غیرت نہیں ضرورت کے نام پرقتل

قندیل بلوچ نے جو انداز اپنا یا اس کا قتلایک سو ایک فیصد یقینی تھااس میں غیرت تو نہیں، ضرورت کا عنصر زیادہ شامل ہے ۔غیرت کے نام پر قتل قرار دینا اس کے پیچھے چھپے اصل محرکات پر پردہ ڈالنے کا نام ہے۔ جب یہ خبر میں نے سنی تو ملتان سے زیادہ فاصلہ پر نہیں تھا، میں چونکا نہیں کیونکہ ان دنوں میں جس خبر پر کام کر رہاہوں شاید وہ اس سے کم اہم نہیں ہے، وہ بھی ایک خاتون کی ہی کہانی ہے۔خیروہ خبرابھی ادھوری ہے جس کے باعثیہاں بیان نہیں کرونگا۔ آج قندیل بلوچ ہی سہی یا فوزیہعظیم کہہ لیں۔ ویسے جب اسے مارا گیا وہ قندیل نہیں فوزیہ تھی۔

ایک عورت جوکہ سوشل میڈیا اسٹار جس کے فیس بک پیج کوسات لاکھ اٹھاسی ہزار ایک سو سینتیس لوگوں نے لائق کیا جس میں میرے چون فیس بک فرینڈ بھی شامل اور کچھ شاگرد بھی،یعنی وہ بھی اس کو ایک انٹر ٹینمنٹ جانتے تھے۔ اس کے علاوہ ان خاتون کے دنیا بھر میں بڑے لوگوں سے اچھے مراسم،پاکستان کے بڑے شہراسلام آباد، لاہوراور کراچی میں لگثری رہائش گاہیں تھیں، ایک سیمی پورن اسٹار جن کو ان کے اس نامپراعتراض ہو ان کے لئے modern day feministہی کہہ لیں۔ جہاں وہ ایک بے باک لڑکی ہےشہرت کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے جو کہ نام نہادمولویوں کو بھی نہیں بخشتی، اس کی منزل کیا ہے یہ بھی ایک بہت دلچسپ بحث ہے، وہ چاہتی کیا ہے، اس نے یہ زندگی کیوں اپنائی، کن حالات نے اسے مجبور کیا،بہت بڑے بڑےاینکرپرسنز نے ریٹنگ حاصل کرنے کیلئے اس ماڈؒل کے انٹر ویو کیے ایک مولوی صاحب سے ان کی ملاقات کی کہانیاں عوام کو رمضان اکمبارک میں سنوائیں۔ حتیٰ کہ ایک سینئر ترین صحافی جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں کہ ان کا نام نہیں لکھوں گا،ان کے ساتھ میں نے بیٹھے دیکھا۔ میں جلدی میں تھا لہذا ورنہ اس گفتگو کا حصہ بن جاتالہذا میں رکا نہیں۔ آج مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں پوچھ ہی لیتا کہ آخر یہ فوزیہ سے قندیل بننے کی اصل وجہ کیا ہے اوراس قندیل کی منزل کیا ہے۔

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اگلی کسی ملاقات سے پہلے یہ قندیل بجھ جائے گی، ہاں میں ضرور جانتا تھا کہ اس قندیل کی روشنی لوگوں کیآنکھ میں چھبتی ہے مگر زیادہ دیر یہ روشن نہیں رہے گی اور اتنی جلدی فلم کا ڈراپ سین ہو گا یہ میرے ذہن میں نہیں تھا۔ لوگ قندیل بلوچ کی زندگی کا ایک رخ جانتے ہیں دوسرا کسی نے معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ڈی جی خان کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی فوزیہ ملتان، لاہور، کراچی، اسلام آ باد اوربیرون ملک کیسے پہنچی۔

قندیل اس خواہش کا نام ہے جو کہ زیادہ تر انسانوں کے دل میں ہے کہ لوگ مجھے حسرت کی نگاہ سے دیکھیں، میں اپنی مرضی کی زندگی جیو، دنیا کی عیش وعشرت دیکھوں، میرے پاس پیسہ ہی پیسہ ہو، جس کے لئے قندیل نے جو طریقہ کار اپنایا وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کا ایک عام طریقہ ہے۔اس کو مہذب دنیا میں پورن انڈسٹری بھی کہا جاتا ہے اورmodern feministکے نزدیک یہ کوئی غلط انداز نہیںہے۔ ان کے مطابق ایک عورت کو حق ہے کہ وہ اپناا ستعمال جیسے مرضی کرے۔ فحاشی عریانی وغیرہ یہ سب دقیانوسی اورانسان کی اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ پورن انڈسٹری کیا ہے یہ بھی میری specialization کا حصہ ہے ٹی وی، نیوز یا فلم میں زیادہ پڑھنا ہے تو اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔میں یہ بات نہ لکھتا شاید غیر اخؒلاقی کہلائے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ بہت پرانی انڈسٹری ہے جس نے چند دہائیوں میں ریکارڈ ترقی کی ہے اور اس وقت اس کی کمائی اسپورٹس، نیوز و دیگر انٹر ٹینمنٹ چینل سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ میں قندیل بلوچ کو سیمی پورن نہیں کہہ رہا ہوں اعتراغ سے پہلے اس تعریف پر نظر ڈال لیں جوکہ عالمی سطح پر مانی جاتی ہے۔

Porn industry involves the production and distribution of sexually explicit and offensive materials that are used to entertain adults; the most popular components of the porn trade are adult motion pictures and Internet porn.

خیر ہر انسان نے اپنی قبر میں جانا ہے جس ملک کے لوگ دنیا بھرمیں ریکارڈ سطح پر ایسی ویب سائیٹس سے فیض یاب ہوتے ہوں وہاں اس سے حاصل ہونے والی کمائی پراعتراض بنتا نہیں ہے۔ مگریاد رکھیں ابھی ہمارے معاشرے میں اس کی جگہ تو شاید بہت ہے مگرعزت واحترام نہیں ہے جتنے مر ضی feminismکے نام پرایسے اقدامات کو درست قرار دیتے ہوئے کہیں کہ قندیل جو کر رہی تھی وہ ٹھیک ہے، یہ تو ایک انٹر ٹینمنٹ ہے ہو اور کمائی کا ذریعہ۔دو ہزار چھ میں چائنہ نے بھی تو اس انڈسٹری سے 27.40بلین ڈالر،شمالی کوریہ نے 25.73بلین ڈالر، جاپان نے 19.98بلین ڈالراور امریکہ نے 13.33بلین ڈالر کا ریونیو اکھٹا کیا ہےجس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان والے اب تھوڑی بہت تفریح بھی نہ کریں۔ تفریح کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر آپ یہ جان لیں کہ عزیز و اقارب بھی جنازے میں منہ چھپا کرآئیں گے۔ وہ لوگ جو کہ روزانہ کی بنیاد پر قندیل کو ایک آزاداور بے باک لڑکی قرار دے رہے ہیں وہ بھی صرف ٹی وی پر باتیں بناتے یا ٹویٹ کرتے نظرآئیں گے۔ یہ طریقہ کار ایک بہت بڑا شارٹ کٹ تو ضرور مگر ابھی اس کی جگہ نہیں ہے۔ طوائف کے کوٹھے پر مجرہ دیکھنے تو ہم عرصہ دراز سے جارہے ہیں مگر اس کو سمجھا گالی ہیجاتا ہےلہذا اس زندگی سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔ فوزیہ عظیم کو کن وجوہات نے قندیل بنایا جو کہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان کے دیہاتوں سے کئی ماڈلز نے نکل کر نام کمایا ہے جس میں وینا ملک بھی شامل ہیں مگر وہ قندیل کی مقابلہ میں ذرا slow bowlingکرنے کی عادی تھیں۔ زیادہ تیز چلو گے تو اپنی وکٹ بھی گر سکتی ہے

تاہم میں قندیل کو صرف برا بھلا کہنا درست نہیں، قندیل میں ایک فوزیہ بھی چھپی تھی،اس کے اندر ایک بیٹی بھی تھی اورجب وہ اپنے والدین کو ملنے جاتی تو قندیل نہیں فوزیہ ہوتی تھی، جو کہ بوڑھے ماں باپ سے بہت زیادہ پیاراوران کی خدمت کا جذبہ بھی رکھتی تھی اس کی کوشش ہوتی کہعید کسی نائٹ کلب نہیں بلکہ والدین کے ساتھ ہی گزارے۔آج کل بھی وہ اپنے والدین کیساتھ اس لئے رہ رہی تھی کہ اسے اپنے بس سے گرکرٹانگ تڑوانے والے معذور باپ کا علاج کروانا تھا۔ وہ ایک اچھی بہن تو شاید نہیں مگر اپنے بھائی کی ہمدرد ضرور تھی۔ اپنے بھائی کواس نے موبائل فون کی دکان بنوا کر دی،ہر خوشی وغمی میں پیسے سےاسکی معاونت کی، اس کے بھائی کو معلوم تھا کہ یہ پیسہ کیسے آرہا ہےاب وہیبہن کی کمائی پر پلنے والاجب اپنی بہن کو گلا گھونٹ کر مار دے اور یہ کہا جائے کہ یہ غیرت کے نام پر قتل ہے اور پاکستان خواتین کے رہنے کی جگہ نہیں۔ دنیا میں ہمارے ملک کا تاریک چہرہ پیش کیا جائے ہر طرف ایک منفی پراپیگنڈہکیا جائے، جس کے لئے یہ حالات پیدا کیے گئے ہیں یا پھر اس موقع سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہےیہ ہمارے ساتھ ایک بھیانک مزاق ہے جس سے شاید ہم قندیل کے مرنے کے بعد بھی لطف اندوز ہورہے ہیں جہاں یہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا موضوع ہے وہیں ابھی بھی قندیل کا فیس بک پیج ریکارڈ سطح پر وزٹ ہورہا ہے۔
یہ اخلاقی باتیں ایک طرف مگر کچھ نکات ایسے ہیں جو کہ ہضم نہیں ہوتے جیساکہ وہ بھائی غیرت کے نام پر قتل کر رہا ہے جوکہ اپنی بہن کی کمائی سے فیض یاب ہو رہا تھا، یہغیرت کے نام پر قتل والی بات یہاں نہیں ہوسکتی ہے۔ مرغی کا روزانہ انڈہ کھانے والے اس کو ذبح نہیں کرتے۔تاہم کچھ حرکتیں ان صاحبہ کی دوسروں کیلئے خطرہ کی گھنٹی ضرور تھیں جیسا کہ قندیل نے مولوی کے ساتھ سیلفی بنوانے کیساتھ اپنی ملاقات کی کہانی پوری دنیا کو سنائی، جہاں یہ کہانی عوام کیلئے ایک تفریح تھی، وہیں بہت سے کھلاڑی، کاروباری حضرات، سپر اسٹار، کچھ سرداروں اور سیاستدانوںکیلئے خطرہ بھی تھی کہ آج قوی صاحب مُنی کی طرح بدنام ہو رہے ہیں کہیں کل وہ بھی اس کی بھینٹ چڑھ سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔

قندیل نے عبدالقوی کی تصویر لگا ئی اس کو کیا کہیں گے۔ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کی قابل اعتراض تصویروں کومنظر عام پر لاتا ہے تو اس کو بلیک میلنگ کہا جاتاہے اور یہی کام لڑکی کرے تو ہمیںGender Biasedنہیں ہونا چاہئے۔

مولوی صاحب تو چاند دیکھنے سے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی تڑپ اٹھے ہو گے جوکہ ان صاحبہ سے ملاقات کر چکے تھے ۔لہذا اس کوصرف غیرت کے نام پر قتل کہا جائے یہ بات تھوڑی سمجھ سے باہر ہے۔یہ ایک نہایت پیچیدہ کیس ہے۔ قندیل کی جان کو خطرہ تھا اس کا اظہار اس نے اپنی زندگی میں کئی حضرات سے کیا ان میں فوزیہ کے آبائی گاؤں، ڈی جی خان کے رہائشی پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے ایک وکیل صاحب بھی شامل ہیں وہ اس قتل میں خاندانی جائیداد کی تقسیم کےعنصر کو بھی شامل کرتے ہیں۔

اس کیس میں پیچیدگیاں بھی بہت ہیں،ایسا نہیں کہ یہ بہت زیادہ مشکل معاملہہوکہ اصل حقائق کو منظرعام پرنہلایا جا سکے۔دوسرے اداروں کو چھوڑیں پنجاب پولیس میں بھی بہت قابل لوگ موجود ہیں، یہ نہ سمجھیں کہ پوارا محکمہ نالائقوں سے بھرا پڑا ہے، یہ الگ بات کہ ان سے کام بہت کم لیا جاتا ہے جوکہ اس کی صحیح تفتیش کر سکتے ہیں۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگرمیں یہیں ختم کرتا ہوں کہ قندیل کا قتل اتنی بڑی خبر نہیں ہے جتنے بڑی خبریں قندیل کے ساتھ دفن کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر یاد رکھیں کہ حقائق چھپتے نہیں ایک بار سامنے آتے ضرور ہیں اور بہتر یہی ہے کہ صرف غیرت کے نام پر اس کو قتل قرار دے کر مٹی پاؤ والا حساب نہ کیا جائے بلکہ معاملہ کی ہر لحاظ سے تحقیق ہو اور اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ وہ کیا وجہ ہے جو فوزیہ کو قندیل بناتی ہے۔ اگرفوزیہ کے پاس بھی سب کچھ ہو جوکہ ایک بچہ کی ماں بھی ہے تو اسے ضرورت ہی کیا پڑی قندیل بننے کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے