ڈیرہ غازی خان کے چاچا نذر کی دلگداز کہانی

ایک دور تھا کہ سرائیکی علاقوں میں مقامی رپورٹر نہ تو علاقے کے خان، ملک، مزاری، لغاری یا کھوسے کے بغیر صحافت کر سکتا تھا اور نہ ہی کوئی ایسی خبر چھپ سکتی تھی جو اسے اچھی نہ لگے۔ ان علاقوں میں صحافت کے بارے میں امیج اچھا بھی نہ تھا۔ برسوں قبل بہاولپور ڈویژن سے آئے ہوئے ایک سرائیکی ایم این اے نے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میرے ملتان کے دوست روشن ملک نے مجھ سے کہا کہ ان سے ملنا ہے۔

روشن ملک ہمارا پرانا یار غار ہے، لہٰذا میں نے کہا چلو سائیں ابھی چلتے ہیں۔ ہم پارلیمنٹ لاجز گئے۔ خوبصورت گفتگو ہوئی کیونکہ وہ ایم این اے صاحب کتابوں کے رسیا تھے۔ مجھے توقع نہ تھی ہمارے سرائیکی علاقوں کے ایم این ایز کو بھی کتابوں سے دلچسپی ہوسکتی ہے۔ ان کے کمرے میں اچھی کتابیں بھی پڑی تھیں۔ تاہم اس وقت بدمزگی ہوگئی جب ہم رخصت ہونے لگے تو وہ اندر سے سفید لفافہ لائے۔ میں حیران کہ یہ کیا چیز ہے۔ بولے یہ آپ کی خرچی ہے۔۔۔۔ رکھ لیں۔ پہلے تو میرا بھی موڈ خراب ہوا لیکن پھر میں نے خود کو تسلی دی کہ ان کا کوئی قصور نہیں، ان علاقوں میں اس طرح کی خرچی عام بات ہے۔ اکثر صحافی لیتے ہیں اور یہ دیتے ہیں۔ اصرار کیا کہ کوئی خدمت بتائیں۔ میں نے ان کی دو شاندار کتابیں اٹھا لیں اورکہا میں اسے اپنی خرچی کے طور پر رکھ لیتا ہوں۔

اس طرح ان سرائیکی علاقوں میں پھیلی غربت، بربریت اور ظلم و ستم کی داستانیں شہروں تک نہ پہنچ پائیں۔ اگر کسی رپورٹر نے ہمت کر کے لکھ بھی دیا تو وہ ملتان کے مقامی ایڈیشن میں چھپ جاتا لاہور، اسلام آباد، کراچی کسی کو کچھ خبر نہ ہوتی کہ ان علاقوں میں انسان کیسے زندہ تھے۔ اب بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ سب اخبارات کے ملتان سے ایڈیشن نکلتے ہیں اور خبر وہیں اندرونی صفحات پر ہی دب جاتی ہے۔ جب تک بڑا بم نہ پھٹ جائے، سرائیکی علاقوں کی خبر اسلام آباد اور لاہور تک نہیں پہنچتی، لہٰذا یہاں بیٹھے حکمرانوں اور زکوٹا جنوں کے لیے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔

ٹی وی جرنلزم اور سوشل میڈیا نے کسی حد تک اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کی ہے؛ تاہم ٹی وی پر بھی سرائیکی علاقوں کی خبر چند سکینڈ کے لئے چلتی ہے۔ رپورٹر پوری بات بتانے لگتا کہ اس کا شکریہ ادا کر کے رابطہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ یہی میڈیا گھنٹوں تک اسلام آباد، لاہور، کراچی کے مالکوں کی گھنٹوں پریس کانفرنس دکھاتا ہے اور اس دوران کوئی اشتہار بھی چلایا جاتا، لیکن جونہی پس ماندہ علاقوںکا رپورٹر کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فوراً کٹ! تاہم سوشل میڈیا نے کافی مدد کی ہے، اب پس ماندہ علاقوں کے لوگ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے بڑی حد تک مسائل سامنے لا رہے ہیں۔ ایک اور بڑا فرق سرائیکی علاقوں میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ پڑھے لکھے لڑکے جرنلزم کی طرف آرہے ہیں اوراپنے مسائل کو اجاگر کر رہے ہیں۔

یعقوب بزدار بھی ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں صحافت کرتا ہے اور خوب کرتا ہے۔ محنتی ہے اور خبروں کی تلاش میں سرگرداں۔ اس نوجوان کی اکثر تحریریں اور رپورٹس میری نظر سے گزرتی ہیں۔ ایک رپورٹ میں نے اس کے فیس بک پیج پر پڑھی تو نہ رہا گیا اور اسے فون کیا اور اس معاملے کی تفصیلات مانگیں۔ کہنے لگا سر کیا کریں گے، آپ تو اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کو تو پتا ہے ہر دوسرے انسان کی کہانی چاچا نذر کی کہانی ہے۔ کس کس کا رونہ روئیں گے۔

آپ بھی یہ تحریر پڑھیں۔ ہوسکتا ہے چند دلوںکو نرم کر دے،کچھ کی آنکھوں میں آنسو لے آئے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ہمیں ابھی احسن اقبال کی وزارت نے بتایا ہے کہ چالیس فیصد لوگ غریب ہیں، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں آٹھ کروڑ انسان غریب ہیں۔ ان آٹھ کروڑ میں ایک کہانی چاچا نذر کی بھی کہانی ہے جس کے ملک کے وزیراعظم کے دفتر کے باتھ روم پر دو کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اور مری میں گورنر ہائوس کی آرائش پر پچاس کروڑ روپے لگائے گئے ہیں۔ شاہی خاندان مری میں ہو تو اسلام آباد سے دیگیں پک کر ہیلی کاپٹر پر لے جائی جاتی ہیں۔

یعقوب بزادار لکھتے ہیں: چاچا نذر اللہ کا ایک پیارابندہ ہے۔ میں آج صبح آفس کے لیے گھر سے نکلا، چند قدم ہی سفر کیا تھا کہ میری نگاہ ایک سفید ریش 60سے65سالہ بزرگ پر پڑی جو تقریباً 44 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائدٹمپریچر میں لوہے کی چھانی پہ تپتی ریت کو اپنے ہاتھوں سے چھانی دے رہا تھا۔ میں نے کچھ دیر یہ منظر دیکھا۔ اس شدید گرمی میں جہاں دھوپ میں ٹھہرنا بھی مشکل ہے، یہ عمر رسیدہ بزرگ اس چیز سے بے نیاز نظر آرہا تھا۔ میں آگے بڑھا اور اس سفید ریش بزرگ کو سلام کیا۔ اس نے اپنانام محمد نذر بتایا، کوٹ چھٹہ کا رہائشی جو ڈی جی خان شہر سے 20کلومیٹر جنوب میں واقع اور ضلع ڈی جی خان کی تحصیل ہے۔

میں مزید سوال کرتا اور چاچا نذر شدید گرم ریت کو ہا تھ سے چھانتا رہا۔ میں نے دیکھا چاچانذر کے پائوں میں ربڑ کی پھٹی ہوئی جوتی ہے، پیوند لگے کپڑے ہیں۔ اس کو بدن پر پڑنے والی تپش کا احساس شاید اس لئے نہیں ہو رہا تھا کہ غربت کی تپش دھوپ کی گرمی سے زیادہ تھی۔ میں نے چاچا نذر سے اس کے بارے میں پوچھا تو روایتی انداز میں اس کا جواب تھا کیا پوچھتے ہو بیٹا۔ میں نے اصرار کیا کہ کچھ اپنا اور اپنے بچوں کے بارے میں بتائیں۔ آپ اس عمر میں مزدوری کرنے پر کیوں مجبور ہیں جب حکومت بھی مانتی ہے کہ عمر کے اس حصے میں انسان کام کے قابل نہیں رہتا؟ پھر آپ اس شدید گرمی میں آخرکیوں تپتی ریت ہاتھوں سے چھاننے پر مجبورہیں؟ چاچا نذر نے ایک ٹھنڈی آہ بھر ی اور غمناک لہجے میں ہاتھ سے ریت چھانتے ہوئے بولا، بیٹا میرے تین بیٹے اور سات بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بڑا بیٹا جو امیدوں کا محور اور بڑھاپے کا سہارا تھا چند سال قبل سردی لگنے کی وجہ سے16سال کی عمر میں وفات پاگیا۔ اس کے بعد میری دو بیٹیاں بھی وفات پاگئیں۔ باقی پانچ بیٹیوں میں سے دو کی شادی کر چکا ہوں جبکہ تین بیٹیاں اور دوکم سن بیٹے گھر پر ہیں، ان کی روزی روٹی تلاش کرنے کے لیے روز شہر کارخ کر تا ہوں۔

جب میں نے اس کے گھر کا پوچھا تو اس نے بتایا اس کا گھر ایک کچے کمرے پر مشتمل ہے جس میں یہ سات افراد اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ چاچا نذر کی لرزاہٹ بھری آواز، اس کے دل میں چھپے شدید غم، غربت اور اس کے کمزور بوڑھے کندھوں پر چھ افراد کے بوجھ کی عکاسی کر رہی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا ایک دن کا کتنامعاوضہ ملتا ہے؟ چاچا نذرنے کہا ساڑھے تین سو روپے، وہ بھی جب کام ملے، بعض اوقات کئی دن کام ہی نہیں ملتا۔ کام ڈھونڈتا رہتا ہوں، کسی سے کام کا پوچھتا ہوں تو جواب ملتا ہے بابا آپ بزرگ ہیں، آپ سے کام نہیں ہو سکتا۔ اب میں کس طرح سمجھائوں کہ میر ے صبح گھر سے نکلنے سے شام گھر واپسی تک میر ے پانچ بچے اور بیو ی میری راہ دیکھتی رہتی ہیں کہ کھانے پینے کا کچھ سامان لے کرگھر پہنچوں اور وہ کھا سکیں۔

یہ بات بتا کر چا چا نذر کے آنسو بہہ نکلے کہ ماہ رمضان آتے ہی کام ٹھپ ہو گیا ہے۔گزشتہ ہفتے جب مسلسل کام نہ ملا تو میں نے اپنی سائیکل بیچ دی جس پر روزانہ شہر کام کی تلاش میں آتا تھا۔ سائیکل بیچ کر مجھے بتیس سو روپے ملے جس میں سے ایک تھیلا آٹے کا لیا، کچھ سودے لیے۔ محلے کے دکاندار کو پچیس سو روپے دینے تھے، پندرہ سور روپے اس کو دیے۔ واپس گھر گیا تو میر ی لاڈلی بیٹیوں نے حسب روایت دروازے پر میرا استقبال کیا اور سامان میرے ہاتھوں سے لے کر کہا، ابا آپ کی سائیکل کہاں ہے؟ میں نے ان کو جواب دیا،سائیکل خراب ہو گئی ہے، دکاندار کے پاس ہے، ایک دوروز
میں واپس لے آئوں گا۔

چاچا نذر کی دل ہلادینے والی آواز میں یہ سب سن کر میں اپنی آنکھوں کے آنسو نہ روک پایا کیو نکہ مجھے یقین تھا کہ ان کے الفاظ میں جھوٹ اور بناوٹ کاکوئی عنصر شامل نہ تھا۔ میں نے کہاکہ چاچا میں آفس جا رہا ہوں، تو انہو ں نے کہا الوداع۔ میں سید ھا دکان پر گیا اور حسب توفیق کچھ اشیا ضروریہ خریدیں اور واپس چاچانذر کے پاس آیا۔ سامان اور چند روپے دینے لگا تو چاچا نے غیور آواز میں کہا کہ بیٹا میں مزدور ہوں بھکاری نہیں۔ چاچا کے یہ الفاظ اس کے اندر چھپے ضمیر اور پختہ ایمان کی دلیل تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے چاچا نذرکو راضی کیا کہ وہ یہ سامان اور پیسے رکھ لے۔ ا س دوران وہ بار بار آنکھیں مل رہا تھا۔ پوچھا تو بولے، چند دن پہلے چھت کی بھرائی کر رہے تھے کہ ریت اور سیمنٹ کا مکس آنکھوں پر گرگیا۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے پیسے ہیں نہ وقت۔ جب آنکھوں میں خارش ہوتی ہے تو مل لیتا ہوں،کچھ دیر سکون مل جاتا ہے۔ اس دوران وہ مٹی کو بھی چھانتا رہا۔ بولے، ٹھیکیدار نے کہا ہے کہ آدھی ٹرالی کو چھاننا ہے، صبح مستری آ کر کام کریں گے۔ میں نے پوچھا چاچا عید کے لیے بچوں کے کپڑے لیے تو غم بھری آواز میں بولے، کیسی عید، عید تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہے، ہمارے لیے تو عید بھی نقصان میں جاتی ہے۔ میں تو پریشان ہو رہا ہوںکہ عید پر تین چار دن کام ملنا بند ہوجائے گا۔

یعقوب واپس جانے لگا تو اس مکان کا مالک آیا جو تھوڑا سا اس کا واقف تھا۔ وہ بولا، یہ بزرگ روزے سے ہیں۔ میں انہیں کام پر نہیں رکھنا چاہ رہا تھا لیکن انہوں نے بہت منت کی کہ کام نہیں ہے، لہٰذا میں نے انہیں کام دے دیا۔ کیا کروں کام تو لینا ہے!

یعقوب بزدار درست کہتا ہے کہ سرائیکی علاقوں میں ایسی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔کس کس پر لکھا جائے اورکس کس کا دکھ دور ہو سکتا ہے۔

جن کی پاناما، لندن اور دبئی میں حرام کی دولت سے خریدی گئی جائیدادیں بکھری پڑی ہوں انہیں چاچا نذر جیسے ہاتھوں کی کیاقدر! وہ کیا جانیں چاچا نذر کو اپنی عزت نفس پاناما کے سوداگروں سے زیادہ عزیز ہے جو لندن کی سڑکوں پر رات گئے اجنبیوں سے گالیاں کھا رہے ہیں۔۔۔۔!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے