وفاق المدارس:نالہ ہے بلبلِ شوریدہ تیرا خام ابھی!

الحمد للہ اس وقت وفاق المدارس کا نصاب بہت خوب اور شاندار ہے ، اور بلا مبالغہ دنیا کی کئی بڑی جامعات سے بہتر ہے ، اس وقت عالم اسلام کی قدیم اور مشہوردرسگاہ ” جامعہ ازھر ” سمیت اردن ، لبنان ، ام القری کے پڑھے ہوئے کئی حضرات اس بے علم وعمل طالب علم کے ہم درس ، شاگرد یا کولیگز ہیں ، ان کی علمی استعداد اگرچہ مجھے سے تو بہت اچھی ہے، لیکن مجهے سے هي بهتر هے؛ اس لئے میرا تجربہ یہ ہے کہ وفاق المدارس کا ایک قابل فارغ التحصیل کی ) ا استعداد کسی طرح بھی ان سے کم نہیں ، البتہ اس سے انکار نہیں کہ ان کو پرائیویٹ طورپر مختلف یو نیورسٹیز سے امتحان دے کر ڈگری حاصل کرنی پڑھے گی ، اور کچھ زبانیں سیکھنی پڑھیں گی ،

یہاں گواہی کے طور پر عصر حاضر کے معروف فقیہ ومحدث مفتی تقی عثمانی صاحب کی ایک عبارت احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، حضرت لکھتے ہیں :
وفي خلال عملي ذلك ، كثيرا ما أحتاج إلى مناقشة ذلك القانون مع رفاقي في المحكمة الذين كانوا مؤهلين في القوانين القوانين الوضعية وطالت تجربتهم في ذلك ومراراً في أثناء المناقشة كنت أتي بتفسيرللقانون يخالف الظاهر وإنّهم بعد سماع كلامي يقرّون مافسّرته به ، فقال رئيس القضاة مرّة إن هذا الرّجل ربّما يسرع في فهم القانون أكثرمنّا ، فأجاب أحدهم بأنّه درس الحقوق بمرتبة الشّرف . فأجبت قائلا : إنّ فهمي للقانون لا ينبثق من دراستي للحقوق ، وإنّما هو ناتج من دراستي للفقه الإسلامي ” وكان هذا الجواب حقيقة أجزم بها حتى الأن . (عثماني ، محمد تقي ، فقه البيوع ، مقدمة ، مكتبة المعارف سنة 2015م ج1/ص 13)

یعنی جب میں وفاقی شرعی عدالت میں جج تھا تو اس دوران مختلف قانونی معاملات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بحث ومباحثہ بھی کرنا پڑتا تھا ، یہ حضرات قانونی ماہرین بھی تھے اور اپنے فن میں طویل تجربہ کے حامل بھی ، کئی بار ایسا ہوا کہ کسی قانونی شق کی تشریح میں میری رائے بادی النظرمیں ظاہر کے خلاف ہوتی تھی ، لیکن پوری بات اور دلائل سننے کے بعد وہ سب ساتھی میری رائے کی تائید کرتے ، ایک دفعہ عزت مآب چیف جسٹس صاحب یہاں تک کہ دیا کہ یہ آدمی ( اپنی نوخیزی کے باوجود) کئی بار قانون ہم سے زیادہ سمجھتا ہے ! اس پہ ایک صاحب بولے ، کیونکہ انہوں نے وکالت کا امتحان اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا ہے ، لیکن میں فورا کہا : مجھے جو قانون فہمی کی دولت عطا ہوئی ہے ، اس کا سہرا قانون اور وکالت کی نہیں ۔ بلکہ فقہ کی تعلیم کے سر سجتا ہے ! اور یہی (فقہ کی تعلیم ) ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مجھے ابھی تک یقین ہے

یہ بے علم وعمل طالب علم اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اسے پاکستان کے علاوہ کئی ملکوں کے ماہرین تعلیم ، سفیروں ، پی ایچ ڈیز پرفیسرز اور اھل علم سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہو ا ہے ، جس سے ملا سب یا اکثر کا یہی سوال تھا کہ آپ نے کہاں سے پڑھا ہے ؟ جواب میں الحمد للہ یہ طالب علم اپنے مدرسہ کے ٹوٹے بوریہ اور صدقہ کی روٹیوں کا ایڈریس بتاتا تو وہ حیران ہوجاتے ، اور کئی حضرات نے مجھے وفاق کے کا نصاب مانگا تھا ، تو میں نے ان کی خدمت مین وفاق کا نصاب (جس کا عربی ترجمہ استاذجی ولی خان صاحب نے ”دلیل الوفاق ”کے نام سے کیا ہے ) پیش کیا ، جس پہ وہ بہت خوش بھی ہوئے اور حیران بھی ، سبھی نے بہت سراہا ، جن کو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے دلیل الوفاق دیا ہے ان میں کوئی ایک بھی پی ایچ ڈی سے کم نہیں ، اور بعض تو سالہاسال تک فکیلٹی ڈین بھی رہے ہیں َ۔ چند عجم وعرب ملکوں میں سرکاری وغیر سرکاری دینی مدارس ( بشمول کلیہ الشریعہ ) کے نصاب اور اس کے پڑھنے پڑھانےوالے اساتذہ وطلبہ سے ملاقاتوں اور طویل نشستوں کے بعد میں اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں کہ الحمد للہ فی الوقت وفاق المدارس کے نصاب کا کوئی نعم البدل نہیں ، لیکن بایں ہمہ انسانوں کے بنائے ہوئے کسی بھی نصاب میں بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے ، اس لئے وفاق المدارس کا نصاب بھی اس سے مستثنی نہیں ، باقی جتنا فقہی ذخیرہ ہمارے نصاب میں شامل ہے دنیا کی کسی یونیورسٹی میں نہیں ، نورالایضاح قدوری ، کنزوقایہ اور ہدایہ کے بعد آدمی ہلکے سے مطالعہ سے جدید فقہی مباحث کو سمجھ سکتاہے ، ( بشرطیکہ اس نے کسی اچھے مدرسہ میں پڑھا ہو ، اور دوران تعلیم تعلیم پہ ہی کونسنٹریٹ کیا ہو) مزید فائدہ کیلئے حضرت مفتی تقی ؑثمانی صاحب کی فقہ البیوع ، قضایا فقہیہ معاصرہ ، اور د۔ سعید رمضان بوطی شہید کی بعض کتب شامل کی جاسکتی ہیں ، اسی طرح حدیث تفسیر ، عربی ادب ، صرف نحو ، اصول فقہ ، اصول حدیث کا بھی اچھا خاصا مواد موجود ہے ، البتہ منیجمنٹ ، اساتذہ کی تقرری اور ان کے درمیان کتب کی تقسیم میں بہتری عربی وانگریزی زبان پر توجہ سمیت انتظامی امور میں اصلاح کی ضرورت ہے ، اور ان شاء اللہ ذمہ داران وفاق اس سے غافل بھی نہیں ، اس لئے سوشل میڈیا پر بے جا تنقید کرنے والوں سے گذارش ہے کہ
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ تیرا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے