وفاقی شرعی عدالت کا اختیار ِ سماعت

جنرل محمد ضیاء الحق نے قوانین کو اسلامیانے کے عمل میں بنیادی طور پر توجہ، فوج داری قانون کی طرف دی۔ چنانچہ انھوں نے ایک طرف اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے حدود سزاؤں کے نفاذ کے لیے مسودۂ قانون تیار کروایا اور دوسری طرف تمام عدالت ہاے عالیہ میں ”شریعت بنچ “ بنائے، بعد میں ان شریعت بنچوں کو توڑ کر ایک ”وفاقی شرعی عدالت “ کی تشکیل کی اور اس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی سماعت کے لیے عدالتِ عظمیٰ میں ”شریعت اپیلیٹ بنچ “ بنایا۔ وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار سونپا گیا کہ جو قوانین اسلام سے متصادم ہیں ان کو وہ تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے ۔ دوسرا کام اس عدالت کا یہ ہے کہ حدود کے مقدمات میں یہ اپیلیٹ کورٹ کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ ان دونوں حیثیتوں میں وفاقی شرعی عدالت نے کئی اہم فیصلے سنائے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کے اختیارِ سماعت سے چار قسم کے قوانین باہر کردیے گئے ہیں: دستور، عدالتی طریقِ کار سے متعلق قوانین، مسلم شخصی قانون اور مالیاتی قوانین۔

ان میں آخر الذکر، یعنی مالیاتی قوانین، سے متعلق مدت پہلے دو سال تھی جسے بعد میں پانچ سال اور پھر دس سال کر دیاگیا۔ یہ مدت ۱۹۹۰ ء میں ختم ہوئی لیکن پالیمنٹ میں دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث اس شق میں حکومت ترمیم نہ کرسکیاور مدت میں اضافہ نہیں کیا جاسکا ۔ بہت سی درخواستوں کے ذریعے سودی قوانین کو شریعت سے تصادم کی بنیاد پر چیلنج کیاگیا۔ ۱۹۹۱ ء میں عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا جس کے تحت ان قوانین کو کالعدم قرار دے کر ان میں ترمیم کے لیے حکومت کو حکم دیا گیا اور قرار دیا کہ اگر چھ ماہ کی مدت میں ان قوانین کو شریعت کے مطابق نہ کیا گیا تو یہ ازخود ختم ہوجائیں گے۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی اور اس کے بعد تقریباً آٹھ سالوں تک اس کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔

۱۹۹۹ ء میں جب بالآخر اس کی سماعت شروع ہوئی تو حکومت نے کئی تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کیے، مثلاً بنچ کے ایک رکن (جسٹس خلیل الرحمان خاں ) کو وفاقی محتسب بناکر بنچ کچھ مدت کے لیے توڑ دیا گیا۔ حکومت نے عدالت میں درخواست بھی دائر کردی کہ وہ اپیل واپس لے کر وفاقی شرعی عدالت میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرنا چاہتی ہے، لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی۔ دسمبر ۱۹۹۹ ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کو ۳۰ ؍جون ۲۰۰۱ ء تک کی ڈیڈ لائن دے دی۔ جون ۲۰۰۱ ء میں حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ مدت میں مزید اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ عدالت نے مدت ۳۰؍ جون ۲۰۰۲ ء تک بڑھادی۔

جب وہ مدت پوری ہونے کو آئی تو یونائٹڈ بینک نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کردی۔ اس دفعہ عدالت نے نہ صرف اپنے پچھلے فیصلے کو ختم کردیا، بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو بھی ختم کرکے کیس واپس وفاقی شرعی عدالت میں بھیج دیا کہ وہ از سر نو اس کا جائزہ لے اور بعض نئے اٹھائے گئے سوالات پر بھی فیصلہ سنادے۔ تب سے چودہ سال ہوئے مگر آج تک اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی !

شخصی قوانین کا معاملہ اور بھی افسوس ناک ہے ۔ بھارت جیسے ملک میں بھی شخصی قوانین کی حد تک اسلامی شریعت کا لحاظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر پاکستان میں ایوب خان دور کے عائلی قوانین کی شریعت سے مطابقت معلوم کرنے کی اجازت عدالت کو نہیں تھی۔ ۱۹۸۰ ء میں پشاور ہائی کورٹ کے شریعت بنچ نے ان قوانین کا جائزہ لے کر اس کی دفعہ 4 کو شریعت سے متصادم قرار دیا۔ (مسماۃ فرشتہ کیسPLD 1980 Pesh 78 ) جب ہائی کورٹس کے شریعت بنچ ختم کرکے وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی تو اس کے دائرۂ سماعت سے ان قوانین کو باہر کردیا گیا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے چند فیصلوں کو بنیاد بناکر وفاقی شرعی عدالت نے طے کیا کہ وہ مسلم فیملی لاز آرڈی نینس ۱۹۶۱ء کا جائزہ لے سکتی ہے۔ چنانچہ عدالت نے ۱۹۹۳ء میں اس آرڈی نینس کے متعلق درخواستوں کی سماعت شروع کی۔ بالآخر دسمبر ۱۹۹۹ ء میں عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا جس کے تحت اس آرڈی نینس کی چند شقیں قرآن و سنت سے متصادم قرار دی گئیں۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کور ٹ میں اپیل کی گئی جس کی سماعت تاحال (یعنی سولہ سال گزرنے کے بعد بھی ) شروع نہ ہوسکی۔

باقی رہا دستوراور عدالتی طریق کار سے متعلق قوانین تو ان پر تو بات بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس سے کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوانین کو اسلامیانے کے سلسلے میں ہماری فوجی اور سول حکومتیں کتنی مخلص رہی ہیں !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے