ایدھی کام کرتا تھا…

اعتراف کرنے دیں، میرا ہیرو کوئی سیاستدان نہیں، کوئی ملا، دانشور، ادیب، کھلاڑی اور فنکار بھی نہیں، میرا ہیرو عبدالستار ایدھی ہے، وہی عبدالستار ایدھی جو پاکستانی حقیقی چہرہ ہے، انسانی خدمت کا پیکر، مذھب، مسلک، رنگ و نسل اور ذات، پات سے کہیں بلند، جس کا سب کچھ خلق خدا کی خدمت تھا، انسانیت کا علمبردار، وہی انسانیت جو ہر مذھب کی بنیاد ہے

ایدھی صاحب ہیرو کیوں، یہ کوئی جذباتی بیان نہیں، پاکستان کو تو چھوڑیں پوری دنیا میں کوئی ایسی مثال دکھا دیں، ایک تنہا شخص نے بغیر کسی سرکاری اور بیرونی امداد کے انسانی خدمت کی اتنی بڑی سلطنت کھڑی کی ہو، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ان ستر سالوں میں کتنے مریضوں کا علاج ہوا، کتنی لاوارث لاشوں کی تدفین کی گئی، کتنے بے نام نومولود بچوں کو موت سے بچایا گیا، اولاد کے دھتکارے ہوئے کتنے ضعیف والدین کو پناہ دی، ایمبولنس سروس سے کتنی جانیں بچائی گئیں، کتنے یتیم اور لاوارث بچوں کو معاشرے کا حصہ بنایا گیا، کتنی شادیاں کروائی گیئں اور مستحقین کو امداد دی گئی، یہ تو چھوڑئیے کتنے زخمی جانوروں کا علاج کیا گیا، معذرت کیساتھ شاید یہ ایدھی صاحب ہوتے تو خود بھی نہیں بتا سکتے تھے، یہ صرف اللہ رب العزت ہی جانتا ہے

آج حکومت سمیت ہر شعبہ زندگی ایدھی صاحب کی خدمات و شخصیت کی ستائش کر رہا ہے، حکومت نے قومی سوگ کا اعلان کیا، نشان امتیاز سے نوازا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اس عظیم شخصیت کو وہ اہمیت نہ دے سکے جو تقاضہ تھا، حکومت کی جانب سے انکو نوبل انعام کیلئے نامزد بھی کیا گیا مگر کوئی لابی نہیں کی گئی، سفارتی اور سماجی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، آج کا دور مارکیٹنگ کا ہے، ایدھی جیسا درویش صفت شخص یقینی طور پر ان چیزوں سے بہت دور تھا، مگر یہ ہماری حکومتوں اور پورے معاشرے کی ذمہ داری تھی، انسانیت کی خدمت میں مدر ٹریسا کی خدمات یقینی طور پر بے مثال ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت نے ہر سطح پر مدر ٹریسا کی پروموشن کی، انکا Larger than Life امیج بنایا گیا، انسانی خدمات کے حوالے سے ایدھی صاحب کا مشن مدر ٹریسا سے کئی گنا وسیع ہونیکے باوجود ہم ایدھی صاحب کا امیج ایسا کیوں نہیں بنا سکے

عبدالستار ایدھی 1928 میں گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے، ہجرت کے بعد پاکستان آئے، پچاس کی دہائی میں کراچی کے علاقے میٹھا در سے صرف پانچ ہزار روپے سے انسانی خدمت کا مشن شروع کیا، آج دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس، فضائی ایمبولینس سروس، کلینکس، اسپتال، ضعیف اور معذور افراد کیلئے رہائش گاہیں، یتیم اور لاوارث بچوں کیلئے پناہ گاہیں، جگہ جگہ رکھے بے نام نومولود بچوں کیلئے جھولے، اسکول، ادارے اور نجانے کیا کیا کچھ ایدھی فائونڈیشن کا حصہ ہیں، ایدھی فائونڈیشن بنگلہ دیش، سری لنکا، متحدہ عرب امارات، یمن، روس، جاپان، آسٹریلیا، برطانیہ، امریکہ سمیت متعدد ممالک میں متحرک ہے، پاکستان میں قدرتی آفات، سانحوں اور بڑے حادثات میں اس ادارے کی خدمات بلاشبہ بے مثال ہیں بلکہ بڑے عالمی سانحوں میں بھی ایدھی فائونڈیشن نمایاں نظر آتی ہے، نجانے کتنے عالمی اعزازات، ڈگریاں یہ سب کچھ ایدھی صاحب کی شخصیت کے سامنے ہیچ نظر آتا ہے، یہ سفر آسان نہ تھا، بلقیس ایدھی ان کی ہمسفر اور اب انکے فرزند فیصل ایدھی اس مشن کو آگے بڑھانے کیلئے نہایت پرعزم اور اٹل ہیں

مطفر آباد کا زلزلہ ہو یا پھر سیلاب، دہشتگردی ہو یا بم دہماکہ، حادثات ہو یا مجبوروں کی امداد، کوئی وبا پھیلے یا کہیں قحط ہو، ہر جگہ ایدھی فائونڈیشن نظر آتی ہے، لوگوں کے اعتماد کا یہ عالم کہ ابھی کچھ سال پہلے تک ایدھی صاحب کسی بھی شہر میں، کسی بھی چوک پر رومال بچھا کر چند گھنٹوں بیٹھتے اور لاکھوں روپے لوگ انکی جھولی میں ڈال دیتے، کبھی عید، بقر عید کے موقعے پر ایدھی صاحب بڑی وین میں یتیم بچوں کیساتھ شہر کی سیر کرتے نظر آتے تو لوگ گاڑیاں روک کر راستہ دیتے، جھک کر سلام کرتے، نہ پروٹوکول نہ کوئی محافظ، خوف اور محبت میں یہی فرق ہوتا ہے، ایدھی صاحب محبتوں کے سوداگر تھے

ایدھی صاحب سے میری صرف ایک باقاعدہ ملاقات تھی شاید گھنٹہ، سوا گھنٹہ ساتھ گزارا، وہی ملیشیا کا شلوار کرتا، پرانی چپل، سفید داڑھی، ملاقات کے دوران لوگ آتے جاتے رہے، ایدھی صاحب ہدایات بھی دیتے رہے، ایک آدھ کو ڈانٹ بھی پلائی، ایک بہت عام سا آدمی، سیدھی سادھی گجراتی نما اردو میں گفتگو، میں ملاقات کے دوران بھی سوچتا رہا کہ اس درویش صفت، فقیر منش شخص نے یہ عظیم کارنامہ کیسے انجام دیا، پوچھا بھی تو بس ایک مسکراہٹ، سب اللہ کی مہربانی، اعضا چوری کے الزامات بھی لگائے گئے، ڈرتے ڈرتے یہ سوال بھی پوچھا تو جواب ملا بھائی ہم اپنا کام کرتے ہیں، انہیں اپنا کام کرنے دیں، رخصت کے وقت اپنی کتاب بھی عنایت کی، چلتے چلتے میں نے پوچھا، ایدھی صاحب یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں، دھیمی مسکراہٹ کیساتھ ہاتھ دل پر رکھا اور کہا، مجا آتا ہے، بہت مجا، یہی میری جندگی ہے، انکی دلاویز مسکراہٹ اور مطمئن لہجہ آج بھی ذھن کو مہکاتا ہے

پہلی ملاقات بھی یاد ہے، اٹھارہ، بیس سال پہلے ہم چند دوست پریس کلب میں بیٹھے چائے پی رہے تھے، بوری بند لاشوں کا سلسلہ جاری تھا، اطلاع موصول ہوئی کہ لائنز ایریا میں چار لاشیں ملی ہیں، جائے وقوع قریب تھا رپورٹنگ کیلئے پہنچے، لائنز ایریا اسکول کے باتھ رومز میں ہاتھ پیر بندھی لاشیں تین سے چار روز پرانی تھی، یقین کریں اتنا تعفن اتنا تھا کہ تمام صحافی کم از کم بیس، پچیس فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے، قریب جانے کی ہمت نہیں تھی، تعجب سے دیکھ رہے تھے ایک شخص پھولی ہوئی لاشوں کی آنکھوں پربندھی پٹیاں اور ہاتھ پائوں کھول رہا ہے، جبکہ ہمیں اتنی دور کھڑے ہونے کے باوجود شدید متلی محسوس ہو رہی تھی، جب وہ شخص فارغ ہو کر مڑا تو تو دیکھا یہ ایدھی صاحب تھے، ہاتھ دھو کر ہماری جانب بھی آئے، دوستوں کی طرح کچھ سوالوں کا جواب دیا، ایدھی سینٹر آنے کی دعوت دی اور مسکراتے ہوئے لاشوں کیساتھ اسی ایمبولنس میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے

ایدھی صاحب نے جس سادگی کیساتھ زندگی گزاری، اسی سادگی اور اطمینان کیساتھ رخصت ہوئے، خدا ان کے درجات بلند کرے، مجھے یہ کہنے میں کوئی شک اور باک نہیں کہ عبدالستار ایدھی پاکستان کی سب سے بڑی شخصیت تھے، سب سے زیادہ قد آور اور ممتاز شخصیت، اگر یقین نہیں آتا تو کسی پانچ سالہ بچے سے پوچھ کر دیکھیں ایدھی کون ہے، کامیابی دولت اور شہرت نہیں ہوتی، عزت اور محبت ہوتی ہے، عبدالستار ایدھی کامیاب ہو گیا

ایدھی صاحب نے زندگی بانٹی، خوشیاں اور محبتیں بانٹیں، ایک ایسا پودا لگایا جو ان کی زندگی میں تناور اور چھایہ دار درخت بن چکا ہے، جس کے پھل سے سب فائدہ اٹھا رہے ہیں، انسان دوستی کے اس صدقہ جاریہ کا سلسلہ نجانے کہاں تک پھیلا ہوا ہے اور کب تک جاری رہیگا، مجھے اس بات کا بھی اطمینان ہے کہ ایدھی صاحب طبعی موت مرے، ایک ایسے شہر میں جہاں حکیم سعید جیسا انسان دوست، پروین رحمان جیسی غریب پرور اور امجد صابری جیسے بے لوث فنکار کی زندگی چھین لی جاتی ہے، وہاں کراچی کی سڑکوں پر گھومتے پھرتے ایدھی صاحب تو نہایت آسان نشانہ تھے، اگر خدانخواستہ ایسا ہو جاتا تو ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل کہاں رہتے

عبدالستار ایدھی کی زندگی سبق ہے ہم سب کیلئے جو صرف باتیں کرتے ہیں، اکبر الہ آبادی اور سرسید احمد خان میں بعد المشرقین تھا، اکبر انگریزی تعلیم کے سب سے بڑے مخالف اور سرسید حامی، ساری زندگی اکبر نے طنزیہ شاعری کا نشانہ بنایا مگر سرسید دنیا سے رخصت ہوئے تو اعتراف کرنا پڑا

ہماری باتیں ہی باتیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو اس کو جو کچھ فرق ہے کہنے میں کرنے میں
یہ دنیا چاہے جو کچھ بھی کہے اکبر یہ کہتا ہے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے