کراچی کہ یہودی "مسجد”

قیامِِ پاکستان کے بعد ہم نے کراچی میں تاج برطانیہ کے دور میں شہر کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے افراد کے ناموں سے منسوب تمام عمارتوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کر دیے۔ یہ کوشش تا حال جاری ہے۔

یہ ہی سب کچھ ہم نے یہود و ہنود کے ساتھ بھی کیا۔ یہود و ہنود کی حد تک تو ہم کسی سطح تک کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن تاج برطانیہ کے حوالے سے ہم کہیں کہیں ناکام بھی رہے۔

یہود سے ہماری نفرت دیرینہ ہے۔ اس کا احساس ان کو بھی تھا اس لیے وہ آہستہ آہستہ یہاں سے بیرونِ ملک خصوصاََ اسرائیل منتقل ہو گئے۔

یہودیوں کی کراچی میں موجودگی کے حوالے سے محمودہ رضویہ اپنی کتاب ملکہ مشرق کے صفحہ نمبر 146 پر لکھتی ہیں کہ یہودی لارنس کوارٹر میں آباد ہیں۔ ملازم پیشہ اور عرفِ عام میں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ذبیحہ اپنا الگ کرتے ہیں۔ ایک ہیکل اور سیمٹری ہے۔ ان کی آبادی بہت کم ہے۔ تعلیم یافتہ اور خاصے خوشحال ہیں۔

ایٹکن کی مولفہ سندھ گزیٹیر مطبوعہ 1907 میں یہودیوں کی کراچی آبادی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ 1901 کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد صرف 428 ہے۔ یہ سب تقریباََ کراچی میں آباد ہیں۔ اکثر کا تعلق بنی اسرائیل برادری سے ہے۔

محمد عثمان دموہی اپنی کتاب ’کراچی تاریخ کے آئینے‘ میں کے صفحہ نمبر 652 پر لکھتے ہیں کہ کراچی میں یہودیوں کا صرف ایک قبرستان تھا جو پرانا حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں واقع تھا۔ یہ بنی اسرائیل قبرستان کہلاتا تھا۔ اس حوالے سے محمودہ رضویہ لکھتی ہیں؛

"پرانی جوئین سمیٹری عثمان آباد سے ملحق ہے اور حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں بنی اسرائیل (یہودیوں)کا قبرستان ہے۔”

محمودہ رضویہ نے کراچی میں یہودیوں کی دو عبادت گاہوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کو تلاش کرنے سے قبل ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو یہودی کراچی سے اسرائیل منتقل ہوئے وہ کس حال میں ہیں اور کراچی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

سولجر بازار کا ڈینئل

اس بارے میں معروف قلم کار اور صحافی محمد حنیف جنھوں نے خوش قسمتی سے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس وقت بین القوامی نشریاتی ادارے بی بی سی سے وابستہ ہیں ۔ ان کا ایک مختصر سفرنامہ بی بی سی سے نشر ہوا تھا۔ جسے بعد ازاں نام ور ادیب اجمل کمال نے اپنے سہ ماہی جریدے آج کے شمارے نمبر 35 مطبوعہ 2001 میں شائع کیا تھا۔

محمد حنیف اسرائیل کے دورے کے دوران ایک تقریب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آخر میں کسی منتظم کو خیال آیا کہ میں نے تقریر نہیں کی۔ مجھے ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر کھڑا کردیا گیا۔ میں نے کہا کہ میرا تعلق ہندوستان سے نہیں کراچی سے ہے۔ میں تو یوں ہی کام سے آیا تھا۔ لیکن آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ میری بات سن کر پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے پکی رنگت اور فربہ جسم کے ایک چالیس پینتالیس سالہ آدمی نے زور سے سسکی لی۔ میں اسٹیج سے اترا تو اس نے آکر میرا ہاتھ پکڑا، ایک کونے میں لے کر گیا اور گلے لگایا۔ یہ سولجر بازار کراچی کا ڈینئل تھا۔

"میں نے 68 کے بعد سے کوئی کراچی والا نہیں دیکھا”

اس نے سسکیوں کے درمیان مجھے بتایا؛

"میں وہاں انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا تھا، ہماری اپنی مسجد تھی۔ سن 67 کی جنگ کے دوران ایوب خان نے اس کی حفاظت کے لیے پولیس بھی بھیجی تھی۔”

پھر اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا، "ہمیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ہمیں کبھی کسی نے گالی نہیں دی۔ ہم نے بس دیکھا کہ سب یہودی لوگ اسرائیل جا رہے ہیں تو ہم بھی آگئے ہیں۔ آپ سولجر بازار کے ظفر خان کو جانتے ہو؟”

ڈینئل ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ ایک ہندوستانی یہودی لڑکی سے شادی کر رکھی ہے۔ دو بچے بھی ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ کراچی ضرور دیکھ لے۔

"سنا ہے آج کل پھر کوئی فوج وغیرہ کی حکومت ہے وہاں، وہی چلا سکتے ہیں اپنے ملک کو بس۔”
باتوں باتوں میں ڈینئل نے بتایا اس کا اسرائیل, خاص طور پر رام اللہ میں دل نہیں لگتا۔

میں نے پوچھا کیوں
آپ کو پتا ہے کہ ہم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی طبیعت میں بڑا فرق ہے۔ یہ لوگ ہمیں کبھی پسند نہیں کر سکتے۔ ہماری بھی ان کے ساتھ نہیں بنتی۔ ہمارے یہاں پر صرف تین چار خاندان ہیں۔ میری بیوی بھی ہندوستانی ہے لیکن وہ اپنے لوگوں والی بات نہیں ہے۔ میں نے کہا یہ سب تو آپ کے یہودی بھائی ہیں۔ کہنے لگے ‘ہاں ہاں لیکن ہیں تو ہندوستانی!’
بنی اسرائیل ٹرسٹ
ذکر ہو رہا تھا کراچی میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کا۔ ان میں سب سے مشہور (Magain Shalome Synagogue (Bani Israel Trust کی عمارت تھی جسے آج بھی کراچی کے پرانے لوگ اسرائیلی یا یہودی مسجد کے نام سے پہچانتے ہیں۔ یہ رنچھوڑ لائن کے مرکزی چوک پر واقع ہے۔ جہاں اب اس کی جگہہ مدیحہ اسکوائر کی کثیر المنزلہ عمارت موجود ہے۔
ہمارے دوست قاضی خضر حبیب نے اس سلسلے میں ہماری خاصی مدد کی۔ ان کے مطابق بنی اسرائیل ٹرسٹ کی آخری ٹرسٹی ریشل جوزف نامی خاتون تھیں جنہوں نے اس عمارت کا پاور آف اٹارنی احمد الہٰی ولد مہر الہٰی کے نام کر دیا تھا۔ ان میں ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ عبادت گاہ کی جگہ ایک کاروباری عمارت تعمیر کی جائے گی۔ عمارت کی نچلی منزل پر دکانیں جب کہ پہلی منزل پر عبادت گاہ تعمیر کی جائے گی۔

نچلی منزل پر دُکانیں تو بن گئیں اور پہلی منزل پر عبادت گاہ بھی۔ مگر اب عبادت گاہ کی جگہ رہائشی فلیٹ ہیں۔ ریشل جوزف اور مختلف افراد کے درمیان ٹرسٹ کی ملکیت کے حوالے سے مقدمہ بازی بھی ہوئی جس میں ریشل اور ان کے اٹارنی کو کامیابی حاصل ہوئی۔

ریشل کی کراچی موجودگی کے بارے میں ہم نے اپنے ایک وکیل دوست جناب یونس شاد کے زریعے ان کے وکیل سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ کافی عرصہ پہلے لندن منتقل ہوگئیں تھیں۔

6 مئی2007 کو روزنا مہ ڈان میں شائع ریما عباسی اپنے ایک مضمون میں ریشل سے گفتگو کا حوالہ دیتی ہیں. یہ گفتگو یہودی قبرستان کے حوالے سے ہے۔ جس کی وہ آخری کسٹودین تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ 2007 تک کراچی میں موجود تھیں۔ جس کے بعد وہ یہاں سے چلی گئیں۔

یہودی قبرستان

اگلا مرحلہ یہودی قبرستان جانے کا تھا۔ ہم نے اپنے ایک صحافی دوست اسحاق بلوچ جو گولیمار کے رہا ئشی ہیں سے اس سلسلے میں مدد چاہی ۔انھوں نے بتایا کہ قبرستان کی نگرانی ایک بلوچ خاندان کرتا ہے۔ وہ ایک بار وہاں گئے تھے۔ بلوچ خاندان نے بہ مشکل انھیں اندر جانے کی اجازت دی۔ وہ بھی بغیر کیمر ے کے۔ ہم مایوس ہو گئے۔

اسحاق بلوچ نے ہمیں کہا کہ اس سلسلے میں نوجوان صحافی ابوبکر بلوچ سے بات کریں۔ ان کے رشتے داروں کے قبرستان کے نگران خاندان سے تعلقات ہیں۔ میں نے اس حوالے سے ابوبکر بلوچ سے بات کی اور ہمارے درمیان یہ طے پایا کہ اتوار کے دن میوہ شاہ قبرستان جا کر کوشش کریں گے.
اتوار کے دن ہم ابوبکر کے گھر لیاری کے علاقے نوالین پہنچے اور وہاں سے میوہ شاہ قبرستان۔ ابوبکر نے ایک پھولوں کی پتیاں بیچنے والی خاتون کی جانب اشارہ کیا۔ ہم نے جیسے ہی انھیں سلام کیا تو انھوں نے ناگوار نظر وں سے ہماری جانب دیکھا۔ انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم پھولوں کی پتیاں خریدنے نہیں آئے۔ وہ اردو میں بولیں تم لوگ اندر نہیں جا سکتے۔ میں نے ابوبکر کی جانب دیکھا۔ اُس بے چارے نے بلوچی میں کسی شریف بھائی کا حوالہ دیا۔

خاتون نے نازبو کے ڈنٹھل صاف کرتے کرتے ہماری طرف کچھ حیرت سے دیکھا اور پھر اردو میں اپنا پرانا جواب دہرایا۔ لیکن اب ان کے لہجے میں پہلی والی شدت نہیں تھی۔ ہم نے بھی بلوچی کا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان سے بلوچی میں قبرستان دیکھنے کی اجازت چاہی۔

اب انھوں نے ہم سے بلوچی میں گفتگو شروع کی۔ ان کے لہجے سے دُر شتگی تقریباََ ختم ہو چکی تھی۔ انھوں نے کہا پہلے بھی کچھ لوگ آئے تھے۔ فوٹو بنا کر چلے گئے۔ ہم کو بڑا آسرا دیا کہ قبرستان ٹھیک کروا دیں گے۔ اس کی چار دیواری اونچی کروادیں گے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چار دیواری بھی ہم نے اونچی کروائی ہے نہیں تو لوگ سنگ مر مر کے پتھر بھی لے جاتے۔

انھوں سے بتایا کہ قبرستان میں 500 سے زیاہ قبریں ہیں۔ ہم لوگوں کو قبرستان کی حفاظت کرتے ہوئے 100 سال سے زیادہ کا عر صہ ہو گیا ہے۔

گفتگو کے دوران وہ ہمیں بار بار اس بات کا احساس دلاتی رہیں کہ ہمیں اندر جانے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گی۔ لیکن ہم نے اپنی کوشش جاری رکھیں۔ آخر زِچ ہوکر انھوں نے کہا کہ ہم پیر والے دن ایک بجے آجائیں اور ان کے بیٹے سے ملیں۔

ہم تقریباََ مایوس ہو چکے تھے۔ اتنی دیر میں ایک موٹر سائیکل ہمارے قریب آکر رکی اور اس سے ایک نوجوان اترا۔ جو لنگڑا کر چل رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک اسٹک بھی تھی۔ یہ خاتون کا بیٹا عارف تھا۔ عارف نے ہماری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ان کی والدہ نے انہیں ہمارے بارے میں بتایا۔

عارف نے بھی اردو میں بتایا کہ ہم اندر نہیں جا سکتے۔ لیکن لہجے میں ماں والی درشتگی نہیں تھی۔ ہم نے عارف سے بھی دوبارہ بلوچی میں درخواست کی، ان کی آنکھوں میں حیرت اور کچھ قبولیت کے آثار دیکھ کر ہم نے انہیں بتایا کہ ہم صرف قبرستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاصی بحث کے بعد وہ راضی ہو گئے۔ لیکن شرط لگائی کہ صرف ایک آدمی ان کے ساتھ چلے۔ ہم نے شرط مان لی۔
یوں ہم قبرستان کے اندر داخل ہو گئے۔ اگلا مرحلہ تصویریں بنانے کا تھا۔ قبرستان کانٹے دار جھاڑیوں سے اٹاپڑا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ جیب سے کیمرہ نکالا اور تصویریں بنانی شروع کی۔ عارف نے میری طرف دیکھا اور بلوچی میں بولا جتنی چاہو بنا لو یار بلوچ بھائی ہو
س دوران عارف نے بھی اپنی والدہ والی باتیں دہرائیں اور بتایا کہ پہلے وہ جھاڑیاں وغیرہ خود صاف کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ دنوں ان کا موٹر سائیکل سے ایکسیڈنٹ ہو گیا جس کے نتیجے میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس لیے اب ان کے لیے یہ کام ممکن نہیں ہے۔

عارف نے مزید بتایا کہ تقریباََ ایک سال قبل ایک شخص ان کے پاس آیا تھا جس نے بتایا کہ شیرٹن ہوٹل میں کچھ لوگ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ ہوٹل گئے تو 4 لوگوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے قبرستان کا تفصیلی حال احوال لیا۔ مگر قبرستان دیکھنے نہیں آئے۔

عارف کے مطابق کبھی کبھار لوگ آتے ہیں تصویریں بناتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کرکے چلے جاتے ہیں لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہودیوں کو شُکر ادا کرنا چاہیئے کہ ان کی قبروں کے نگران بلوچ ہیں ورنہ یہودی مسجد کا تو آپ کو پتہ ہے نا کیا حال ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے