"مولانا متردد "اور ناسٹلجیا کے آفٹر شاکس

یونی ورسٹی میں طالب علمی کے دور میں ہمارے گروپ میں انواع و اقسام کے اصحاب پائے جاتے تھے۔ کسی کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا تو کسی کا جمعیت طلبائے اسلام سے ، کوئی تبلیغی جماعت کے ساتھ چلے لگاتا تھا ، یا لگواتا تھا ، تو کسی کو "اسلامی انقلاب” کی فکر لاحق تھی ، کوئی سلوک کے منازل طے کررہا تھا اور کوئی پختون قوم کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافی پر نوحہ خوانی کا مشغلہ رکھتا تھا ۔ عصر کے بعد نثارخان کے ہٹ میں دودھ پتی پر شروع ہونے والا مباحثہ فیصل مسجد اور ای سیون میں بھرپور واک کے بعد واپس نثار خان کے ہٹ میں رات کے کھانے کے بعد بھی جاری رہتا اور بسا اوقات کھانے کے بعد فیصل مسجد کے گرد ایک اور واک اور اس کے بعد نثار خان کے ہٹ میں دودھ پتی کی اگلی پیالی پر بھی جاری رہتا ۔

اس گروپ میں شامل اصحاب میں بعض پر وقتاً فوقتاً لکھوں گا۔ آغاز مولانا متردد سے کرتے ہیں ۔ جو دوست مولانا متردد سے واقف ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنے کمنٹس میں ان کا نام نہ لکھیں ورنہ وہ مولانا متشدد بھی بن سکتے ہیں ۔

مولانا متردد کا تعلق سوات کی حسین وادی سے تھا (یہ الگ بات ہے کہ سوات کے جادوئی حسن کا کچھ بھی اثر مولانا متردد کے ظاہر میں نہیں جھلکتا تھا)۔ مدارس کے طلبہ کے عمومی معمول کے مطابق انھوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا ، یعنی کئی مدارس میں وقت گزار چکے تھے اور "فارغ” کہیں سے نہیں ہوئے تھے۔ اسی کے نتیجے میں مسلسل تردد کا شکار رہتے تھے ۔ کیا بے چین روح پائی تھی ۔ کبھی بری امام کے مزار پر سماع کی محفل میں بیٹھے ہیں (اور شنید ہے کہ سوٹے بھی لگاتے تھے) ؛ تو کبھی ریاض بسرا کا پوز بنا کر تکفیر و تقتیل کے ارادے ظاہر کرنے لگتے تھے ؛ اگلے دن معلوم ہوتا تھا کہ وہ جمال شاہ کے "ہنرکدہ” میں فنون ِ لطیفہ اور اعضاے رئیسہ کے تعلق پر انتہائی پرمغز گفتگو میں مصروف ہیں ۔ اس سارے تردد میں ایک بات بہرحال constant تھی : مولانا فضل الرحمان صاحب کے ساتھ عقیدت کی آخری حد کو چھونے والی محبت! یہاں تک کہ ایک د ن ہم سوات میں ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ ان کے مدرسے کی دیوار پر نعرہ لکھا ہوا ہے :

[pullquote]دو ملکوں کے دو حکمران ، ملا عمر فضل الرحمان !
[/pullquote]

فضل الرحمان صاحب کیا حکمران بنتے ، کچھ دنوں میں ملا عمر ہی کی حکومت ختم ہوگئی اور ہمارے بعض دوست اسے اسی نعرے کا اثر قرار دینے لگے۔

مولانا متردد نے طالبان کے دور میں افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا اور اس وجہ سے یونی ورسٹی میں نئے آنے والے طلبہ کو اپنے "جہادی تجربات” سے بھی آگاہ کرتے رہتے تھے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان تمام تجربات میں صرف نمکین کڑاہی یا مٹن تکہ ہی کی تفصیلات ہوتی تھیں اور "جہاد "کی تفصیلات ہمیشہ "اگلی ملاقات” کے لیے چھوڑ دیتے تھے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ امریکا نے افغانستان پر کروز میزائل برسائے ۔ مولانا مترددبہت مشتعل تھے اور دیگر مشتعل طلبہ کے ساتھ مل کر آب پارہ میں کئی دفعہ شعلہ نوا مقرر کی حیثیت سے لوہا منوایا ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ سارا دن یونی ورسٹی میں کسی دوست کو نظر نہیں آئے ۔ سب تشویش میں مبتلا تھے اور اسی تشویش میں نثار خان کے ہٹ میں دودھ پتی پی رہے تھے کہ اچانک مولانا متردد نمودار ہوئے۔ پسینے سے شرابور ۔ سانس چڑھی ہوئی ۔ چہرے پر تھکن کے آثار۔ کپڑے گرد و غبار سے اٹے ہوئے۔ سب کو فکر ہوئی ۔ کیا ہوا؟ کہاں تھے ؟ بڑی مشکل سے سانس پر قابو پا کر کہا کہ آب پارہ میں جلسہ تھا، پولیس نے لاٹھی چارج شروع کیا ، بڑی مشکل سے جان بچا کر آئے ہیں ۔ ایک دوست نے فقرہ کسا : یہ تو بھگوڑا ہوا ۔ فوراً جواب دیا : متحرفاً لقتال یا متحیزاً الی فئۃ کو بھگوڑا نہیں کہتے ۔ انعام کو اس کے میلے کپڑوں پر ہی غصہ آرہا تھا ۔ ( صفائی نصف ایمان کو انعام مکمل ایمان سمجھتا تھا اور اس کی کچھ تفصیل بعد میں عرض کروں گا ۔ ) کہا : "تمھیں شرم نہیں آتی ۔ اتنے گندے حلیے میں تم اسلام کی بات کرتے ہو ۔ "جواب تیار تھا : "جہاد سفید استری شدہ کپڑوں کا شوق رکھنے والوں کا کام نہیں ہے ۔ یہ ہم جیسے میلے کچیلے لوگ ہی کرتے ہیں ۔ ” کچھ لوگوں نے تحسین کے ڈونگرے برسائے لیکن ایک نے مشورہ دیا کہ ہاسٹل جاکر منہ ہاتھ دھو آؤ ، پھر بات کرتے ہیں ۔ اٹھ گئے ۔ اور غائب ہوئے ۔

کچھ دیر انتظار کے بعد سارے دوستوں نے ٹھان لی کہ مولانا متردد کو ڈھونڈ نکالنا ہے ۔ پورا ہاسٹل چھان مارا ۔ نہیں ملے۔ کسی کو پتہ بھی نہیں تھا ۔ ایک پختون قوم پرست دوست مسکرا رہے تھے ۔ پوچھا تو کہا کہ یار میں بتادیتا ہوں کہ کہاں گیا ہے لیکن میرا نام نہیں لینا۔ وعدہ کیا تو اس نے کہا :

قائد اعظم یونی ورسٹی میں پشتو موسیقی اور روایتی اتنڑ( رقص )کی محفل ہے ؛ وہاں چلا گیا ہے !

(جاری)

[pullquote]ڈاکٹر محمد مشتاق
[/pullquote]

Dr Muhmmad Mushtaq

ڈاکٹر محمد مشتاق بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ، اسلام اور جنگی قوانین پر ان کی کتب اور مقالے ملک اور بیرون ملک منعقدہ کانفرنسز میں پڑھے گئے ۔ سماجی میڈیا پر وہ کبھی کبھار اپنے ذوق کے مطابق ہلکا پھلکا لکھتے رہتے ہیں ۔ سماج کی تشکیل ، بناوٹ اور ساخت جیسے خشک موضوعات کو سہل انداز میں بیان کرنا ان کا خاصہ ہے ۔ آئی بی سی اردو انہیں اپنے صفحات پر خوش آمدید کہتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے