مقبوضہ کشمیر کے حق میں نعرے۔۔۔

کشمیر جنت نذیر وادی اور کشمیر ی عوام پاکستان کی آنکھ کا تارہ ہیں۔بھارتی جنتا پارٹی جب سے کشمیر پر مسلط ہے تب سے مکرو فریب کے جال کشمیری عوام کا مقدر ہیں۔گولی نہیں بولی کانعرہ لگانے والی محبو بہ مفتی بھارت کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔

محبو بہ مفتی کا بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دینا اور لیت و لعل سے مزین تقاریر کرنابظاہر تو بھارت مخالف ہیں لیکن عملاََ بھارت نواز محبوبہ کشمیر میں آزادی کی نئی لہر چلنے کی پاداش میں کشمیری عوام کو لولا، لنگڑااور اندھا کر کے تحریک آزاد ی کو کچلنے کی ناپاک سازش میں ملوث نظرآتی ہے۔پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی صرف ووٹوں اور الیکشن میں کامیابی کے لیے امن کی آشا کے بیانات دے رہے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہے کہ مسلمانوں میں غم و غصہ کی نئی لہر دوڑ رہی ہے جو کہ انکی پاور پالیٹکس کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

دراصل محبوبہ اپنے کارناموں میں بھارتیوں کو شہریت دلا نے کیساتھ ساتھ ،مسلم کردار کو مٹا کر مساجد و مدارس پر پابندیاں عائد کر کے حریت رہنماؤں کا قلع قمع چاہتی ہے ۔بھارت کا 68 سال سے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے نتیجے میں 500,000 سے زائد لوگ موت کی نیند سو گئے ۔میر واعظ عمر فاروق کی میڈیا گفتگو کے مطابق کشمیری نوجوانوں کی آنکھیں نکالی جارہی ہیں ۔ حریت رہنما آسیہ اندرابی کا کہنا ہے کہ 110 سے زیادہ بچوں کی آنکھیں نکالی گئیں اور انہیں اسلیے دونوں آنکھوں سے محروم اور بعض جوانوں کے جسم کے مختلف اعضاء کاٹ دیے گے تا کہ وہ تحریک آزادی کشمیر میں حصہ نہ لے سکیں۔

جب برہان وانی کو شہید کیا گیا تو ہر طبقہ فکرسے تعلق رکھنے والا کشمیری جذبہ شہادت کی تمنا لیے سڑک پر آ گیا ۔احتجاج سے نمٹنے کے لیے بھارتی کٹھ پتلی سرکار نے مودی کی ایما ء پر سیدھی گولیاں چلائیں اور اور بے گناہ معصوم کشمیریوں کا قتل عام کیا جسے دیکھ کر بھی امریکہ غدار اور دجالی میڈیا نے کشمیری قربانیوں پرکچھ خاص تبصرہ کیا نہ ہی بھارتی اتنگ وادیوں کے خلاف لب کشائی کرنا مناسب سمجھا۔

بھارتی دہشت گردوں کے اس ظالمانہ اقدام اور بربریت کے نتیجے میں بیسیوں جوانوں سمیت کئی خواتین بھی شہید کر دی گئیں اور بے شمار افراد زخمی ہوئے۔ نوازشریف کی حکومت جب بھی آتی ہے تومقبوضہ کشمیر کے لوگ خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ اب نواز شریف ہماری تحریک آزادی کی راہ میں ہر رکاوٹ دور کردینگے۔لیکن پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے کہ نواز شریف کشمیر ایشو پر کھل کر بات نہیں کر پاتے اور ہمیشہ اندونی مسائل اور پارٹیوں کے خلفشار میں الجھے نظر آتے ہیں۔حالانکہ نواز شریف ایک زیرک سیاستدان ہیں ،عالمی برادری، عالمی میڈیا اور مسلم امہ انکی بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ برہان الدین وانی کی شہادت سے بلا شبہ آزادی کی تحریک میں ایک جان ڈل گئی ہے ، انکی شہادت پر 60 کے قریب کشمیریوں نے اپنی جانوں نظرانہ دیکر کر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اب کوئی مذموم ارادے اور تابے بانے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے فولادی عزم و حوصلہ کو متزلزل نہیں کر سکتے۔

بات بھارتی اٹل بہاری واجپائی ، من موہن سنگھ یا مودی سرکار کی نہیں ہے ، مسئلہ تو کشمیر کا ہے جسے وہ اپنا حصہ، حق اور اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر ہمار اتھا ، ہے اور رہیگا حالانکہ انکے یہ تمام بیانات اقوام متحد ہ کے فورم اور اسمیں پیش کی گئی گزارشات، سفارشات، قراردادوں کو پاؤں کی نوک پر رکھنے کے مترادف ہیں۔ بھارت کشمیر معاملے پر امریکہ کو بھی ناراض کر سکتا ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے ہم نامعلوم وجوہات کی بنا ء پر مقبوضہ کشمیروں کے لئے کوئی Stance لینے سے کتراتے ہیں۔بھارت نے 700,000 سے زائد فوجی وہاں تعینات کیے ہوئے ہیں۔

جب کوئی بھارتی چاہتا ہے وہاں کرفیو لگا کر کسی کو شہید کر دیتا ہے، کسی کے ہاتھ ، پاؤں، ناک اور کان کاٹ دیتا ہے، کسی ماں ، بہن اور بیٹی کی سرعام عزت نیلام کردیتاہے اورہم بھی بڑی آسانی سے ” متنازعہ کشمیر ” کہہ کر اپنی جانی چھڑا لیتے ہیں۔کشمیر کو ہماری سپورٹ زبانی جمع خرچ، طفل تسلیوں اور دعاؤں سے زیاد ہ کچھ نہیں ہے جوکہ عجیب اور سمجھ سے بالا تر ہے۔

میاں نواز شریف جب بھی آئے انہوں نے کشمیر ایشو پر آواز ضرور اٹھائی ۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ نواز شریف کشمیری بٹ فیملی سے ہیں اس لیے اگر یہ چاہیں تو کشمیر کے حالات پر معاملات کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔نواز شریف نے آزاد کشمیر الیکشن کے اگلے دن مظفر آباد میں ن لیگ کے کارکنا ن سے اظہار تشکرکیا اور پہلی بار ایسا ہوا کہ نواز شریف نے نہ صرف اپنے خطاب میں بھارت کی کشمیری عوام پر یلغار کو آڑے ہاتھوں لیا، ان پر جبر و تشدد کی مذمت کی، انکے صبر وہمت کو داد دی بلکہ تین تین بار ” مقبوضہ کشمیر زندہ باد” اور” آزادی مقبوضہ کشمیر زندہ باد "کے نعرے لگوا کر اور اظہار یکجہتی منا کربھر پور انداز میں عالمی میڈیا پر یہ تاثر چھوڑا کہ پاکستان نہ تو کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے موقف سے کبھی دستبردار ہوگا اور نہ ہی کبھی اسکی عوام اور حریت رہنماؤں سید علی گیلانی، میر واعظ فاروق وغیرہ محبت اور خلوس کا رشتہ توڑے گا۔بہرحال آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے کامیاب اور پر امن انتخابات کے انعقاد پر حکومت ،پاک فوج اور دوسرے ادارے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

آزاد کشمیر میں میاں نواز شریف نے 31 سیٹوں کیساتھ کلین سویپ کیا۔اگر واقعی کشمیر ایشو پر بات کرنی ہے تووقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کشمیر پر اپنا موقف واضح اور دوٹوک رکھنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر تمام جماعتوں کے نمائندوں کو عتماد میں لیکر ایک پیج پر اکٹھا کرے کیونکہ یہ کام صرف جماعت اسلامی، حافظ سعید، شیخ رشید یا عبد اللہ گل کا نہیں ہے۔

بائیں بازؤں کی جماعتوں کو کشمیر ایشو پر بریفنگ دی جائے ۔کشمیر سے بھارتی فوج کے انخلا ء پر بات کی جائے۔مولانا فضل الرحمان کی کشمیر کمیٹی کی سیٹ پر از سر نو غور کر کے ایسا سیاستدان لگایا جائے جو نہ صرف کشمیری مسائل سے شناسا ئی رکھتا ہو، سفارتی معاملات اور انسانی حقوق سے آگاہ ہو بلکہ انگلش زبان پر عبوراوربھارت، امریکہ اور اقوام متحدہ میں اپنا اثر ورسوخ رکھتا ہو۔ حنا ربانی کھر، مشاہد حسین سید،خورشید قصوری اورعبد الغفار عزیز اسکی بہترین مثالیں ہیں۔

Shahzad Title.jpg
61 KB

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے