انھیں بس ایک اور ایدھی چاہیے…

[pullquote]موساد کا شمار دنیا کی صف اول کی خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ موساد کی شہرت کا دارومدار اس کی سفاکیت اور بے رحمی پر کم اور اپنے ایجنٹس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعلی معیار قائم رکھنے پر زیادہ ہے۔ کچھ سال ہوئے مجھے ایک کتا ب میں آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں اس ایجنسی کے بھرتی (recruitment) کے عمل کو کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا گیا تھا ۔ مضمون نگار موساد کا ایجنٹ تھا اور اس نے سلیکشن کے مختلف مراحل سے گزرنے کی روداد بڑے دلچسپ انداز میں لکھی تھی۔ سینکڑوں علمی،عملی اوراعصابی امتحانوں کی چھلنی سے گزارنے کے باوجود بھی امیدوار کو کسی ایک ڈرل میں مطلوبہ نتائج نہ دینے کی صورت میں مسترد(reject) کر دیا جاتا ہے ۔ اس ایجنٹ کو جن مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ان میں ایک اعصاب شکن آزمائش سیوریج کے انڈرگراؤنڈ جنکشن میں مسلسل کئی گھنٹے گزارنا تھا۔ دراصل شروع میں پر کئے گئے ذاتی سوال ناموں میں ایک جگہ پوچھا گیا تھا کہ امیدوار کو کراہت (disgust) اور الجھن سب سے زیادہ کس ماحول میں ہوتی ہے ، جواب میں اس نے سیورج کے تعفن اور باس والی جگہوں پر وقت گزارنے کو اپنے لئے مشکل قرار دیا تھا۔ اس کو وہاں اسی لئے بھیجا گیا تھا تاکہ اس کے ضبط اور صبر کی آخری حد کا اندازہ لگایا جا سکے۔اس ایجنٹ کے بقول وہاں گزارے وقت نے اس کے اعصاب ایسے شل کئے کہ وہ بمشکل اپنے حواس قائم رکھ سکا اور شاید یہ وہ واحد آزمائش تھی جس میں اس نے اپنے آپ کو بے بس پایا۔ یعنی کراہت (disgust)کے اس کیفیت کے اگے سپر صرف ہم جیسے کمزور اعصاب کے لوگ ہی نہیں ڈالتے بلکہ انتہائی برداشت کے حامل غیر معمولی افراد بھی اس کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں۔[/pullquote]

ہم سب اپنے اردگرد کی بہت سی اشیاء کے بارے میں کراہت (disgust) رکھتے ہیں۔انسان اور جانوروں کے فضلات، سڑی ہوئی کھانے کی چیزیں اورگندا پانی، خون اور اس اسے آلودہ اشیاء ، خاص طور پر مردہ اجسام کے بارے میں سب ہی اس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ کراہت (disgust) ہمیں بہت سی مضر بیماریوں اور مصیبتوں سے بچاتا ہے اور ہم میں نفاست کی (sense) پیدا کرتا ہے۔لیکن جب کراہت کی اس جبلت کا معاشرے کے افراد کی طرف رخ ہو جائے تو یہ کسی بھی سوشل فیبرککا بیڑہ غرق کر دیتی ہے۔

ہمارے ہاں کراہت (disgust) غلاظتوں سے کم اور اپنی نسل، مذہب، فرقہ اور جماعت سے تعلق نہ رکھنے والوں سے زیادہ برتی جاتی ہے۔ہر اوپر والا اپنے سے کمتر افراد سے دور بھاگتا ہے۔کمتر پیشوں سے وابستہ افراد سے بے اعتنائی برتناہمارا معمول ہے ۔معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا کم ہی کوئی والی وارث بننا پسند کرتا ہے۔یہاں اپنے پیاروں کو غسل دینے کے لئے بھی لوگو ں کو باہر سے بلانا پڑتا ہے۔یتیموں ، مسکینوں اور بے گھر عورتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے۔یہ سب ہماری بے حسی کا تماشا دیکھنے کے لئے زندہ رہتے ہیں۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ تعصبات اور کراہتوں(disgusts) کا شکار ہمارے سماج میں اس کا کیا قصور ہے جو کسی خاص فرقہ یا طبقہ میں پیدا ہوگیا؟ اس نوزائیدہ کا کیا قصور ہے جو مکروہ ترین گناہ کے نتیجہ میں وجود میں آگیا؟ اس لاش کا کیا قصور ہے جس سے آنے والے تعفن کی وجہ سے لوگ اسے ہاتھ لگانے سے دور ہے ؟اس یتیم کا کیا قصور ہے جس کو اپنانے کو کوئی تیا ر نہیں ہے؟

ہماری نظر میں تو شاید بیچارگی اور ہم جیسا نہ ہونا ہی ان کے کوڑھی پن کا سرٹیفکیٹ ہے لیکن ہمارے رب کی نظر میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا تبھی اس نے عبدالستار ایدھی جیسا نادار الوجود شخص کو ہم میں پچھلے ستر سال زندہ رکھا تاکہ وہ ان کراہتوں (disgusts) کا سہارا بنے جن سے دور رہنے سے ہی ہمارے اعصاب بحال رہتے ہیں۔جدھر بڑے بڑوں کے ہمت جواب دے جاتی تھی وہاں ایدھی گیا اور بلاتفریق رنگ نسل اور مذہب کام کیا اور اس قدر خلوص ، ایمانداری اور بے لوثی سے کیاکہ آج ان کی عزت اور شہرت کسی میڈیا پروجیکشن کی محتاج نہیں ہے۔

[pullquote]اب ایدھی صاحب کے مرنے کے بعد لوگ ان کے قصیدے لکھ رہے ہیں کہ انھوں نے پندرہ سو ایمبولنسسز پر مشتمل چوبیس گھنٹہ سروس فراہم کرنے والے نیٹ ورک بنایا،مردہ خانوں اور ایدھی ہومز کا جال بچھایا اور دنیا کے لئے رول ماڈل خیراتی نیٹ ورک بغیر کسی حکومتی اور غیر ملکی امداد کے بغیر بنایا، سینکڑوں امن ایوارڈ پوری دنیا سے اپنے نام کرا کے پاکستان کا نام روشن کیا، لیکن میری نظر میں یہکارنامے، اخبار کی شہ سرخیوں اور نیوز رپورٹس میں تو خوشنما اور (appealing) لگتے ہیں لیکن ایدھی صاحب کی اصل میراث (legacy) ریکارڈ بکس کی زینت بننا نہیں بلکہ پسے ہوئے اور ٹھکرائے طبقات کا سہارا بننا تھی۔ان اعدادوشمار کو پیچھے چھوڑنا کسی حکومت یا ارب کھرب پتی مخیر شخص کے لئے ذرا مشکل کام نہیں ہے لیکن انسا نی حسیات (sensations) سے بلند ہو کر سوسائٹی کی کراہتوں کو گلے لگانا وہ ناممکن تھا جسے ایدھی صاحب نے سات دہائیوں تک ممکن بنائے رکھا۔ایدھی کا اصل کارنامہ ان لوگوں کو سینہ سے لگانا تھا جن کے پاس سے گزرتے ہم اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔ غرض ہماری غلاظتوں اور تعفن کو سمیٹے رکھنے کا جو احسان ایدھی نے ہم پر کیا وہ شاید ہم کبھی نہ اتار سکیں۔[/pullquote]

ہماری طرف سے جو ٹریبوٹ (tribute) تھوڑا بہت پیش کیا گیا وہ ان کا سرکاری ا عزاز کے ساتھ جنازہ (state funeral) ، مین سٹریم ،سوشل میڈیا پر ان کو خراج تحسین پیش کرنے اور نامور شا ہراوں کو ان سے منسوب کرنے کا سلسلہ تھا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے ٹریبوٹ، خدمات کے اعترا فات اور عالمی امن ایوارڈ ان ٹھکرائے ہوئے پاکستانیوں کے لئے کچھ اہمیت رکھتے ہیں جن کا اصل میں ایدھی ہیرو تھا۔انھیں تو بس ایک اور ایدھی چاہیے جو اپنی نگاہوں کو ٹیڑھا اور ناک پر ہاتھ رکھے بغیران کی مدد کو آسکے، جو رنگ نسل ،مذہب اور فرقہ کی عینک لگائے بغیر ان کے دکھوں کا مداوا کر سکے،جو لینڈکروزر میں بیٹھے بغیر فلاحی کاموں کر سکے،جو سرکاری اور غیر سرکاری ڈونیشنز کی دلدل میں گھسے بغیر اتنا بڑا خیراتی نیٹ ورک بنا سکے اور جو دھتکارے ہوئے انسانوں کے لئے اپنی زندگی تیاگ کر سکے اور جو ان کے وجود سے کراہت(disgust)اور نفرت نہ محسوس کرے ۔انھیں تو ٹریبوٹ نہیں بس ایک ایدھی اور چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے