قندیل کا قاتل کون؟؟

ھمارا معاشرہ تہ در تہ نقاب کے اندر اپنا مکروہ چہرا چھپائے ایک عورت کے قتل پر کھسیانی ھنسی ھنس رھا ھے۔اس مکروہ ھنسی کا دورانیہ بھی بس بمشکل چند گھنٹے’ sensations سے بھرپور خبروں اور بیکار بریکنگ نیوز کے انبار میں قندیل بلوچ دفن ھوجائےگی۔ قتل کے محرکات پہ ‘ جتنے منہ اتنی باتیں ھوں گی بلکہ جتنے اینکر اتنی باتیں ۔ کوئی اس لیے خوش کہ جان چھوٹی غلاظت سے اور کوئی اپنی ٹوپی اور قبا کہ بچنے پہ’ بلکہ مولوی قوی جو پہلے ھی ساس کو مارنے کے تعویز دینے کا اعلان ٹی وی پہ کر چکا ‘ اب اپنا دھندہ اور چمکائے گا۔ دیکھا میرا مذاق اڑانے کا انجام ؟ مجھ سی پہنچی ھستی کا ٹھٹھہ کیا تو جان گنوائی ۔ اس کے تعویز تو اور بکیں گے۔

لیکن میں الگ تھلگ چوا سیدن شاہ کی پہاڑیوں پہ بیٹھا ‘ دلگرفتگی سے اس عورت کے قاتل تلاش کرنے کی کوشش کررھاھوں اور اس کے جرائم کی فہرست مرتب کرنے کی بھی تاکہ اس قتل کے جواز تو مہیا ھوں۔ غریب گھر میں پیدائش پہلا جُرم ‘ پڑھنے اور آگے بڑھنے کی خواھش دوسرا جُرم ‘ خواب دیکھنا ‘ تیسرا جُرم ‘ بھینس کی طرح ایک کھونٹے سے کھول دوسرے کھونٹے سے باندھ دیا گیا لیکن اس نے رَسا تُڑوا لیا’ چوتھا جرم ۔

کچھ بننے کی خواھش ‘ خود کو ثابت کرنے کا خبط اور اس کچھ بننے کی خواھش میں کیا کچھ نھیں کھونا پڑتا اس معاشرے میں اور جب وہ سب کچھ کھو دیں تو وہ بھی جرم ۔ اس نے اس معاشرے کا ننگ اسی آنکھ سے دیکھا جس سے منٹو نے دیکھا یہ بھی جرم ۔ قندیل بلوچ ‘ طاھر شاہ ‘ وینا ملک ایسوں سے بیوقوفیاں سرزد نھیں ھوتیں بلکہ جانتے بوجھتے کرتے ھیں تاکہ "in ” رھیں۔ یہ مشورے کون دیتا ھے ؟ ان حرکات کو ھر لحظہ بڑھا چڑھا کر کون بیان کرتا ھے؟؟ کن کی نظر ان کی ھر حرکت کی منتظر ھوتی ھے؟؟؟

بہرحال جنوبی پنجاب کی پسماندگی سے اُٹھ کر پورے ملک کی مشہور ترین متنازعہ شخصیت بننے کی بھی ایک قیمت تو ھوتی ھے جو چکانی پڑتی ھے۔ شہرت کو دوام کی خواھش ھوتی ھے اور دوام کیلئے اگر ٹیلنٹ نہ ھوتو روز نئے تنازعوں کی ضرورت پڑتی ھے۔ اس کی خاطر وہ سب کچھ کرنا پڑتا ھے جسے کوئی عام شخص خود کرنا پسند نھیں کرتا مگر کوئی اور کرے تو چَسکّے پُورے پُورے لیتا ھے۔

قندیل کے قاتل کون ھیں ؟؟؟ اس کے ماں باپ جنہوں نے اس تعلیم دلانے سے انکار کردیا اور ترقی اور غربت سے چھٹکارے کے جائز راستے اس پر بند کردئیے اور بے جوڑ شادی کردی؟؟ یا اس کے قاتل وہ لوگ ھیں جنہوں نے اس کی اس خواھش اور بے چینی کا ادراک رکھتے ھوئے اس کا استعمال کیا ور ایسے راستے پر ڈال دیا جس پر چلنا بھی مشکل اور لوٹنا بھی ناممکن ؟؟یا وہ میڈیا جس نے اپنی فضول ریٹنگ کیلئے اس کے کندھوں پر رکھ اپنی بندوقیں چلائیں اور ریٹنگ کہ چکر میں روز اس سے کچھ ” نئے ” کی ڈیمانڈ کی ؟؟ یا ھم سب اس کے قاتل ھیں جنہوں نے چھ ماہ بعد بھول جانا ھے کہ کوئی قندیل بلو چ بھی تھی وہ بھی ایک انسان تھی ‘ ایک بے بدل شخص تھی اور ھم نے اس کا وہ نقشہ کھینچا اس کے بھائیوں کے سامنے غیرت کی وہ دیوار کھڑی کی جو اس کی لاش پہ چڑھ کر کی پار ھوسکتی تھی اور اس کے خاندان کو اتنا ذلیل و رسوا کیا کہ وہ اس فعلِ قبیح پر مجبور ھوگئے؟؟؟ ھم سب قاتل ھیں ۔

قندیل آئندہ بھی قتل ھوتی رھے گی۔ ھم فوزیہ کو قندیل بنانے میں مصروف رھیں گے لیکن جب وہ قندیل بن جائے گی تو وہ غلاظت کا استعارہ ٹھہرے گی اور ھم اس کے لاشے کو کندھے پہ اُٹھائے نئی قندیل تراشنے میں مصروف ھونگے ۔ اگر وہ غلیظ تھی تو ھم غلاظت کے سوداگر ‘ طلب اور رسد کا قانون تو یہئ کہتا ھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے