اپنے اپنے حصے کی آگ—

برادرم نذیر لغاری کچھ عرصہ قبل سو سال پرانی بات بتا رہے تھے کہ مولاناتاج محمود امروٹی کے ہاں علم و عرفان سے مزّین ایک مجلس کا اہتمام تھا ۔ حاضرینِ مجلس توجہ سے مولانا کی باتیں سن رہے تھے۔ لیکن ایک شخص انتہائی بے چینی سے عجیب و غریب حرکت کر رہا تھا۔ وہ بار بار اپنے دائیں ہا تھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو اپنے منہ میں ڈالتا ، لعاب سے تر کرتا منہ سے باہر نکالتا اور پھر دوبارہ منہ میں ڈال لیتا ۔ جب محفل برخاست ہوئی تو مولانا نے اس شخص کو اپنے پاس بلایا اور اس سے اس کی اس عجیب و غریب الجھن کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتا یا کہ یہ کو ئی ایک دو روز کی بات نہیں وہ اس اذیت میں پچھلے بیس سال سے مبتلا ہے ۔

مولانا نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ ایک روز میں اپنے گاؤں سے میلو ں دور دوسرے گاؤں میں ایک شخص سے اپنا ایک سو روپے کاقرض وصول کرنے گیا ۔ کئی گھنٹوں کا سفر طے کرنے کے بعد جب میں اس گاؤں کے باہر پہنچا تو مجھے ایک نا بینا سائل نظر آیا جو آنے جانے والوں کے قدموں کی آواز سن کر خیرات کے لیے آواز لگاتا ۔ جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے میرے قدموں کی آہٹ پر بھی خیرات کی صدا لگائی ۔ میں نے اس نابینا سائل سے کہا کہ میں اس گاؤں میں کسی شخص کے پاس اپنی سو روپے کی قرض کی رقم وصول کرنے جا رہا ہوں ۔ دعا کرو اس شخص سے مجھے میری قرض کی رقم مل جائے تو واپس ہوتے ہی میں ایک روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کرد وں گا ۔ میر ی بات سن کر سائل میرے لیے پھر سے دعائیں بلند کرنے لگا اور میں دعاؤں کی صدائیں سنتے سنتے گاؤں کی طرف چل دیا ۔ گاؤں پہنچا تو خلافِ توقع مجھے میرا مقروض گھر پر مل گیا ۔ اُس نے خدمت مدارت کے بعد میری سو روپے قرض کی رقم بھی مجھے لوٹا دی۔

رقم وصول کرنے کے بعد میں اُس شخص کا شکریہ ادا کر کے گاؤں کے باہرُ اسی سائل کے قریب پہنچا تو سائل نے میر ی آہٹ سن کر پھر خیرات کے لیے صدا بلند کر دی ۔میں نے کہا سائل سائیں اللہ کا شکر ہے تمھاری دعاؤں سے مجھے میری ڈوبی ہوئی رقم مل گئی ہے۔بابا سائیں یہ لو ایک روپیہ ۔ میں نے ایک روپیہ سائل کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے مذید دعاؤں کی درخواست بھی کر دی ۔ سائل پھر سے مجھے دعائیں دینے لگا ۔ جب میں اجازت طلب کر کے جانے لگا تو سائل نے التجائیہ انداز میں کہا ” میں نے زندگی بھر کبھی ایک سو روپے نہیں دیکھے ۔میری خواہش ہے کہ میں ایک سو روپے ہاتھو ں سے محسوس کروں کہ یہ کتنی رقم ہوتی ہے۔ ”

میں نے سائل سائیں بابا کی محروم اور معصوم خواہش پر ترس کھاتے ہوئے سو سکوں کی تھیلی اس کے ہاتھوں میں تھما دی ۔ سائل ٹٹول ٹٹول کر سکو ں کو محسوس کرتا اور خوشی سے مسکراتا رہا۔ کچھ دیر بعد میں نے سائل سائیں سے کہا اچھا بابا اب میرے پیسے مجھے واپس دے دو کیونکہ مجھے اپنے گاؤں وقت پر پہنچنا ہے۔ رقم کی واپسی کی بات سنتے ہی سائل نے زور زور سے چلاّنا شروع کر دیا اور کہنے لگا تمھیں شرم نہیں آتی تم مجھ نابینا فقیر سے پیسے چھینتے ہو۔ تمھیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا ۔میں سارا دن لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا پھیلا کے خیرات مانگتا ہوں اور تم مجھ لاچار نابینا فقیر سے بھیک کے پیسے چھیننا چاہتے ہو ۔ سائل فقیر کی چیخ و پکار سنتے ہی راہ گیر اکٹھے ہونا شروع ہو گے ۔اور سب کے سب مجھے ملامت کرنے لگے ۔ سائل فقیر نے صورت حال ہی ایسی بنا دی کہ کوئی میر ی بات سمجھنے تو کجا سننے کو بھی تیا ر نہ تھا۔ نابینا سائل نے وہ آہ و فغاں بلند کی کہ تمام لوگ اسے مظلوم اور حق پر سمجھنے لگے اور مجھے ظالم اور قصوروار ۔ یہاں تک کہ مجھے رقم کے بغیر وہاں سے جانا پڑا ۔ لوگوں نے بھی مجھے کھیتوں کے بیچوں بیچ جاتے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنی اپنی راہ لی ۔

اس صورتحال پر میں حیران بھی تھا اور بے حد پریشان بھی ۔ شام کا دھند لکا ذرا سرمئی ہونے لگاتو میں کھیتوں میں چھپتے چھپاتے آہستہ آہستہ واپس اسی جگہ لوٹ آیا جہاں پر سائل فقیر نے ناحق ہنگامہ برپا کر کے مجھ سے میر ی رقم ہتھیائی تھی ۔ اب کی بار میں اتنی آہستگی سے نا بینا کے قریب پہنچا کہ وہ میر ی آہٹ پر توجہ نہ دے سکا ۔ وہ شام ڈھلتے ہی ایک بڑے درخت کی اوٹ میں بیٹھ گیا اور ہاتھو ں کی مدد سے درخت کے نیچے زمین کھودنے لگا ۔ تھوڑی دیر میں اِس گڑھے سے مٹی کا ایک برتن نکالا دن بھر کی بھیک کی کمائی اور میرے سو روپے کی تھیلی اس میں ڈال کر اِس برتن کو ڈھکن سے ڈھک کے دوبارہ اِسی جگہ چھپا دیا اور لاٹھی ٹیکتا ٹیکتا اپنی جھونپڑی کی طرف چلا گیا ۔ جیسے ہی سائل فقیر جھونپڑی میں داخل ہوا اور شام کا سرمئی رنگ سیاہی میں بدلنے لگا تو میں آگے بڑھا درخت کے نیچے اسی جگہ کو کھود کر نابینا سائل کا برتن نکالا اور اپنی رقم نکالنے کی بجائے پورا برتن ہی لے کر چلتا بنا ۔ گھر آکر رقم گنی تو کل ایک سو اسّی روپے تھی ۔

وہ رات تو گزر گئی لیکن اگلے روز میر ی طبعیت بہت بوجھل ہو گئی۔ میر ی بے قراری میں اضافہ ہوتا گیا ۔ اِسی بے قراری میں بستر پر دراز ہوا تو آنکھ لگ گئی ۔ رات وہی نابینا فقیر خواب میں نظر آیا اور اپنی جمع پونجی کا بار بار تقاضا کرنے لگا ۔ اِسی اثنا ء میں میری آنکھ کھل گئی ۔ مجھے بے حد ڈر لگنے لگا اور میری بے چینی میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ دوبارہ بسترپر دراز ہونے کی بجائے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور بیٹھے بیٹھے جب میر ی آنکھ لگ جاتی تو نا بینا فقیر سائل والا خواب پھر شروع ہو جاتا اور وہ التجائیہ انداز میں اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگتا ۔

رات خدا خدا کر کے کاٹی اور صبح ہوتے ہی میں نابینا فقیر کی رقم واپس کرنے اس کے گاؤں روانہ ہو گیا۔ گاؤں پہنچا تو فقیر کو وہاں نہ پایا۔ میں نے نابینا فقیر کے بارے میں لوگو ں سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ وہ ہائے میر ے پیسے ہائے میر ے پیسے کی دکھ بھری صدائیں بلند کرتے کرتے تڑپ تڑپ کر مر گیا ہے۔ یہ سن کر میں اور ڈر گیا ۔ گاؤں والوں سے اس کی قبر معلوم کی اور رات ہوتے ہی قبر پر جا پہنچا ۔اُسے کھودا اور نابینا فقیر کے اسّی روپے اس کی لاش کے اوپر ڈالے قبر بند کی اور واپس چلا آیا ۔ اِس کے بعد مجھے فقیر سے متعلق خواب آنا بند ہو گئے۔
کئی ماہ بعد میں مالی مشکل میں پھنس گیا ۔ فصل اچھی نہ ہوئی اور جانور بھی مرنے لگے ۔ یہاں تک کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ گھر میں پھوٹی کوڑی بھی نہ رہی تھی ۔ پیسوں کی اشد ضرورت تھی لیکن کہیں سے کوئی آسرا نظر نہیں آتا تھا ۔ ایسے میں ایک بار پھر مجھے اُسی نابینا فقیر کے اسّی روپے یاد آگئے ۔میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ نابینا فقیر کی وہی رقم جو میں اس کی لاش پر پھینک آیا تھا اٹھا لیتا ہوں جب حالات بہتر ہونگے تو پھر اس کی رقم واپس پھینک آؤں گا ۔یوں بھی قبر میں نابینا فقیر کوئی شاپنگ تو کر نہیں رہا ہوگا۔ میں نابینا کے گاؤں آیااور رات کو اُسکی قبر ایک بار پھر کھودی ۔ چاندنی رات تھی ۔ چاند کی چاندنی میں چاندی کے سکے نابینا کی لاش پر چمک رہے تھے ۔میں نے دائیں ہاتھ کی اس انگلی اور انگوٹھے سے اسکے سینے پر پڑا پہلا سکہ اُٹھایا تو یوں لگا جیسے میں نے دوزخ کے دہکتے انگارے کو اُٹھا لیا ہو ۔اُس رات سے آج تک میرے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھا سکے کی تپش سے جھلس رہے ہیں۔اور میں اپنے منہ کے لعاب سے اِس جلن کی شدت کم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔لیکن جلن میں رتی برابر بھی بہتری کبھی محسوس نہیں ہوئی۔

یہاں پر واقعہ تو تمام ہوا لیکن میں سوچ رہا تھاکہ کچھ عرصہ پہلے تک لوگ گھروں میں ماچس وغیرہ نہیں رکھتے تھے بلکہ رگڑ سے آگ بنا کر اِس کے انگارے دیر تک محفوظ کر لیا کرتے ۔لوگ ہمسایوں سے آگ بھی مانگ لیتے تھے ۔ سندھ کے عظیم کردار وتایو کو اسکی ماں نے کہا کہ وتایو جاؤ گاؤں سے آگ لے آؤ۔ وتاؤ آگ کی تلاش میں چلا گیا ۔ کافی دیر بعد واپس آیا تو کہنے لگا ماں جی آگ تو کسی گھر میں بھی نہیں ہے ۔ تھوڑا توقف کیا اور پھر بولا ” ٹھرو ماں میں جہنم سے آگ لے آتا ہوں”۔ کافی دیر بعد دوبارہ خالی ہاتھ واپس آیا اور کہنے لگا "ماں جی آگ تو جہنم میں بھی نہیں ہے ۔ میں نے جہنم جا کر آگ مانگی تو جہنم کا داروغہ کہنے لگا وتایو جاؤ اپنا کام کرو ۔ یہاں کوئی فالتو آگ نہیں ہے ۔ یہاں ہر شخص اپنے حصے کی آگ خود لے کر آتا ہے "۔

وتایو کی بات سن کر میں سوچ رہا تھا کہ جس شخص نے ناحق ناجائز ایک سکے کو اک لمحے کے لیے ہاتھ لگایا اِس کے انگلیاں بیس برس سے جل رہی تھیں ۔ اُس شخص کی کیا حالت ہو گی جس کے سینے پر اسّی سکے پڑے تھے ۔ اور ان لوگوں کا کیا ہو گا جن کے سینوں پر اربوں کھربوں کا بوجھ ہے ۔ صرف اربوں کھربوں کا ہی نہیں جھوٹ، غیبت ،تہمت، دھوکہ، شراب، بدکاری، حرام کمائی اور سب سے بڑھ کر معصوم انسانوں کے دلوں کو دکھانے اور توڑنے کے گناہ کے بوجھ بھی اپنے سینے پر لیے قبر میں اُترنے والوں کا کیا عالم ہوگا۔ جہنم کے داروغہ نے تو وتایو کو بتایا تھا کہ جہنم میں کو ئی فالتو آگ نہیں ہے ۔ وہا ں پر تو ہر شخص اپنی آگ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے