فاروق حیدر کی سیاسی بصیرت کا امتحان

آزاد کشمیر انتخابات میں ن لیگ کی لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کرنے کے بعد جیتنے والے امیدوار بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہیں انہیں ابھی تک یقین نہیں ہو رہا کہ وہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ ن لیگ کا بھاری بھر مینڈیٹ حاصل کرنے پر ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
خوف مجھے آتش گل سے ہے کہ کہیں میرے چمن کو جلا نہ دے
گلگت بلتستان، فاٹا ، بلوچستان اور آزاد کشمیر کی عوام اس جماعت کو ووٹ دیتی ہے اسلام آباد جس کے کنٹرول میں ہو۔ ان انتخابات میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی اور دھرنوں والی پارٹی تحریک انصاف کو عبرتناک شکست ہوئی۔ پیپلزپارٹی مشکل سے دو نشستیں بچانے میں کامیاب ہوئی ، ان میں ایک وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید اور دوسری سابق سینئر وزیر یاسین کی۔ رات گئے تک راجہ اقبال نشست جیت رہے تھے الیکٹرانک میڈیا راجہ اقبال کی جیت کی خبر دے چکا تھا کہ رات کے تین بجے ایک دوست نے کال کی کہ چوہدری یاسین 1800ووٹوں کی لیڈ سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے بعض ذرائع دبے الفاظ میں اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ حلقہ 4 چڑھوئی کی نشست کو مینج کیا گیا اور ہاری ہوئی سیٹ کو جیت میں بدلا گیا۔ چوہدری عبدالمجید جیسے وزیراعظم کی موجودگی میں پیپلزپارٹی کون سا تیر مار سکتی تھی جس نے حلف لینے کے بعد سب سے پہلے بیان دیا کہ پہلے گڑھی خدابخش حاضری دوں گا اس کے بعد مکہ مدینہ جائوں گا۔ اپنے آپ کو گڑھی خدابخش کا مجاور کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ کرپشن کروں تو ماں ، بہن اور بیٹی کا گوشت کھائوں۔
وزیراعظم اپنی بات پر قائم رہے مگر اپنے بیٹوں کو کھلی چھٹی دے دی، پوت ، کپوت اور سپوت بیٹا تین قسم کا ہوتا ہے۔ پوت اپنے باپ دادا کی جائیداد کو سنبھال کے رکھتا ہے، سپوت باپ دادا کی جائیداد کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ کرتا ہے اور کپوت باپ دادا کی جائیداد فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نام کی لٹیا ڈبو دیتا ہے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے بیٹوں نے سیاسی کپوت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے کرپشن کے وہ ریکارڈ بنائے کہ لفظ کرپشن بھی شرما گیا۔ انہوں نے اپنے باپ کی سیاسی لٹیا ڈبو دی۔21جولائی کی رات ایک جیالے نے فون کیا وہ پارٹی کی شکست پر شاد تھا۔ پوچھا آپ کیوں خوش ہو رہے ہیں جواب دیا کہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا انہوں نے کرپشن کی نئی داستانیں رقم کیں۔ ملازمتیں بک رہی تھیں ، سرکاری ٹھیکوں میں کمیشن اور تقرروتبادلوں میں لین دین سکہ رائج الوقت تھا۔ جو کارکن پارٹی کے اندر اس لوٹ مار پر آواز اٹھاتے اسے پارٹی سے فارغ کرنے کی دھمکی دی جاتی وہ بیچارہ خاموش ہو جاتا یا پھر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں اپنی عافیت سمجھتا۔ پیپلزپارٹی اب دھاندلی کا نعرہ لگا کر اس غلطی کی تلافی کرنا چاہتی ہے جو 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے موقع پر نواز شریف کا ساتھ دے کر سرزد ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے کارکن گو نواز گو کے نعرے لگا رہے ہیں جو 2014ء میں تحریک انصاف کا مذاق اڑا رہے تھے۔ پیپلزپارٹی اس غلط فہمی کا شکار تھی کہ ن لیگ میثاق جمہوریت کے تحت آزاد کشمیر کے انتخابات میں خیرسگالی کا مظاہرہ کرے گی مگر سیاست کے سینے میں دل اور آنکھ میں شرم و حیا کہاں؟
1997ء میں پاکستان کو جنرل انتخابات میں ن لیگ نے لینڈ سلائیڈ وکٹری لی تھی مگر نواز حکومت اپنے بھاری بھر مینڈیٹ کے نیچے آ گئی اور اسے 1999ء میں جانا پڑا۔ آزاد کشمیر میں ن لیگ کی دو تہائی اکثریت کے بعد اپوزیشن نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ، ایک ننھی منی اپوزیشن معرض وجود میں آئی ن لیگ کے ایک نومنتخب امیدوار کی کامیابی پر مبارکباد دینے کیلئے فون کیا تو اس نے جواب دیا کہ اپنی کامیابی پر مبارکباد قبول کرتا ہوں لیکن دوتہائی اکثریت پر نہیں۔ حیرت سے پوچھا کیوں؟ جواب ملا جاندار اپوزیشن کا نہ ہونا ریاست کیلئے اچھا شگون نہیں جس گھر کے باہر دشمن نہ ہوں اس گھر کے مکیں آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی کچھ کیفیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ن لیگ کی ہو گی۔ ن لیگ آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان جو یقیناً آزاد کشمیر کے وزیراعظم بنیں گے جس وقت وہ اپوزیشن لیڈر تھے انہوں نے ہمیشہ مجید حکومت کو ”انجمن غلامان فریال تالپور” کا نام دیئے رکھا۔ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ن لیگ اقتدار میں آ کر ریاستی اسمبلی کا وقار بحال کرے گی۔ وہ اکثر وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کے مشیر چوہدری ریاض کو نان سٹیٹ ایکٹر کہا کرتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ ن لیگ کسی غیرریاستی شخص کی دم چھلا نہیں بنے گی۔ گزشتہ روز مظفرآباد میں پارلیمانی پارٹی کا تعارفی اجلاس ہو رہا تھا کہ راجہ فاروق حیدر کے سامنے مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک چٹ پیش کی گئی جس میں تمام تر نام رائے ونڈ بذریعہ کرمانی دیئے گئے ، راجہ فاروق حیدر اور ان کی پوری ٹیم بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگی۔ ایسا ہی کچھ 2011ء کے انتخابات کے فوراً بعد ہوا تھا جب ن لیگ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس راجہ فاروق حیدر کی صدارت میں کشمیر اور اسلام آباد میں ہو رہا تھا کہ خوبرو خاتون اجلاس میں آئی اور پوچھا فاروق حیدر کون ہے ؟ جواب ملا !بی بی کیا بات ہے ، میں فاروق حیدر ہوں ، اس پر خاتون نے اپنے پرس سے ن لیگ کی مخصوص نشست کا نامزدگی ٹکٹ نکال کر انہیں دیا اور وہ کچھ نہ کر سکے وہ خاتون ڈاکٹر فوزیہ اشرف تھی۔میاں نواز شریف کو یہ زعم نہیں ہونا چاہیے کہ کشمیریوں نے ووٹ ان کی محبت میں دیئے ۔ ان کا تھوڑا بہت عنصر شامل ہے مگر کشمیری راجہ فاروق حیدر کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے ان کی محبت میںووٹ دیا ان کی شہرت ایک نڈر اور بے باک لیڈر کی ہے وہ اقتدار میں آ کر ایکٹ 74ء میں ترامیم کروائیں گے اور کشمیر کونسل جو کشمیریوں کے تمام وسائل ہڑپ کر جاتی ہے جس کا آئینی ہاتھ کشمیریوں کی شہ رگ پر ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے