کراچی یا کچراچی؟؟؟

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کراچی سے تین روز میں کچرا صاف کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس حکم کی تعمیل کس حد تک ہوئی یہ تو کراچی کی سڑکوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔کراچی کے شہریوں کو تو حکومت سے کوئی امید نہیں بلکہ وہ تو اتنظامیہ سے اتنا مایوس ہو چکے ہیں کہ کہتے ہیں کہ کراچی کو اب کراچی نہیں بلکہ ‘کچراچی’ کہو کیونکہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے کراچی سے کچرا تو نہیں نہیں جائے گا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں یومیہ 12ہزار ٹن کچرا بنتا ہے اور بلدیہ کے پاس روزانہ 12ہزار ٹن کچرا اٹھانے کی اہلیت ہے ہی نہیں،چند ہزار ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جاتا ہے، کچھ جلادیا جاتا ہے اور کچھ کچرا اگلے دن کے کچرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں چاہے وہ کوئی مرکزی شاہراہ ہویا محلے کی گلیاں جدھر دیکھو کچرا اورگٹر ابلتے ہی نظرآتے ہیں اور ان پر بھنکتی مکھیاں،مچھر گندگی اور غلاظت نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔کچرے کے یہ ڈھیر سندھ حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کی کہانی سنا رہے ہیں۔

کراچیکاایم اے جناح روڈ،صدر،گلشن اقبال ٹاؤن،ناظم آباد،لیاقت آباد، کلفٹن، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقے کچرا کنڈی بن چکے ہیں۔ کچرا بڑھتے بڑھتے سڑکوں تک پہنچ چکا ہے لیکن انتظامیہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔
آج سے چند سال پہلے کراچی اچھا خاصہ صاف ستھرا شہر نظر آتا تھا لیکن گزشتہ چند سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے کچرے کا ڈھیر بن گیا، اس کا جواب یہ ہے کہ سندھ حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں شہری حکومت پر جو تجربات کیے اس کی وجہ سے شہر میں کسی بھی قسم کا ایک مربوط سسٹم نہ بن سکا۔بلدیاتی نظام اور کمشنری نظام کی ردوبدل نے کراچی کے نظام کا ڈھانچہ ہی بگاڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہری انتظامیہ کسی بھی ڈسٹرکٹ میں کام کرتی دکھائی نہیں دے رہی جس میں صفائی ستھرائی سمیت دیگر مسائل حل طلب ہیں۔

شہر میں کچرا اٹھانے کے ذمہ دار ادارے غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں جو صرف میڈیا کے جھنجوڑنے پر ہی کچھ دیر اٹھتے ہیں اور پھر لمبی تان کر سوجاتے ہیں، کچرا اٹھانے کے لئے کئی سال قبل سندھ سولڈ ویسٹ منجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، لیکن آج تک اسے فعال نہیں بنایا جاسکا، جس کے باعث کراچی کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکا ہے، اور شہر کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دو کروڑ کی آبادی والا شہر کراچی جو پاکستان کی معیشت کا حب بھی ہے یہاں کچرے کی صورتحال دیکھ کر صرف فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔سائیں سرکار نے شہر کو کچرے سے صاف کرنے کے لئے تین روز کا الٹی میٹم تو دیا ہےاب دیکھنا یہ ہے کہ شہر صاف ہوتا ہے یا نہیں۔ویسے شہریوں کو تو کوئی امید نہیں ان کا کہنا ہے کہ کوئی معجزہ ہی ہوگا جو شہر سے کچرا اٹھا لیا جائے۔
کراچی شہر کی سڑکوں پر دن بدن بڑھتے کوڑا کرکٹ اور کچرے کا ڈھیر اور ا س سے اٹھتی بدبو اور تعفن شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور اگر یہی حال رہا تو بقول شخصے
اسی کچرے پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے باہر صفائی ستھرائی کا کوئی نظام نہیں ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے