یکے از بُرشیاتِ سہیل

کچھ دن سے محسوس کر رھا تھا کہ جب میں آلہٴ صفائی برائے دندان (جسے ٹوتھ برش یا فرشاة الأسنان کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ھے) استعمال کر رھا ھوتا ھوں تو کیفیت کچھ یوں ھوتی جیسے آپ ھاکی کھیلنے کے دوران ساکت گیند کو زور سے ھٹ لگائیں لیکن پتہ تب چلے جب ریفری سیٹی بجا کے فریق ثانی کو مطلع کر دے کہ ”یا اخی ،، اینے فاوٴل کر دتا اے ھون ھٹ توں لا” ،، بہرحال ،، کاروبارِ نظافتِ دندان میں کچھ کمی سی محسوس ھونے لگی ایسے میرے دانتوں کی نام نہاد صفائی کو جب کچھ دن گزر چکے تو میں نے ٹوتھ برش کی ”ویکلی انسپکشن” کا اصولی فیصلہ کیا ۔۔۔ تو انکشاف ھوا کہ چونکہ اس کی ”ڈیلی انسپیکشن” میں غفلت برتی گئی ھے اس واسطے اس کی پرواز میں شدید کوتاہی آچکی تھی۔۔۔ پھر سوچا کہ ابھی اس بیچارے کو خریدے دن ھی کتنے ھوئے ھیں ،، جمعہ ، جمعہ فقط دوسو آٹھ دن ،،، اور ابھی سے اس نے داغِ مفارقت سے متعلق اشاره جات دینا شروع کر دئیے ھیں ،، یہ مرحلہ تو کہیں راستے میں آنا تھا،،

بطور جملۂ معترضہ یہاں مجھے اپنا جگرِ سوئم ، بی ۔ ایچ ۔ خان عرف جانو جرمن سابقہ جیل سپریٹینڈنٹ سنٹرل جیل جھنگ حال مقیم اسلام آباد، یاد آیا ۔۔۔ باره تیره برس اُدھر ھم پی ۔ اے ۔ ایف بیس مسرور (کراچی) میں ملی و قومی ھم آھنگی کے ساتھ رہا کرتے تھے ۔۔۔۔ میں اکثر و بیشتر جانو کے کمرے میں جایا کرتا ،،، میری نظر جب بھی اس کی الماری کے اندر رکھے ھوئے ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ پر پڑتی میں یہ سوچ کر حیران ھو جاتا کہ میرا دوست اور اتنا ذمہ دار؟ ناممکنات میں سے ھے ۔۔۔۔ کہ ٹوتھ برش نیا اور ٹوتھ پیسٹ تو جب دیکھو، بالکل نیا ۔۔۔ ایک دن میں نے جانو سے کسوٹی کسوٹی کھیلنا شروع کر دی،، کہ قوم کو ان وجوه سے آگاه کیا جائے کہ جن کی بنا پر تمھارا برش اور پیسٹ نئے کا نیا دِکھتا ھے ،،، ایک میں ھوں کہ برش تو اپنا ھوتا ھے لیکن ٹوتھ پیسٹ کے بارے میں راوی شدید شکوک و شبہات کا شکار رھتا ھے ۔۔ کہ وه تو جس کا ھے، جتنا ھے ، حسبِ ذائقہ و حسبِ ضرورت نظر بچا کر استعمال کر لیتا ھوں ،، بالخصوص مہینے کی بیس تاریخ کے بعد۔۔۔

گولڈ لیف کا تقریبا” ایکس ایل سائز کا آخری کش لگا کر جانو فیصلہ کن انداز میں جوابا : میں اپنے دانت سال میں صرف ایک مرتبہ صاف کرتا ھوں ۔۔۔ یہ کہہ کر جانو نے اپنا سیگریٹ فرش پر رکھ کر یوں توڑا جس طرح جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت والا فیصلہ لکھ کر اپنا قلم توڑا ۔۔۔ جانو نے تو صرف مجھے ورطہء حیرت میں مبتلا کیا لیکن جسٹس منیر نے پوری قوم کو۔۔۔

جانو کے ”دندان شکن” جواب پر میں حیرت سے بولا کہ جانو، تمھارے دانت ھیں یا پنجاب کی نہریں ؍ کھال ہںیں کہ جن کی بھل صفائی سال میں ایک مرتبہ ہی ہںوتی ہںے؟ قریب پندره برس ھونے کو آئے ہںماری دوستی پھول کر کپا ھوچکی ھے۔۔۔ اور اب یہ عالم ہںے کہ ایک پنجابی محاورے کی مطابق جو کہ سیٹھ طفیل ٹوکہ اینڈ سنز سمندری روڈ لائلپور (فیصل الاباد) والوں نے اپنی فیکٹری کے ماتھے پہ لکھ کے ٹانگ رکھا ہںے کہ ”دادا لوے، پوتا ہںنڈاوے،،،، نہ ٹوٹے، نہ جان چھُٹے” ۔۔۔۔

اقوامِ عالم کا ٹوتھ برش کے ساتھ حسنِ سلوک وه جانیں اور برش جانے ،،، وه تو شاید ماہانہ بنیادوں پر اسے تبدیل کرتے ہںوں گے، ہںم پاکستانی تو بقول شاعر ؎؎
ہم تو محنت میں بھی توحید کے قائل ہںیں قتیل
ایک ہںی برش کو ساری عمر کام پہ لگائے رکھا

نظافتِ دندان کے فرائضِ منصبی سے سبکدوشی پر ہم اسے بال رنگنے پر معمور کر دیتے ہںں،،، کچھ عرصہ بعد ادھر سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اسے سلائی مشین اور اس سے ملتے جلتے گھریلوُ آلاتِ دگر کی صفائی و ستھرائی پر لگا دیا جاتا ھے۔ لیجئے صاحب ! چند ماہ بعد جب برش تنظیفی خدمات سرانجام دینے کے بعد یہاں سے بھی پنشنی ھوجاتا ہںے اور اس کے دانت تقریبا” جھڑ جاتے ہیں تو اس پر نئی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہںے ،،، اب یہ کمر کی خارش کرنے کے منصب پر فائز کر دیا جاتا ھے ۔۔۔ گمان ہںے کہ کمر سے بھی چونکہ خطِ استوا کا گزر ہںوتا ہںے اس لئے یہاں بھی طول بلد اور عرض بلد فرض کر لیے جاتے ہیں اور پھر برش کو لے کر کے عموُدی، متوازی، اُفقی غرضیکہ ھمہ قسم کے قائمے زاویوں سے خارش کی جاتی ہںے۔۔۔۔
لفظ خارش ذہںن میں آتے ہی بلاتعطل عطاءالحق قاسمی یاد آجاتے ہیں ، بقول جن کے ”بیوی سے محبت کا اظہار کرنا بالکل ایسے ہںی ھے جیسے بندہ اس جگہہ خارش کرے جہاں خارش نہ ھو رھی ھو”۔۔۔۔

اب ٹوُتھ برش پر بڑھاپا طاری ھو جاتا ھے اور اس کے بال وغیرہ داغِ مفارقت دے جاتے ھیں ،،، لیکن نہیں ،،، ٹھہرئیے ! چونکہ ھم زندہ قوم ھیں ،،، پائندہ قوم ھیں، تو برش لبِ گور پہنچ کر بھی ھمارے آپ کے کام آئے گا ،،، اب یہ قوم کی شلواروں میں بند قبا ڈالنے کے لئے استعمال ھوگا ،،،، بند قبا کو عام فہم زبان میں ناڑہ یا نالہ کہا جاتا ھے۔ البتہ نالہ ھائے فریادی چیزے دگر است ۔۔۔ یہاں وضاحت ضروری ھے کہ مذکورہ آلے کے نام کا ترجمہ عزیزی محمد اشفاق صاحب نے کیا ھے سو ترجمہ کے پیشگی حقوق بحق محمد اشفاق ضبط ھیں۔

حرفِ آخر، ذہںن کے کسی نہاں خانے میں یہ خیال جاگزیں ھوتا ھے کہ انور مسعود کی شہره آفاق بنیان اور ٹوتھ برش میں کوئی باھم ربط ضرور ھے کہ بنیان اور برش دمِ آخر بالترتیب جانگیہ اور آلہ برائے بند قبا المعروف ”نالے پانی” کا روپ دھار جاتے ھیں۔

اضافی نوٹ ؛ نام نہاد مصنف شعبۂ ھوا بازی سے منسلک ھیں اس لئے ھوا میں لمبی لمبی چھوڑتے رھتے ھیں، ان کی باتوں کا برا نہ منائے گا البتہ اداره ان کے اقوال و افعال کا ھرگز ذمہ دار نہیں ھے۔۔ (اداره)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے