غریب ایدھی کی کارناموں سے بھرپور زندگی ، مکمل کہانی

پاکستان کی فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ان کی عمر 88 برس تھی اور وہ سنہ 2013 سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی میں ان کا علاج ہو رہا تھا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے عبدالستار ایدھی کے انتقال پر ملک بھر میں ایک دن جبکہ حکومتِ سندھ نے تین دن کا سوگ منانے کا اعلان کیا ہے اور اس موقع پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔حکومتِ پاکستان کے مطابق ایدھی کا جنازہ سرکاری سطح پر منعقد کیا جائے گا اور انھیں بعد از مرگ نشانِ امتیاز دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

ایس آئی یو ٹی کے ڈاکٹر مرلی دھرن نے کے مطابق عبدالستار ایدھی کا انتقال جمعے کی شب گیارہ بجے ہوا اور اس وقت ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اور دیگر اہلِ خانہ وہیں موجود تھے۔

عبدالستار ایدھی کی نماز جنازہ سنیچر کو نمازِ ظہر کے بعد کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں ادا کی جائے گی۔ ان کے انتقال کے بعد ہسپتال کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ ان کی نماز جنازہ سنیچر کو نمازِ ظہر کے بعد میمن مسجد میں ادا کی جائے گی تاہم بعد میں عوامی شرکت کی وجہ سے نمازِ جنازہ کا مقام تبدیل کر کے نیشنل سٹیڈیم کراچی کر دیا گیا ہے۔

عبدالستار ایدھی کو ایدھی قبرستان میں سپردِ خاک کیا جائے گا۔ فیصل ایدھی نے بتایا کہ عبدالستار ایدھی نے 25 سال قبل ایدھی ویلج میں اپنی قبر تیار کی تھی اور وہیں ان کی تدفین ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عبدالستار ایدھی کی وصیت کے مطابق ان کی آنکھیں عطیہ کر دی گئی ہیں۔ عبدالستار ایدھی کو جمعے کی صبح ڈائلیسز کے دوران سانس اکھڑنے پر وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔

عبدالستار ایدھی نے 1951 میں کراچی میں ایک ڈسپینسری سے سماجی خدمت کا آغاز کیا تھا۔

جمعے کی دوپہر بلقیس ایدھی اور فیصل ایدھی نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں عبدالستار ایدھی کی حالت بگڑنے کی تصدیق کی تھی اور عوام سے ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی اپیل بھی کی تھی۔ اس موقع پر فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ اُن کے والد کے گردے ناکارہ ہوگئے ہیں اور عمر زیادہ ہونے کے سبب گردے تبدیل بھی نہیں کیے جا سکتے۔

عبدالستار ایدھی نے 1951 میں کراچی میں ایک ڈسپینسری سے سماجی خدمت کا آغاز کیا تھا اور اب چاروں صوبوں میں ان کی ایمبولینس سروس، لاوارث بچوں اور بزرگ افراد کے لیے مراکز اور منشیات کے عادی لوگوں کی بحالی کے مراکز قائم ہیں۔

[pullquote]دو فقیر مل گئے تو خدا نے بادشاہ بنا دیا‘
[/pullquote]

تحریر : ریاض سہیل ، بی بی سی اردو کراچی

ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کی بیگم بلقیس ایدھی کو ان سے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ وہ گھر کو وقت نہیں دیتے تھے۔
دو سال قبل جب تھر میں قحط سالی کی وجہ سے مور مرنے لگے تھے تو ایدھی ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ ننگرپارکر پہنچ گئے تھے اور تب بلقیس ایدھی نے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ ’ کمزوری کی وجہ سے اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے لیکن موروں کو بچانے چل دیے۔‘

ایدھی اپنی کامیابی میں ایک بڑا حصے دار اپنی بیوی بلقیس ایدھی کو بھی قرار دیتے تھے۔ جب انھوں نے نومولود بچوں کے لیے ایدھی سینٹرز میں جھولے لگائے تو ان بچوں کی ذمہ داری ان کی بیگم نے ہی سنبھالی تھی۔ بلقیس ایدھی کا کہنا تھا کہ سڑکوں اور گندگی کے ڈھیروں سے بچے مردہ حالت میں ملتے تھے۔

’ایدھی نے کہا کہ ہم جھولے لگاتے ہیں تاکہ لوگ ان بچوں کو یہاں چھوڑ کر جائیں ماریں نہ۔ [pullquote]مولویوں نے شور کرنا شروع کر دیا کہ ہم ناجائز تعلقات اور بچوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، انھوں نے کئی فتوے وغیرہ بھی جاری کیے لیکن انھوں نے کبھی پرواہ نہیں کی۔‘
[/pullquote]

شہر کے پرانے علاقے میٹھادر میں ایدھی کی رہائش گاہ کے ایک حصے میں ڈسپینسری، دوسرے میں زچہ خانہ، جبکہ عقبی حصے میں ایدھی کا دفتر اور بالائی منزل پر ایک بڑا کمرہ لاوارث بچوں کے سونے کے لیے مختص تھا جبکہ ایک کمرے میں ان کے لیے سکول موجود تھا، ان سب معاملات کی نگران بلقیس ایدھی ہیں۔

جب ایدھی نے نومولود بچوں کے لیے ایدھی سینٹرز میں جھولے لگائے تو ان بچوں کی ذمہ داری بلقیس ایدھی نے ہی سنبھالی تھی۔
بلقیس ایدھی بتاتی ہیں کہ ایدھی کی شادی ان کی ہم عمر خاتون سے طے ہوئی تھی، وہ بھی ان کے ساتھ کام کرتی تھیں لیکن عین وقت پر انھوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ’تو فقیر ہے میں تیرے سے شادی نہیں کروں گی۔‘

[pullquote]بلقیس کے مطابق اس کے بعد انھوں نے ایدھی کا رشتہ مانگا ’اس طرح دو فقیر مل گئے تو خدا نے بادشاہ بنا دیا۔‘
[/pullquote]

بلقیس ایدھی کے مطابق ایدھی جب ناراض ہوتے تو کھانا نہیں کھاتے تھے اور بڑے ضدی تھے وہ بڑی مشکل سے انھیں مناتی تھیں۔ ’والدہ نے نصیحت کی تھی کہ یا تو کسی کے بن جاؤ یا کسی تو کو اپنالو۔یہ بننے والا بندہ تو تھا نہیں ، اس لیے میں نے ہی اپنا لیا اور اس کی تین باتوں معاف کرو، درگذر کرو اور اللہ پر بھروسہ کرو نے جوڑے رکھا۔‘

بلقیس ایدھی کے مطابق اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے ایدھی گھر کو بہت کم وقت دیتے تھے، ’ایک مرتبہ وہ اندرون سندھ لاش چھوڑنے گئے ہم بھی ایمبولینس میں سوار ہوگئے لاش چھوڑنے کے بعد ایک جگہ رکے جہاں نہر تھی وہاں لوگوں نے کھانا کھلایا اور ہم نے پکنک منائی۔‘

پاکستان میں زلزلے، سیلابوں اور بم دھماکوں میں ایدھی فاؤنڈیشن متاثرین کی مدد میں آگے آگے رہی ہے۔ بلقیس ایدھی کے مطابق ’جب بھی ایمرجنسی ہوتی تو جیسے یہ 20 سال کے ہوجاتے۔ اتنی توانائی آجاتی تھی ان میں۔‘

بلقیس ایدھی کے مطابق اگر کوئی ملازم غلط کام کرتا یا بے ایمانی کرتا ہوا پکڑا جاتا تو ایدھی اسے معاف کردیتے لیکن پولیس کے حوالے نہیں کرتے تھے۔

میٹھادر میں ایدھی کے دفتر میں موجود بڑی میز پر شیشے کے نیچے ایک ہزار، پانچ سو اور سو کے کئی نوٹ موجود تھے۔ ایدھی صاحب سے ایک ملاقات کے دوران وجہ جاننی چاہی تو انھوں نے بتایا تھا کہ یہ جعلی نوٹ ہیں۔اس سوال پر کہ کیا لوگ آپ کو جعلی نوٹ دیتے ہیں ایدھی کا کہنا تھا کہ نہیں ملازم ان نوٹوں کو تبدیل کر لیتے ہیں۔

کراچی میں جب ایک دہائی قبل سیاسی اور انتظامی معاملات تبدیل ہوئے تو ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوئیں۔

[pullquote]بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ فطرہ اور زکوٰۃ لینے نہیں جاتے کیونکہ انھیں روکا جائے گا یا پھر مارا جائے گا۔
[/pullquote]

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور انھیں انسایت کے ناتے امن پسند رہنا پسند ہے اور ’ کوئی نہ کوئی اچھا وقت آئےگا لوگ ہمیں بلا کر خود دیں گے۔‘[pullquote] کراچی کی ایم اے جناح روڈ سے روزانہ ایدھی کی ایمبولینس گزرتی ہیں جس میں کسی نہ کسی شخص کا قریبی رشتے دار زخمی، بیمار یا مردہ حالت میں ہوتا ہے۔ گذشتہ شب ایمبولینسوں کے قافلے میں اس بزرگ کی لاش سرد خانے منتقل کی جا رہی تھی، جو چند لوگوں کا نہیں پورے شہر کا قریبی رشتے دار تھا۔[/pullquote] یقیناً یہ احساسِ یتیمی صرف فیصل کے لیے نہیں بلکہ کراچی شہر کی دو کروڑ آبادی بھی یتیم ہوگئی ہے۔

[pullquote]’نوبیل انعام کا ایدھی سے زیادہ حقدار کوئی نہیں‘ملالہ یوسفزئی
[/pullquote]

امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں پوری دنیا میں اس انعام کا عبدالستار ایدھی سے زیادہ حقدار کوئی نہیں ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی کے انتقال کے بعد بی بی سی اردو کے عادل شاہ زیب سے بات کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ وہ ایدھی صاحب کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کر چکی ہیں۔ انھوں نے کہا ’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایدھی صاحب نے جو خدمات سرانجام دی ہیں اس کے لیے امن کا نوبیل انعام بہت کم ہے۔‘ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ انھوں نے انسانیت کی خدمت کی اور اپنی ساری عمر اس میں سرف کر دی۔ ’ایدھی صاحب نے ایک تاریخ چھوڑی ہے کہ انسانیت کی خدمت کرنی چاہیے اور یہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر ہم ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو ان کے راستے پر چلیں۔‘ ملالہ کا مزید کہنا تھا کہ حالات کے پیش نظر ان کی ملاقات ایدھی سے نہیں ہو سکی تاہم کئی بار فون پر بات ضرور ہوئی تھی۔ ’بہت عزت اور فخر کی بات ہے کہ مجھے ان سے بات کرنے کا موقع ملا۔‘

[pullquote]’مانگتا ہوں اسی سے جو دیتا ہے خوشی سے‘
[/pullquote]

ظفر سید، حمیرا کنول
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

کان پھاڑ دینے والا دھماکہ۔ دھواں، گرد، ہوا میں اڑتا ملبہ، انسانی اعضا۔ تھوڑی دیر کے لیے خاموشی اور چند منٹ بعد سائرن بجاتی، تیزی سے موڑ مڑتی، سفید کیری سوزوکی گاڑیاں جائے وقوع پر پہنچتی ہیں، جیسے کہ وہ اگلی گلی میں اسی واردات کا انتظار کر رہی تھیں۔
تربیت یافتہ عملہ پھرتی سے اتر کر زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو اس مہارت سے سٹریچروں پر ڈال کر ایمبولینسوں میں منتقل کرتا ہے جیسے وہ سالہاسال سے سے بس یہی کام کرتا چلا آیا ہو۔

یہ دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس ایدھی فاؤنڈیشن کا عملہ ہے اور اس کا ہزاروں افراد پر مشتمل عملہ واقعی کئی عشروں سے یہی کام کر رہا ہے۔ چاہے دہشت گرد حملے ہوں، ٹریفک حادثات ہوں یا پھر قدرتی آفات، یہ ہر جگہ ہر وقت عام طور پر سرکاری اداروں سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔1957 میں ایک پک اپ سے شروع ہونے والی امدادی سروس اب دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بن چکی ہے۔ ایدھی انفارمیشن بیورو کے مطابق اس وقت ملک بھر میں ان کے امدادی مراکز کی تعداد 335 ہے۔ سیلاب اور سمندری حادثات کے موقعے پر امداد فراہم کرنے کے لیے 28 کشتیاں اور عملہ اس کے علاوہ ہے۔ اس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن ایئر ایمبولینس کی خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ ملک کے بڑے شہروں میں کل 17 ایدھی ہومز ہیں، جن کے علاوہ ایدھی شیلٹرز، ایدھی ویلج، ایدھی چائلڈ ہوم، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم، ایدھی اینیمل ہاسٹل، ایدھی فری لیبارٹری، ایدھی فری لنگر بھی کام کر رہے ہیں۔

اتنے بڑا امدادی نظام کا تانا بانا چلانے والے عبدالستار ایدھی کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی۔ ان کے پاس ملیشیا کے سستے ترین کپڑے کے صرف دو جوڑے کپڑے تھے، ایک میلا ہو جاتا تو وہ دوسرا پہن لیتے۔ وہ کہتے تھے کہ ’میں نے اصول بنایا کہ زندگی بھر سادگی رکھوں گا اور کپڑے ایک قسم کے پہنوں گا۔‘

وہ اپنی اہلیہ بلقیس ایدھی کے ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن کے دفتر سے متصل دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے، جس میں کسی قسم کی پرتعیش اشیا کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ایدھی گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے، لیکن انھوں نے نہ تو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی پیشکش قبول کی اور نہ ہی کبھی بھی کسی دورِ حکومت میں ملک کے سربراہ کی جانب سے کوئی فنڈ قبول کیا۔

جون 2016 میں ایدھی کی طبیعت جب بہت زیادہ خراب ہوئی تو سابق صدر آصف علی زرداری نے انھیں بیرون ملک علاج کروانے کی پیشکش کی جو انھوں نے مسترد کر دی اور کہا کہ میں پاکستانی ہسپتالوں ہی میں علاج کراؤں گا۔ ایدھی 1928 میں بھارتی ریاست گجرات کے علاقے جوناگڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 11 سال کے تھے کہ ان کی والدہ کو فالج ہو گیا جس سے ان کا دماغ بھی متاثر ہوا۔ کمسن ایدھی نے اپنے آپ کو والدہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ ان کو نہلانا، کپڑے بدلوانا، کھانا پلانا، یہ ایدھی نے اپنے ذمے لے لیا، جس نے آگے چل کر انھیں فلاحی کاموں کی جانب راغب کیا۔

ایدھی نے رسمی تعلیم تو ہائی سکول تک بھی حاصل نہیں کی، تاہم وہ کہتے تھے کہ ’دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ رہے۔‘ والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے لوگوں کی مدد کے لیے رابطے کا ذریعہ بنانے کے بارے میں سوچا۔ ان کا خواب تھا کہ ضرورت مندوں کے لیے فلاحی مراکز اور ہسپتال قائم کیے جائیں۔ یہ کام بہت بڑا تھا اور ایدھی کی عمر کم اور وسائل ناپید۔ لیکن ایدھی کو یہ کرنا تھا، چاہے اس کے لیے لوگوں سے بھیک تک کیوں نہ مانگنا پڑتی۔

جب پاکستان بنا تو وہ چھٹے دن ہی یہاں آ گئے۔ اول اول انھوں نے ٹھیلے اور پھیری لگا کر کام شروع کیا پھر کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں کپڑوں کے ایجنٹ بن گئے۔

چند سال بعد انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا اور 20 سال کی عمر میں اپنی میمن برادری کے افراد کی مدد سے مفت طبی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک ڈسپنسری قائم کی۔ یہی سوچ انھیں ایدھی ٹرسٹ قیام کی جانب لے گئی۔ ان کے ایک دوست حاجی غنی عثمان صاحب نے اس کام میں ان کی مدد کی۔ ان سے ملنے والے پیسوں سے انھوں نے دو ہزار کی ایک گاڑی لی، ایک ڈسپنسری بنائی، اور ایک خیمے کے اندر چار بستروں کا ہسپتال قائم کیا۔ ایدھی نے ڈرائیونگ سیکھ کر اس گاڑی کو ایمبولینس بنا دیا۔ وہ کہتے ہیں: ’میں نے زندگی میں کبھی کوئی اور گاڑی نہیں چلائی، 48 سال تک صرف ایمبولینس چلائی۔‘

سنہ 1965 میں عبدالستار ایدھی نے بلقیس ایدھی سے شادی کی جو ان کی ڈسپینسری میں بطور نرس کام کر رہی تھیں۔ ان کی دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ بیٹے فیصل ایدھی اور بیٹی کبری ایدھی اب یہ ٹرسٹ اپنی والدہ کے ساتھ مل کر چلا رہے ہیں۔ بلقیس ایدھی کے مطابق ’ایدھی صاحب کی جیب میں پیسے نہیں تھے اور خواب بڑے بڑے دیکھتے تھے اور لوگ ان کو شیخ چلی کہا کرتے تھے۔‘

وہ رات کو شادیوں پر جا کر برتن دھوتے تھے، دودھ بیچتے تھے، اخبار فروخت کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے یہ کہہ کر اپنی خدمات سب کے لیے وقف کر دیں کہ ’میمن کا کام نہ کرو، تمام انسانیت کا کام کرو۔‘

ایدھی اپنی ایمبولینس میں دن بھر شہر کا چکر لگاتے رہتے اور جب بھی کسی ضرورت مند یا زخمی شخص کو دیکھتے، اسے فوراً امدادی مرکز لے جاتے۔
ایدھی کے مطابق پہلی عوامی اپیل پر دو لاکھ چندہ اکٹھا ہوا۔ وہ کہتے تھے کہ ’یہ میری نیت نہیں تھی کہ میں کسی کے پاس جا کر مانگوں، بلکہ میں چاہتا تھا کہ قوم کو دینے والا بناؤں، پھر میں نے فٹ پاتھوں پر کھڑا رہ کر بھیک مانگی، تھوڑی ملی، لیکن ٹھیک ملی۔‘جلد ہی لوگ بقول شاعر لوگ آتے گئے اور کارواں\ن بنتا گیا۔

اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’میں نے کبھی کسی کی نہیں سنی، ہمیشہ اکیلا رہا۔ اب بچے اور بیوی ہیں، ورنہ پہلے کوئی نہیں تھا، سرمایہ دار، مذہبی طبقے نے اور سرمایہ دار نے سب نے میرا بائیکاٹ کیا۔‘

[pullquote]’مارو نہیں، جھولے میں ڈال دو‘
[/pullquote]

ایدھی کہا کرتے تھے کہ پیدا ہونے والے بچے کو ناجائز مت کہو۔ ’جو بچہ پیدا ہوا وہ آپ کا جائز بچہ ہے، ٹھیک ہے، مولوی مجھے بےدین کہتے ہیں، کہنے دو۔‘ ہر ایدھی سینٹر کے باہر ایک جھولا موجود ہوتا ہے۔ ایدھی صاحب اپنے پیغام میں کہا کرتے تھے: ’مارو نہیں، جھولے میں ڈال دو، میں کچھ نہیں کہوں گا۔ اپنے بچے کو کبھی بھی کوڑے میں مت پھینکو، قتل کرنا بند کرو، بچے کو ایدھی کے جھولے میں ڈال دو۔‘
اپنی دن بھر کی مصروفیات کے باوجود ایدھی ہوم میں پرورش پانے والے یتیم بچوں کے لیے عبدالستار ایدھی کچھ وقت ضرور نکالتے تھے۔ بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور کھیل ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس ایدھی ہوم میں وہ ان بچوں کے نانا کہلاتے تھے۔

ایدھی کو 20 سے زائد قومی و بین الاقوامی اعزازات ملے۔ انھیں پاکستان میں نشانِ امتیاز، لینن امن ایوارڈ اور پاکستان ہیومن رائٹس کی جانب سے ایوارڈ سمیت متعدد نجی اداروں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں اور اعزازات سے نواز گیا۔

[pullquote]اس کے علاوہ گنیز ورلڈ ریکارڈز میں ان کا نام دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلانے کے باعث شامل ہے۔
[/pullquote]

نوبیل امن ایوارڈ کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے ہمیشہ کہا کہ ’نوبیل انعام ملے تو ٹھیک ہے نہ ملے تو بھی ٹھیک ہے۔ اس قوم کے لوگوں نے مجھے اتنا کچھ دیا ہے کہ مجھے نوبیل انعام کی ضرورت نہیں ہے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے