷲ ﷺ کی ہوتی تھی وہ قرآن حکیم کا دور ہوتاتو معتکف کو چاہئے کہ قرآن پڑھے قرآن پڑھائے قرآن سمجھے قرآن سمجھائے قرآن بیان کرے زیادہ بہتر یہ ہے کہ دینی باتیں کرے دینی مسائل بیان کریں جو علماءتشریف رکھتے ہیں وہ مسائل بتائیں تعلیم و تعلم ،دین کی بات،اﷲ کی بات، حضور ﷺ کی بات کرنا ہی مقصد ہے کہ اس کے کرنے سے اعتکاف میں مزید چمک اور نورانیت آتی ہے انوارات وتجلیات آتے ہیں ضرورت سے مثلاً وضو کرنے کے لئے یا رفع حاجت سے باہرجاتا ہے تو راستے میں کسی سے غیر ضروری بات نہ کرے کسی سے ملنے نہ لگ جائے کسی سے گپ شپ لگانے نہ لگ جائے ناک کی سیدھ میں جائے ناک کی سیدھ میں واپس آ جائے وضو کرنے بےٹھے تو وضو کی تسبیحات پڑھتا رہے آتے جاتے ہوئے درود شریف پڑھتا رہے تسبیح و تمحید کرتا رہے اپنی توجہ اﷲ ہی کی طرف رکھے دنیا کا نظام چلتا رہتا ہے مرنے والے مرتے رہتے ہیں پیدا ہونے والے پیدا ہوتے رہتے ہیں جہاں بارش ہونی ہے ہوتی ہے جہاں دھوپ ہونی ہے ہوتی ہے جس درخت کو گرنا ہے وہ گرتا ہے جس پہ پھل لگنا ہے وہ لگتا ہے دنیا کا نظام نہیں رکتا معتکف کو خود کو اس سے الگ کرنا پڑے گا جو ہوتا ہے ہوتا رہے اور اگر اتنا حوصلہ نہیں تو اعتکاف نہ کرے فرض تو نہیں ہے سنت ہے اگر اعتکاف کرنا ہے تو پھر اس کی ساری شرائط پوری کرے اعتکاف سے غرض یہ ہے کہ آدمی اموردنیا سے لاتعلق ہو کراور کلی طور پر یکسو ہو کر متوجہ الی اﷲہو جائے ان مخصوص دنوں میں دنیا کے جھمیلوں اوردنیاوی فکروں سے آزاد ہوجائے فلاں کام کا کیاہو گا ؟فلاں جگہ کیا ہو رہا ہو؟ کون کہاں ہے؟ کوئی ہے یا نہیں ؟کوئی بڑا ہے یاچھوٹا ؟ کوئی کیا کر رہا ہے کیا نہیں؟ یہ چیزیں ذہن سے نکال کر اﷲ کی طرف دھیان لگالے اﷲ کی بات اﷲ کے حبیب ﷺ کی بات سارا دن کرتے رہیں اس لئے کہ دین کی باتیں متوجہ الی اﷲ کرنے میں معاون ہوتی ہیںتوجہ الی اﷲ کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتیں رکاوٹ نہیں بنتیںلیکن دنیا کی بات دنیا کی طرف متوجہ کرتی ہے اور جو توجہ ذات باری کی طرف ہے اسے کم کرتی ہے لہٰذا نقصان دہ ہے مسجد میں دنیووی باتیں کرنا، کاروبار کے بھاو ¿ یا نرخ پوچھنا،خرید وفرخت کرنا، گپ شپ لگانا،تفریح طبع کے لئے باتیں کرنا، موبائیل پر گپیں ہانکنا بلکہ اعتکاف میں موبائیل فون ہونا ہی نہیں چاہےے بلکہ مسجد سے با ہر ہونا چاہےے یہ ساری چیزیںمسجد میں ویسے ہی حرام ہیںمسجد ایک مخصوص جگہ ہے جہاں صرف اﷲ کریم کی بارگاہ میں گزارشات پیش کی جاتی ہیںاور اعتکاف میں یہ پابندی مزید تاکید کے ساتھ بڑھ جاتی ہے اور کوشش کی جانی چاہیے کہ عملاً اور ذہنی طور پر افکار دنیا سے جدا ہو کر متوجہ الی اﷲ رہا جائے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرنی چاہیے آگے اﷲ کی مرضی کہ وہ کس کی مزدوری پہ کتنی اجرت عطا فرماتا ہے؟ کون سے درخت پہ کتنا پھل دیتا ہے؟ثمرات ہمیشہ من جانب اﷲ ہوتے ہیں پھل اﷲ کی طرف سے لگائے جاتے ہیں مجاہدہ او ر محنت یہ بندے کے ذمے ہے رمضان مجاہدہ استراری ہے حکماً کرنا پڑتا ہے لیکن اس میں اعتکاف پھر اختیاری ہے اگر کوئی نہیں کرنا چاہتا تو فرض نہیں ہے اختیاری بھی تب تک اختیاری ہوتا ہے جب تک آپ وہ اختیار نہیں کر لیتے ہیں جب آپ اختیار کر چکے تو پھر فرض ہی کی طرح اس کی پابندی ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اعتکاف اگر ٹوٹ جائے تو قضا لازم آئے گی۔
یاد رکھیں ! جو مرد حضرات معتکف ہوتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اعتکاف کے دنوں کے دوران جو لوگ ان پر Depend کرتے ہیں بچے ،بیوی ،بزرگ ، والدین یا افراد خانہ ان کے اخراجات کا اہتمام کر کے آئیں جتنے دن غیر حاضر رہنا ہے اعتکاف میں رہنا ہے اتنے دنوں کے لےے جو چیزیں علم میں ہیں جیسے راشن، ضروری دوائیں وغیرہ کا اہتمام کرکے آئیں انہیںبعد میں دھکے نہ کھانے پڑیںاور جتنا وہ afford کر سکتے ہوں اتنی ان کی گنجائش ہوکہ دس دن وہ مزدوری نہ کریں گے تو خیر ہے گذارہ ہوجائے گا تو تب اعتکاف پر بیٹھیں ورنہ اہل خانہ کی پرورش ان کی نگہداشت فرض ہے اوراعتکاف نفل عبادت، فرض کو چھوڑ کر نفل نہیں ہوتے اعتکاف بہت بڑی عبادت ہے لیکن فرائض کو چھوڑ کر نہیں اسی طرح ایک مریض ہے وہ جا کے اعتکاف بیٹھ جاتا ہے دس بندے اس کے ساتھ بھاگ رہے ہیں اسے یہ تکلیف ہو گئی فلاں ٹیکہ لاو ¿ فلاں ڈاکٹر کو بلاو ¿ یہ کون سا اعتکاف ہے؟ اسے جب پتہ ہے کہ مجھے یہ تکلیف ہے تو اﷲ سے دعا کرو کہ اﷲ میرا بھی بہت دل چاہتا تھا تو مجھے اجر عطاکر دے اﷲ قادر ہے فرمایااگر کوئی خلوص سے ہجرت کے لےے نکلا اورگھر سے نکلتے ہی راستے میں موت آ گئی فاجرہ ¾ علی اﷲ اس کی ہجرت کا اجر اﷲ کے ذمے ہے وہ دے گا خواہ مکمل ہوئی یا نہیں ہوئی اس کی نیت تھی اس کا ارادہ تھاوہ اﷲ کی راہ میں نکل کھڑا ہوا تھا یہ اﷲ کو پسند ہے ۔
اعتکاف کا مقصد محض ظاہری طور پر قید ہونا نہیں ہے اصل مقصد یہ ہے کہ دل کو غیر اﷲ سے خالی کیا جائے اگراعتکاف میں ظاہری طور پر زبان بند ہولیکن دل امور دنیا میں ہی گردش کرتا رہے آدمی کے ذہن کو وہی فکریں اور سوچیں رہیں تو فائدہ نہ ہو گاچونکہ مقصود یہ ہے کہ دس دن متوجہ اﷲ ہو کر وہ قوت حاصل کرے کہ جب واپس امور دنیا میں جائے تو دنیا کے تمام کام کرے لیکن دل اﷲ کی طرف متوجہ رہے معتکف جہان سے کٹ کر صرف اﷲ کی طرف متوجہ رہے دن ہو یا رات ،گرمی ہو یا سردی،جب تک اس کا اعتکاف مکمل نہیں ہوتااس لئے کہ روئے زمین پر ایک وہ ہے اور ایک اﷲکی ذات کوئی تیسرا بندہ نہیں ہے نہ کسی کو سوچے، نہ کسی کی فکر کرے نہ کسی سے بات کرے تاکہ اﷲ کریم وہ کیفیات وہ یقین اور وہ نور یقین عطا فرمائے ہم نے صرف دن یا ٹوٹل تو پورا نہیں کیامقصد کوئی محض قید گزارنا تو نہیں ہے اپنے اوپر خواہ مخواہ کی تنگی اور پابندی لگانا تو مقصد نہیں ہے مقصد تو وہ نور یقین ہے کہ ہم اﷲ کو روبرو پا سکیںجیسا حدیث احسان میں ارشاد ہواکہ اﷲ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ جرا ¿ت تم میںپیدا نہ ہو کہ میں اپنے اﷲ کو دیکھ رہا ہوں تو یہ یقین تو کم از کم پیدا کر لو کہ میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے حق تو یہ ہے کہ یہ کیفیت پیدا ہو جائے کہ میں اﷲ کو دیکھ رہا ہوں محض سر نہیں پٹک رہا اس کے رو برو رکوع کر رہا ہوں ہر سجدہ اس کی بارگاہ میں اس کے سامنے ہے نہ صرف عبادات میں بلکہ عملی زندگی میں اُس جمال جہاں تاب کو اپنے ساتھ لے جائے۔
عبادت کس لئے ہوتی ہے ؟عبادت کا مقصد حصول رضائے الہٰی ہوتا ہے اور حصول رضائے الہٰی کے لئے عبادت وہی عبادت ہے جس کی اﷲ کے نبیﷺ نے تعلیم فرمائی اور وہی اس کو کرنے کا طریقہ ہے جو حضور ﷺ نے سمجھایا صحابہ کرام سلف صالحین ہمارے بزرگوں نے سینہ بہ سینہ وہ امانت پوری طرح پہنچائی اور انشاءاﷲقیامت تک ہر طالب کو پہنچتی رہے گی یہ دین ہمیشہ کے لئے اور قیامت تک رہے گی عبادت کی قبولیت کی سند یہ ہے کہ اﷲ کی نافرمانی سے ڈر لگنے لگے نافرمانی چھوٹ جائے اور اطاعت کو جی چاہنے لگے تو اس کا مطلب ہے کہ عبادت قبول ہو گئی اور حج بھی کرکے آگئے روزے بھی رکھ لئے اعتکاف کر کے بھی آگئے پھر وہی لوگوں کی جیبیں بھی کاٹنا شروع کردیں پھر اسی زندگی اس میں واپس لوٹ گئے وہی کردار وہی شب وروز تو اس کا مطلب ہے وہ محض ایکٹینگ تھی عبادت نہیں تھی عبادت ہوتی توکچھ تو اس کا اثر ہوتا اداکاری میں او رحقیقی زندگی میں کتنا فرق ہے؟ اداکاری میں تو ایک شخص سٹیج پر مکہ مارتا ہے تو دس دس بندے گرجاتے ہیں سٹیج سے باہر نکلے تو شاید اسے بچہ بھی تھپڑ مارے تو گر جائے اداکاری میں تو ایک شخص بادشاہ بنا بیٹھا ہوتا ہے باہر نکلے تو پیسے کے لے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوتا ہے کہ میرے آج کے سین کے پیسے دو آٹا تو خریدوں تو عبادت کو اداکاری نہیں بنانا چاہےے اداکاری ہوتی ہے لوگوں کو دکھاوے کے لئے عبادت ہوتی ہے اﷲ کی رضا کے حصول کے لئے ہر چیز کامدار اﷲ کریم کی قبولیت پر ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد میں نے پڑھا فرماتے ہیں پوری زندگی میں کسی کی ایک تسبیح قبول ہو گئی اس نے سبحان اﷲ کہا ،اﷲ اکبر کہا، الحمداﷲکہا، سبحان ربی العظیم کہا،سبحان رب الاعلیٰ کہا یہ سب تسبیحات ہیں،ان میںسے ایک تسبیح قبول ہو گئی تو اس کی نجات کے لئے کافی ہے اﷲ کی رحمت اور اس کی عطا اتنی بڑی ہے کہ اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا فرمایا ایک تسبیح کی قبولیت زندگی بھر کے گناہوں کو معاف کرنے اور نجات کے لئے کافی ہے تو پھر جنھیں اﷲ نے توفیق دی ہے ساری زندگی تسبیحات میںاذکار میں عبادت میں تلاوت میں رکوع وسجود میں گزر جاتی ہے تو کتنی رحمت سمیٹے ہیں؟ کتنی بخشش سمیٹتے ہیں؟ کتنی عطائیں ان پر ہوتی ہیں؟ لیکن ان سب کی قبولیت کا دنیا میں معیار یہ ہے کہ اﷲ کی عظمت کا احساس دل میں زندہ ہوجاتا ہے نافرمانی سے رک جاتا ہے اطاعت کی توفیق ہوجاتی ہے اورہمیں متقدمین سے، صحابہ کرامؓ سے ،اہل اﷲ سے، مشائخ عظام سے یہی ثبوت ملتا ہے کہ حقیقت اسلام جب ان کے دل میں جاگزیں ہوئی تو ان کی زندگیاں یکسر بدل گئی ہیں وہی لوگ تھے چہرے نہیں بدلے رنگ نہیں بدلے قدگوشت پوست نہیں بدلا وہی وجود تھے لیکن یکسر بدل گئے پورے کا پورا کردار سو فیصد تبدیل ہو گیا آج بھی ہمیں بجائے یہ دیکھنے کے کہ کتنے لوگوں کو پتہ ہے میںنے اعتکاف کیا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ میرے دل میں کتنی کیفیات بدلیں ؟ کتنی لذتِ عبادت بڑھی نافرمانی سے کتنا اجتناب کرنے کی توفیق ہوئی اور یاد رکھیں اطاعت احکام کی پیروی میں اپنی طرف سے چیزیں گھڑ کے اس پر قائم ہونا کسی نیکی کا سبب نہیں بنتا بلکہ ا ﷲ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور کریم اپنی ناراضگی سے پناہ میں رکھے ہمارے گناہوں سے درگزر فرمائے ہماری خطائیں معاف فرمائے اورہمیں نیکی کی توفیق عطا کرے نیکوں کو ساتھ دے نیکی پہ موت دے اور نیک بندوں کے ساتھ حشر فرمائے۔