تاریخی ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ تاریخ کے آئینے میں

برصغیر میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران ایک معاہدے کے نتیجے میں قائم ہونے والی (موجودہ )پاک افغان سرحد جسے اس معاہدے کے وقت’’ ڈیورنڈ لائن‘‘ کا نام دیا گیا تھا کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان شروع سے ہی ایک دوسرے سے مختلف موقف رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب گذشتہ ماہ پاکستان نے نئی پالیسی کے تحت اپنی بارڈر’’ مینیجمنٹ‘‘ سسٹم بہتربنانے کے لئے طورخم سرحد پر نیا گیٹ بنانے اور غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لئے باڑ لگانے کو کوشش کی اور قانونی سفری دستاویزات کے بغیر افغان باشندوں کے پاکستان میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ۔دونوں ممالک کی سیکورٹی فورسز نہ صرف پہلی بار باقاعدہ طورپر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوئیں بلکہ فائرنگ کاسلسلہ بھی شروع کیا جو مسلسل تین دن تک جاری رہا جس میں ایک پاکستانی میجر شہید ہونے کے علاوہ متعدد سیکورٹی فورسز کے متعدد اہلکار شدید زخمی بھی ہوگئے ۔

چونکہ پاکستان ڈیورنڈ معاہدے کے بعد وجود میں آیا اس لئے تب سے اب تک پاکستان کا یہی موقف ہے کہ اب طور خم سے وزیرستان تک کا علاقہ پاکستان کا حصہ ہے۔ لیکن افغانستان کا موقف اس سے مختلف ہے کہ چونکہ ڈیورنڈ کا معاہدہ ایک سو سال کے لئے تھا اس لئے 1993 میں ڈیورنڈ معاہدے کی مدت ختم ہو چکی ہے اس لیے اٹک تک کا علاقہ افغانستان کا اور اسے افغانستان کے حوالے کیا جائے۔اس صورتحال سے پاک افغان سرحد کو طویل عرصے متنازعہ بنایا گیا ہے اور جب بھی پاکستان نے اس علاقے میں گیٹ تعمیر کرنے یا سرحد پر باڑ لگانے کی کوشش کی تو افغانستان کی طرف سے انہیں مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا او ر اس مرتبہ تو یہ تنا زعہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ بات ایک دوسرے پر براہ راست فائرنگ اور جوابی فائرنگ تک جا پہنچی جو نہ مسلسل تین دنوں تک جاری ہے ۔

بعض تاریخی کتابوں اور حوالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ افغانستان جس علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اس پر دعویداری ظاہر کرکے اسے متنازعہ بنانے کو شش کرتا ہے اور جب مذاکرات شروع کرتا ہے تو جس علاقے پر دعویداری ظاہر کی ہو اس کا ایک چھوٹا حصہ لینے پر بھی یہ سوچ کرآمادہ ہوئے جاتے ہیں کہ اس جگہ کو قابوکرو اور آگے کی جگہ لینے کے لئے کوشش جاری رکھو۔تاریخی کی بعض کتابوں او ر حوالوں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈیورنڈ معاہدے سے قبل برطانوی دور میں افغانستان کے سرحد کی حد بند ی کے دوران افغانستان نے ہمیشہ اپنی حد تک محدود رہنے کی Indo-Afghan borderبجائے مختلف چالوں سے اپنی حدود سے تجاویز کی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج افغانستان بھارت کی ایماء پر پاکستان کے ساتھ مردہ گھڑے اکھاڑنے پر تلہ ہو ا مگر یہ آج صرف بھارتی حکومت ہی افغانستان میں بیٹھ کرپاکستان کے خلاف سازشیں نہیں کررہا بلکہ دنیا بھر میں مقیم بھارتی دانشور اورماہرین بھی پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہے

تاریخی مشاہدوں سے یہ بات سامنے آئی ہے ڈیورنڈ کا معاہد ایک سو سال بعد ختم ہونے کا شوشہ بھی برطانیہ میں مقیم ایک بھارتی پروفیسر نے چھوڑاتھا۔ڈیورنڈ معاہدے کے حوالے سے جب بعض تاریخی کتابوں اور حوالوں کا بغور مشاہدہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ تاریخ کی کتابوں میں ڈیورنڈ لائن کے معاہد ے میں ایک سو 100))سال کی مدت کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ۔ مورخین کے مطابق معاہدے میں سو سال کی موجودگی کی تھیوری برطانیہ میں مقیم ایک ہندوستانی پروفیسر ڈاکٹر سدھو نے پیش کی تھی۔ جبکہ اس کے برعکس ڈیورنڈ لائن کے معاہدے کے اصل ٹیکسٹ کے آرٹیکل 2 اور 3 میں لکھا گیا ہے کہ افغانستان سرحد کے اس پار کبھی مداخلت نہیں کرے گا ۔

ڈبلیو پی ایس سدھونے دعویٰ کیا تھا کہ ڈیورنڈ کا معاہدہ سو100)) سال کے لئے کیا گیا تھا اور 1993 میں یہ معاہدہ ختم ہوگیا ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ پیدا ہوتے ہی پروفیسر ڈاکٹر سدھو نے نٹ سے اپنی تمام میٹریل اور معلومات غائب کردی ہیں اس کے علاوہ ایک افغانی ڈاکٹر جی اوف روشن نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ 100 سال بعد ختم ہوچکا ہے اسی طرح ناگاساکی یونیورسٹی جاپان کے بھارتی پروفیسر ڈاکٹر

امیر عبدالرحمٰن خان
امیر عبدالرحمٰن خان

دیپک باسو نے بھی اپنی تھیوری پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح ہانگ کانگ کو 99 سال کی لیز پر دیا گیا تھا اسی طرح فاٹا اور خیبر پختونخوا کو بھی 99 سال کی لیز پر انگریزوں کو دیا گیا تھا۔ جو کہ لیز کا معاہدہ اب ختم ہوگیا تھا۔ مگر اس حوالے سے تاریخ کامشاہدہ کرنے سے پتہ چلاکہ افغانستان اوربرٹش انڈیا کے درمیان ہونیوالے معاہدوں میں کہیں پر بھی لیز کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ۔

یاد رہے کہ امیر عبدالرحمان کہ بیٹے حبیب االلہ خان نے اسمار کے خان طہماش خان کی بیٹی کے ساتھ منگنی کردی اور اس دوران رخصتی کے نام پر امیر عبدالرحمان کے وفاداروں نے جون 1892 میں اسمار کے علاقے پر قبضہ کرلیا تاریخی شواہد کے مطابق اسمار اس وقت باجوڑ ایجنسی کا علاقہ تھا۔ جب امیر عبدالرحمان نے اسمار پر قبضہ کیا تو موٹمرڈیورنڈاس وقت سیکرٹری خارجہ تھا۔ انہوں نے اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب کو خط لکھا کہ افغانستان نے باجوڑ پر قبضہ کرلیا ہے اور آپ سو رہے ہیں۔ اس دوران 26 جون 1892 کو وائے سرائے ہند نے امیر عبدالرحمان کو خط لکھا اور ان پر واضح کیا کہ جب تک افغانستان اسمار کا علاقہ کو خالی نہیں کرے گا اس وقت تک خطے میں امن قائم نہیں ہوگا ۔ بعدے میں مور ٹمیر ڈیورنڈ نے یہ علاقہ افغانستان کے حوالہ کردیا۔ اسی طرح افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان معاہدہ ڈیورنڈ پر دستخط کرنے کے لیے راستہ ہموار ہو گیا ۔

اسمارکو افغانستان کے حوالہ کرنے پر جندول اور دیر کے اُ س وقت کے حکمران عمرا خان ناراض ہوگئے تھے اور انھوں نے کھلے عام انگریزوں کی مخالفت شروع کی انھوں نے چترال میں کئی ٰ ایک انگریز فو جیوں اور افسروں کو گرفتار کر لیا جس پر انگریزوں نے ان کے خلاف فوجی کاروائی کی اور ان کا تختہ الٹ دیا ۔ اسی طرح تاریخی شواہد کے مطابق 1610 میل یا 2590 کلو میٹر طویل پاک افغان سرحد کی حد بندی نہ ہونے کا تاثر بھی غلط ہے کیونکہ اس طویل سرحد کی حدبندی کیلئے ایک نہیں بلکہ 3 کمیشن بنائے گئے تھے جن میں اسمار باؤنڈری کمیشن ٗ وزیرستان ۔بلوچستان سرحدی کمیشن اور بلوچ ۔افغان باؤنڈری کمیشن شامل تھے ۔اسمارباؤنڈری کمیشن میں انگریزوں کی طرف پشاورکے کمیشنر سر رچرڈ اور دنی جبکہ افغانستان کی طرف سے کمانڈر انچیف غلام حیدر خان اور دیگر عملہ شامل تھا جب مذکورہ کمیشن نے کرم ایجنسی وقت کے علاقے سی کرم پہاڑکے ٹاپ سے شروع کرکے کنڑ کے علاقے چندک تک حد بند ی کر نی تھی لیکن دونوں کمیشنر وں نے پھلے دیر، چترال اور باجوڑ میں حدبندی کی۔

کہا جاتا ہے کہ ڈیورنڈ کا معاہدہ 12 نومبر 1893 میں ہوا اس وقت دریا کنڑ کا سارا علاقہ چترال اور باجوڑ میں تھا مگر بعد میں افغانستان نے کنڑ کے سارے علاقے پر دعوۂ کیا ۔انگریز کمیشنر چونکہ عمرا خان سے ناراض تھا اسلئے انھوں نے معاہدہ ڈیورنڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یے علاقہ افغانستان کے حوالہ کیا اور اس طرح افغانستان کو 65 میل چوڑا اور 120 میل لمبا ء علاقہ دے دیا ۔اس دوران افغانوں نے مزید حد بندی سے انکار کرتے ہوئے تنازعہ کھڑا کردیا کہ پورا مہمندعلاقہ افغانستان کو دیا جا ئے انگریز مزید مراعات دینے کے لیے تیار نہیں تھا اور اسطرح مہمند ایجنسی حد بندی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ معاہدہ ڈیورنڈ کے تہد وزیرستان کا وسیع علاقہ یعنی بیرمل افغانستان کو دیا گیا جس پر قابل خیل قوم نے انگریزوں کو خط لکھاکہ ہمارا علاقہ افغانستان کو نہ دیا جائے۔ انگریزوں نے ان کے در خواستوں پر کوئی توجہ نہیں دی لیکن افغانی پھر بھی خوش نہیں ہوئے اور حد بندی کے دوران مزید علاقہ حاصل کیا وہ وانا پر بھی قبضہ کرنا چا ہتے تھےْ لیکن انگریزوں نے ایسا کرنے نہیں دیا ۔

اسی طرح یہ تاثر بھی غلط ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہونیوالا ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ انگریزی زبان میں تھا اور امیر عبدالرحمان انگریزی زبان کو نہیں سمجھتا تھا کہا جاتا ہے کہ معاہدے کے دوسرے فریق موٹمر ڈیورنڈ کو فارسی زبان پر خاصا عبور حاصل تھا وہ فارسی زبان بولنے اور سمجھتے تھے ۔ خود امیر عبدالرحمان کہتے تھے کہ جب سر موٹمر ڈیورنڈ افغانستان آئے تو ان کے ساتھ ان کی بات چیت فارسی زبان میں ہوتی ر ہی اور امیر عبدالرحمان ان سے بھت متاثر ہوئے ڈیورنڈ معاہدے کے بعد موٹمر ڈیورنڈ نے نہ صرف فارسی زبان میں تقریر کی تھی بلکہ معاہدہ فارسی اور انگریزی دونوں زبانوں میں تحریر کیا گیا تھا۔

یہ بھی تاثر پیدا کیا گیا کہ امیر عبدالرحمان کو ڈیورنڈ لائن معاہدے پر مجبور کیا گیا اور برطانیہ نے زبردستی معاہدہ کرایا حالانکہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ 1893 میں خودافغان امیر عبدالرحمان کی درخواست پر کرایا گیا بتایا گیا ہے کہ امیر عبدالرحمان نے 1888 میں اس وقت تاج برطانیہ ہند سے درخواست کی تھی کہ انہیں افغانستان کا سرحد بتایا جائے جس کا انگریزوں نے کوئی جواب نہ دیا تو امیر عبدالرحمان نے پھر درخواست کی جس کے بعدانگریزوں نے جنرل رابرٹ کو معاہدے کرنے مقرر کیا تو امیر عبدالرحمان نے اس وقت معاہے سے انکار کردیا کیونکہ وہ جنرل رابرٹ کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ دوسرے افغان برطانوی جنگ کے دوران جنرل تھا اس نے افغانستان میں غزنی کا قلہ کو تباہ کیا تھا اور سومنات کے جو دروازے محمود غزنوی افغانستان لائے تھے وہ جنرل رابرٹ واپس انڈیا لے کر گئے تھے اس لئے امیر عبدالرحمان جنرل رابرٹ کے ساتھ معاہدہ نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ امیر عبدالرحمان نے جنرل رابرٹ کی بر طانیہ کے واپسی کا انتظار کیا اور جب وہ واپس چلے گئے تو امیر عبدالرحمان نے برطانوی سامراج سے سرمورئمر ڈیورنڈ کو افغانستان بھجوانے کی درخواست کی اور اس کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے نام سے مشہور معاہدہ کیا جو آج تک اس نام سے یاد کیا جاتا ہے

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1919 سے قبل طور خم سرحد ڈھکہ کے پاس تھی مگر 1919 میں افغا نستان اور برطانیہ کے درمیان جنگ کے بعد مزید علاقہ افغانستان کے حوالہ کیا اور اس طرح سرحد طور خم کے قریب پہنچ گیا ۔انگریزوں نے افغانستان کو شمشی کنڈاو اور شمشی سر بھی د ے دیا۔ ان تمام حقائق سے پتہ چلتا ہے کے ڈیورنڈ معاہدے کے بارے مین زیادہ تر باتیں مفروظوں پر مبنی ہے۔ حقیقت میں افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کے معاہدے سے بہت فائدے اٹھائے ہیں۔ باجوڑ، چترال،د یر ۔ مہمند، اوروزیرستان کے کئی ایک علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

تاریخی مشاہدے کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ افغانستان نے ہمیشہ کبھی معاہدے اور حدبندی کی آڑ میں پیش قدمی کرکے اپنے علاقائی حدود سے تجاوز کی ہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاک افغان سرحد طورخم اس سے قبل افغان علاقے ڈھکہ کے پاس تھا بعد میں افغانستان نے پڑی چالاکی کے ساتھ آگے بڑھتے بڑھتے سرحد کو آج پاکستانی حدود کے اندر گھس کر طورخم سرحدقائم کیا مگر آج اس مقام پر بھی پاکستان کو مستقل سرحد ی گیٹ تعمیر کرنے او ر سرحد پر حفاظتی باڑ لگانے پر نہ صر معترض ہے بلکہ اس کی شدید مزاحمت کررہا ہے ۔جوکہ غیر حقیقت پسندانہ اور بلاجواز اعتراض ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان شروع ہونے والا سرحدی تنازعہ ختم ہوگا یا نہیں مگر اسی تنازعے کے تناظر میں جہا ں دونوں ممالک کے درمیانہ برادرانہ تعلقات او ر باہمی تجارت بری طرح متاثر ہورہی ہے وہا ں پاکستان میں مقیم تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو مزید برداشت نہ کرنے اور انہیں واپس افغانستان بھجوانے کے حوالے سے حکومت پاکستان اور یہاں کے عوام کے بدلتے ہوئے تھور سے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بھی غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں ۔دونوں برادرا سلامی ممالک کا مفاد اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کی خودمختاری اور آزادی کو تسلیم کریں باہمی تعلقات کو خراب کرنے کی بجائے مذید فروغ دیں کیونکہ دونوں ممالک کا امن ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں بھی امن قائم ہوگا اس لئے دونو ں ممالک مل کردہشت گردی اور امن کے قیام کی کوششوں کو آگے بڑھانا چائیے ۔

[pullquote]ڈیورنڈلائن معاہد کے اہم کردارسر مورتمر ڈیورنڈ کے والد سر ہنری میرئن (Marion) ڈیر اسماعیل خان میں دفن ہیں
[/pullquote]
برصغیر پر برطانوی راج کے دوران افغانستان کے ساتھ سرحد ی تاریخی معاہدے کے تحت آج کے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کے نام سے لکیر کھینچنے کر شہرت پانے والے سر مورٹمر ڈیورنڈ کے والد سر ہنری میرئن (Marion) خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈی آئی خان میں دفن ہیں۔ مورخین کے مطابق سرمورتمر ڈیورنڈ کے والد

ڈیورنڈلائن معاہد کے اہم کردارسر مورتمر ڈیورنڈ کے والد سر ہنری میرئن (Marion) ڈیر اسماعیل خان میں دفن ہیں
ڈیورنڈلائن معاہد کے اہم کردارسر مورتمر ڈیورنڈ کے والد سر ہنری میرئن (Marion) ڈیر اسماعیل خان میں دفن ہیں

سرہنری ڈیورنڈ کو 1892میں جب وہ اس وقت پنجاب کا گورنر تھے کو جنوبی ضلع ٹانک کے نواب نے دعوت دی تھی۔ نواب آف ٹانک کی مہمان نوازی کے دوران جب ٹانک کے نواب اور سرہنری ڈیورنڈ ہاتھی کی سواری سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک سر ہنری ڈیورنڈ ہاتھی سے گر کر جنہیں سرپر شدید چوٹ آئی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئے۔ بعد میں انہیں ڈیرہ اسماعیل خان میں سپرد خاک کر دیا گیااور آج تک وہ وہی پر دفن ہے۔

[pullquote]ڈیورنڈ لائن کے تاریخی معاہدے کے اصل ٹیکسٹ میں سو سال کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے
[/pullquote]
12نومبر1893کو طے پانے والے ڈیورنڈ لائن کے تاریخی معاہدے کے اصل ٹیکسٹ میں سو سال کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔معاہدے کے لئے سرموتمر ڈیورنڈ کو برطانوی حکومت نے کابل بھیجا تاکہ وہ افغان حکمران امیر عبدالرحمان کے ساتھ افغانستان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر سکے اور یوں 12نومبر1893کو ڈیورنڈ لائن کا تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔ اس مقصد کے لئے فریقین نے کرم ایجنسی میں کیمپ لگایا تھا جو کہ افغان صوبہ خوست کے قریب ایک چھوٹا علاقہ تھا جو کہ اب پاکستان کے قبائلی علاقہ کا حصہ ہے اس کیمپ میں انگریزوں کی طرف سے سرموتمر ڈیورنڈجبکہ مہمند ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے وائے سرائے ہندکی نمائندگی کی تھی جبکہ صوبہ خوست کے گورنر شیرین دل خان اور صاحبزادہ عبدالطیف نے امیر عبدالرحمان کی نمائندگی کی کہا جاتا ہے کہ نہ صرف ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ انگریزی اور فارسی دونوں زبانوں میں میں لکھا گیا تھا بلکہ معاہدے کے اہم کردار سر ڈیورنڈ کو فارسی زبان پر کافی عبور حاصل تھی اور معاہدے کے وقت سر ڈیورنڈ نے فارسی زبان میں تقریر بھی کی تھی لہذایہ تاثر غلط کہ امیر عبدالرحمان کو انگریزی زبان نہ سمجھنے کے باعث ان سے معاہد ے میں غلطی سر زد ہوئی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے