سیاست کی آبرو ، معراج محمدخان

اور اب معراج محمد خان بھی اس راہ کے مسافر ہو چکے جس پر چلنے والے کبھی واپس نہیں آتے۔وہ جو اندھیری راتوں میں آندھیوں اور طوفانوں میں جرائتوں اور عزیمتوں کے دیئے روشن کرتے تھے ، جو جبرو ستم کی پروردہ سام راجی قوتوں اور ان کے گماشتوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے تھے ۔،جو حق اور سچ کا پھریرا لہراتے ہوئے راستے کی ہر مشکل اور رکاوٹ مردانہ وار عبورکرتے گزر جاتے تھے ، رفتہ رفتہ داغ ِ مفارقت دیئے جارہے ہیں ۔یہ دیوانے اور جنونی اب آہستہ آہستہ دھرتی کی گود میں سمائے جارہے ہیں ۔بدی کی قوتیں مزید توانا او ر مضبوط ہوتی جارہی ہیں کہ انہیں للکارنے والے اب ناپید ہوتے جارہے ہیں ۔

70ءکی دہائی میں جن نوجوانوں کانام ملکی سطح پر نمایاں طورپر سامنے آیا ان میں ایک معراج محمد خان بھی تھے ۔خوب رو، گٹھے ہوئے جسم ، کسرتی بدن ،تنومند او ر خوش مزاج و خوش گلو ۔ ایوبی آمریت میں جب کسی کا چراغ جلتا دکھائی نہیں دیتاتھا یہ معراج محمد خان ایسے چند سر پھرے ہی تھے جو سڑکوں ، گلیوں میں اس جبر کے خلاف توانا آواز بن کر ابھرے ۔ایوبی کابینہ کے ایک نوجوان وزیرذوالفقارعلی بھٹو نے صدر جنرل محمد ایوب خان سے اختلاف کی بنا پر اقتدار سے علیحدگی پاکر عوام الناس سے براہ راست رجوع کرنے کافیصلہ کیا اور اپنے قریبی ساتھیوں کی مشاورت سے عوامی جماعت (پیپلزپارٹی ) کی بنیاد رکھی تو نوجوان معراج محمد خان بھی ان نوجوانوں میں سے تھے جنہوں نے بھٹوکی آواز پر لبیک کہا اور اس قافلہ ءحریت کے حدی خواں بن گئے ۔

وہ اپنی جوانمردی ، سرفروشی ، جرات و بیباکی کی بدولت جلد ہی اس نومولود جماعت کے شباب کے ہیرو بن گئے ۔آمریت اور مارشلائی دور کے خلاف جمہوری جدوجہد کے ہراول دستے میں شامل ہوگئے اورپھر کراچی سے پشاور تک اس تحریک کا پرچم تھامے شہرشہر، گاوں گاوں ، نگر نگر ، گلی گلی گھومتے رہے ۔انہیں یہ امید اور توقع ہی نہیں یقین تھا کہ پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے ملک کے محروم طبقات کو ایک آسر ا میسر آجائے گا ، ان کے چاک دامن سلنے لگیں گے ، زخموں پر پھاہا رکھا جائے گا ، ان کے حقوق اب انہیں مل جائیں گے اور وہ اب مٹھی بھر اشرافیہ ، سرمایہ دارطبقے اور جاگیرداروں ، وڈیروں اور بڑے بڑے زمینداروں کے استحصال سے نجات پا کر آزاد فضامیں سانس لے سکیں گے۔ان کی بے قراری کو قرار آجائے گالیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔

ان کی توقعات نقش برآب ثابت ہوئیں ۔عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر عوامی تحریک چلانے والے ذوالفقا ر علی بھٹو خود انہی استحصالی طبقات کا نمائندہ بن گئے ۔اور عوام سماج دشمن عناصر جن کے خلاف عوامی تحریک اٹھائی گئی تھی وہی لوگ بھٹو کے حلقہ بگوش ہوکر ان کے نفس ِ ناطقہ بن بیٹھے اور عوام کے حقیقی نمائند ے ، ان کے دکھ درد کے سانجھے دار آہستہ آہستہ پیچھے دکھیل دیے گئے معراج محمد خان بھی ان باغیوں میں سے تھے جنہوںنے حالات سے سمجھوتہ کرنے اور مفاد پرست ٹولے سے مفاہمت کرنے کے بجائے حالات کامقابلہ کرنے کو ترجیح دی ۔حالات کے جبر نے انہیں بھٹو کے نئے چہرے سے متعارف کروایا جو آمریت کے راستہ پر گامزن تھا۔ اب مصلحت اور مفادات کے جویا لوگ اس نئے بھٹو کے قریب تر ہوتے گئے وہ جو ظلم ،جبر، استحصال کی منفی قوتوں سے عمربھر نبرد آ زما رہے وہ اب راندہ درگاہ ٹھہرائے ۔

اکیلا معراج محمد خان ہی نہیں جے اے رحیم ،مختاررانا، ڈاکٹرمبشر حسن ،خورشید حسن میر ،محمود علی قصوری ، احمد رضا قصوری ایسے ان کے ابتدائی دور کے جانباز ساتھی اور کامریڈ مشق ستم کانشانہ بنے ۔لیکن آزمائش و ابتلا کے اس دور میں بھی وہ ثابت قدم رہے ، وہ اپنے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے ۔وہ جبر کی قوتوں کے آگے سپر انداز نہیں ہوئے بلکہ سینہ تانے کھڑے رہے ۔مشکلات، تکالیف اور مصائب وآلام کی آندھیاں چلتی رہیں لیکن انہوںنے حوصلے ، عزم اور استقلال کا دامن نہیں چھوڑا اور جرائت و استقامت کے چراغ کی روشنی کو مدھم نہیں ہونے دیا ۔وہ جس سیاسی نظام کے قیام کے لےے سرگرم تھے ، وہ جس منزل کے متلاشی تھے اور جس راہ کے مسافر تھے وہ بظاہر نظروں سے اوجھل تھی لیکن انہوں نے بھی دل نہیں ہارا اور تھک ہار کر بیٹھ نہیں رہے بلکہ چلتے رہے اور سفر جار ی رکھا ۔

پیپلزپارٹی سے علیحدگی کے بعد انہوں نے قومی محاذ آزادی کی بنیاد رکھی ۔یہ حقیقی بائیں بازو کی جماعت تھی جس کی جڑیں پورے ملک میں پھیل گئی تھیں ۔انہوں نے اپنی اس جماعت کو بھی منظم کرنے میں تمام توانائیاں صرف کردیں ۔ انہیں یہ غم اور دکھ تھا کہ بائیں بازو کی جماعتیںٹکڑیوں میں کیوں ہیں یہ ایک کیوں نہیں ہوجاتیں ۔لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی کہ مفادات کے بت اٹھائے بائیں بازو کی نام نہاد چھوٹی چھوٹی تنظیمیں کے کرتا ادھرتا اپنی اناوں کے حصار سے باہر آنے کو آمادہ ہی نہ تھے ۔آخر کار یہ جماعت بھی امتداد ِ زمانہ کی نذر ہوگئی ۔بعدازاں ایک عرصہ کے بعد سیاست کی وادیءپرخار میں جب ایک تازہ دم کھلاڑی کے طورپر عمران خان نے قدم رکھا اور اپنے عوامی خدمت کے جذبے سے آراستہ سوچ و فکر کے ساتھ استحصال، ناانصافی ، ظلم ، جبر ، لوٹ مار اور طبقاتی ناہمواری کے خلاف آواز بلند کی ، جغاری ، لوٹوں ، قرضہ ہڑپ کرنے والوں ، قومی خزانہ کو شیرمادر کی طرح ہضم کرنے والوں ، بد کردار اور بدعنوان سیاستدانوں کے مقابلے میں صاف ستھرے کردار کے حامل لوگوں کو دعوت دی تو روشن دماغ ، صاحب کردار و جہاندیدہ سیاست دان معراج محمد خان بھی اس نوجوان کی خواہش کے احترام میں اس کے ساتھ آملے ۔

جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے انہوں نے نئے جذبے کے ساتھ ملک بھر میں تحریک انصاف کا پھریرا لہرایا ۔اسے محروم طبقات کی جماعت کے طورپر متعار ف کروایا۔ وہ خلیج جو پیپلزپارٹی کی بے سمت قیادت کے باعث قومی سیاست میں پیدا ہوچکی تھی اسے تحریک انصاف کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کی۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ جماعت سیاست میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ۔ سیاست میں جواں خون، توانا جذبے کے ساتھ ساتھ جس تجربے ،تدبر ، فراست اور حکمت کی ضرورت ہوتی ہے وہ معراج محمدخان کی صورت میں قدرت نے عمران خان کو عطا کردی تھی ۔یہ ایک ایسا پیئر تھا جو ہر اعتبار سے مثالی اور قابل ِ رشک تصور کیاجاتا تھا ۔لیکن افسوس شائد اس کو طالع آزماوں کی نظر کھا گئی ۔عمران خان کی لاابالی طبیعت، آمرانہ سوچ اور جذباتی پن کی بناپر یہ جوڑی زیادہ دیر تک نہ چل سکی ۔ عمران خان کے مزاج کی اسی کمزوری اور افتادِ طبع نے اسے اپنے مخلص ساتھیوں اور مشکل اور ابتدائی وقت کے وفادار دوستوں سے محروم کردیا۔آج نہ فاروق امجد میر دکھائی دیتے ہیں ، نہ محمدجمیل ، نہ سعیداﷲخان نیازی ہیں ،نہ حفیظ خان ، نہ نسیم زہرہ دکھائی دیتی ہیں اور نہ شذرحسین ، نہ اکرم چوہدری ہیں نہ ظفر اﷲ خان، نہ محمود اعوان ہیں اور نہ ہی جسٹس ( ر) وجہہ الدین ان کے ہمراہ ہیں ،یہ وہ اصول پسند اور باکردار سیاسی کارکن تھے جنہوںنے عمران خان کی طرف سے نظام کی تبدیلی کے نعرے کواپنا کر اس کی انقلابی سوچ کا اس وقت ساتھ دیا ، اس کے دست وبازو بنے اور پوری جرائت و جوانمردی کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے جب سیاست میں نووارد ہونے کے باعث ان پر پھبتیاں کسی جاتی تھیں انہیں کھلنڈر ا بچہ کہا جاتا تھا ۔لیکن جب معراج محمد خان اور ان ایسی سوچ رکھنے والے یہ تما م سیاست داں عمران خان کی بدلتی ہوئی سوچ سے مفاہمت نہ کرپائے تو باوقارانداز سے الگ ہوگئے یوں ایک ایک کر کے سب مخلص ساتھی گنوا کرا ب ان کی جماعت باہنجھ پن کا شکا ر ہوچکی ہے۔یہی وہ وقت تھا جب تحریک انصاف زوال آمادہ ہوئی اس کی مقبولیت کاچاند گہنانے لگا۔آج عمران خان کے گرد جہانگیر ترین ، شاہ محمود قریشی ، عبدالعلیم خان ایسے ”نابغہ روزگار “ جمع ہوچکے ہیں جو عمران خان کے نظام کی تبدیلی کے نعرے کے برخلاف سٹیٹس کو کے حامی ہیں ۔ معراج محمد خان ایسی بے مثال شخصیت کو کھوکر عمران خان کو جو نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے مقابلے میں مفاد پرست ٹولے کو ساتھ ملاکر جو ہزیمت اورقیمت چکانا پڑ رہی ہے اس کا ابھی اسے اندازہ نہیں ہوپارہا کہ ابھی احساس کی تپش سے وہ کوسوں دور ہے ۔معراج محمد خان ایک خالص نظریاتی آدمی تھے ، حق گوئی و بے باکی ان کا شعار تھا ۔انہوں نے سیاست میں اپنی شاندار اور بے داغ اننگز کھیل کر خود کو امر کرلیا ہے اور وہ لوگ جنہوںنے عوامی خدمت کے برعکس سیاست۔ہم معراج محمد خان کو ان کی عظمت کردار پر سلوٹ پیش کرتے ہیں ۔جو حقیقی معنوں میں بانکپن اور اس کی آبرو تھے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے