قندیل کے پندرہ منٹ اور عبرت

ساٹھ کی دہائی سے اگر کینڈی کے قتل، ویتنام جنگ،مارٹن لوتھر کنگ کی سول رائٹس مومنٹ اور چاند پر انسان کے پہلے قدم رکھنے جیسے تاریخ ساز واقعات کو نکال دیا جائے تب بھی ان دس سالوں میں ایسا بہت کچھ ہوا جن کے اثرات نے آنے والے زمانوں کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا۔انٹر ٹینمنٹ اور میڈیا انڈسٹری کا عروج کا اصل آغازساٹھ کی دہائی میں ہوا۔کلاسیکل سینما سے جدید سنیما کی طرف سفر ہو یا جاز اور فولک میوزک سے پاپ اور راک اینڈرول کی طرف رجحان ساز تبدیلیا ں ، ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت ہویا پوپلر کلچر کی آرٹ مومنٹ میں شمولیت ،ان سب جدتوں نے ہر عمر کے لوگوں کو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے سحر کا شکار کرچھوڑا۔اتنے بہت سارے تفریحی میڈیمز کے وجود میں آنے سے اس زمانے کے تمدن میں بہت سے نئے اضافہ ہوئے جن میں ایک سلیبرٹی کلچر کی شروعات تھی۔بیٹلز سے لے کر ایلویس پریسلے اور الزبتھ ٹیلر سے لے کر مارلن منرو تک موسیقی اور فلمی دنیا کے دیوی، دیوتاؤں پر عزت،دولت اور شہرت چھپڑ پھاڑکر برسنے لگی۔

لاکھوں کروڑوں پرستاروں ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہنے سے لے کر ان کی ایک ایک ادا کو کاپی کرنا جدید لائف سٹائل کا تقاضا سمجھنے لگے۔ان کی سٹار ڈم(stardom) دیکھ کر ہزاروں نوجوانوں نے شوبز اور میڈیا انڈسٹری کو کیرئیر کے طوراپنانا شروع کردیا۔شہرت کے اس یوفوریا کودیکھتے ہوئے اس زمانے کے ایک چوٹی کے آرٹسٹ Andy Warhol نے پیشنگوئی کی کہ جلد ہی مستقبل میں ہر کوئی پندرہ منٹ کے لئے پوری دنیا میں مقبول ہوجائے گا۔یہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بہت پہلے کا دور تھا جب فلم میوزک اور سپورٹس انڈسٹری کے گنے چنے لوگ ہی سلیبرٹی کا رتبہ حاصل کرپاتے تھے اور اس کے لئے بھی ایک لمبا محنتی سفر اورسپر ٹیلنٹڈ ہونا درکار ہوتا تھا۔ لیکن آنے والے سالوں میں مین سٹریم میڈیا کے علاوہ بہت سارے میڈیم جیسے ٹیلی ویژن ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیامیدان میں آگئے جنہوں نے سلیبرٹی کلچر کو انگلیوں کی گنتی سے نکال کر آرٹسٹوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ ایورج ہو نے کے باوجودبھی رات و رات مشہور ہوکر وہ سٹیٹس انجوئے کریں جوپہلے برسوں کی جان توڑ محنت کے بعد بھی کسی کو نصیب نہیں ہوتا تھا۔

اس (transient fame)فوری شہرت نے لیکن اینڈی کی پیشنگوئی درست ثابت کر دی کیونکہ ان (instant celebrities) کی ایکسپائری ڈیٹ بہت تھوڑی تھی۔ایک اچھی فلم،گانے ، ویڈیو اور سکینڈل سے اچانک شہرت حاصل کرنے والے سٹا رکچھ ہی عرصہ بعد یاتوگمنامی کے اندھیروں میں جا گرتے یا پھر نشہ آور ادویات کا سہارا لے کر اپنی جان خود لے لیتے یا کوئی سر پھرا ن کوویسے ہی ٹپکا دیتا۔ایسے عروج و زوال کی بے شمار داستانوں سے شوبز انڈسٹر ی کی تاریخ بھری پڑی ہے۔اس کی بنیادی وجہ شوبز اور میڈیا انڈسٹری کے ہزاروں چینلزاور سٹوڈیوز کو ہر وقت تازہ خون کی ضرورت رہتی ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بیشترفنکار چند لمحوں کی لائم لائٹ اور دولت کے لئے ہمیشہ ایک کے بعد ان کا ایندھن بنتے رہتے ہیں۔لیکن طرف تماشہ یہ کہ جب بھی روبن ولیمز سے لے کر کوئی بھی لو لیول اداکار جب بھی کسی ناگہانی واقعہ کے نتیجہ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو اس مرنے والے سے ہمدردی کے پردے میں وہ مضمرات چھپا دئے جاتے ہیں جواس انجام تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

قندیل بلوچ کا پچھلے دنوں ہونے والا قتل اس کی تازہ مثال ہے۔ڈیرہ غازی خان کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی فوزیہ عظیم نے جب بس ہوسٹس کی نوکری چھوڑکر شوبز کی لائم لائٹ میں آنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگاکہ Instant celebrity بن کرحاصل ہونے والی شہرت اس کو اپنی قبر تک لے جائے گی۔ گانے کے اڈیشن کی ویڈیو وائرل ہونے سے لے کر اپنے سوشل میڈیا پیجز پر ایک کے بعد ایک بے حیائی کی حد عبور کرتی قندیل بلوچ نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ اس کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ سٹرپ ڈانس کی دعوت نظارہ اور مفتی قوی کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتی ماڈل کے تصور میں بھی نہ ہوگا کہ اس طرح کی سستی شہرت سے وہ تماش بینوں اور چسکے لینے والوں کے لئے تو شاید تفریح کا سامان تو بن جائے لیکن وہ کتنے سر پھروں کا اپنے گرد سرخ دائرہ لگوانے کا راستہ ہموار کر چکی ہے۔ایک انٹرویو میں بالی وڈ اور ہالی وڈ کو اپنی منزل قرار دینے والی قندیل کو شاید یہ اندازہ نہ ہورہا ہوکہ اس کے پندرہ منٹ پورے ہوئے ہی چاہتے ہیں۔ اس کا یہ بھول پن تھی یا معصومیت ،یا پھرسستی شہرت اور دولت کی تمنا جس نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی کہ وہ ایک کہ بعد ایک اخلاقی دیوار پھاندتی جارہی تھی ؟ میری رائے میںیہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں پاکستانی معاشرے کی منافقت کے اس قتل میں کردار کے ساتھ ڈھونڈنا چاہیے۔

ان سب سے قطع نظریقیناًقندیل کے بھائی کا جرم قابل گردن زنی ہے اور اس کو سزا بھی ملنی چاہیے لیکن کیا ماڈل نے جس تاریک راستہ کا انتخاب کیا اس کو مطعون کرنا گناہ ہے؟ شوبز اور لائم لائٹ کی بے رحم دنیا تو پتہ نہیں اور کتنوں کو کس کس طرح نگل گئی ہے ۔ ان اندھے کنوؤں نے نجانے کتنوں کوہضم کرلیا اور ظاہر تک نہ ہونے دیا، کیا اس خون آشامی پر سوال اٹھانا جرم ہے؟کیا لوگوں کا اس ظاہری چمک دمک کے پیچھے چھپی سفاکیت اور بے رحمی پر نظر ڈلوانا انصاف کا تقا ضا نہیں ہے؟کیا غیرت کے نام پر قتل ہی اس جرم کا پیش خیمہ تھا؟غرضماڈل کے قتل پر ہمدردی اور مذمت سے زیادہ ضروری ان سوالوں کا جواب ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقعہ سے عبرت بھی پکڑی جائے ورنہ پتہ نہیں اور کتنے نوجوان لڑکے لڑکیاں سستی شہرت اور دولت کے لئے ہوس کے پجاریوں اور میڈیا کی ریٹنگز کا ایندھن بننے کے لئے گھاٹے کا سودا کرتے رہیں گے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر مجرم کو سزا مل بھی جائے توبھی وہ جان واپس نہیں آئے گی جو شاید بس ہوسٹس بن کر رزق حلال کماتی رہتی تو اس پندرہ منٹ کی سفاکیت کا شکار ہونے سے بچی رہتی جس نے اس سے پہلے اور اس کے بعد نہ جانے کتنی قندیلیں کو وقت سے پہلے ہی زمین کا حصہ بنتی رہی ہیں اور شاید رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے