عوامی میڈیا کا دباؤ اوراظہارِ آزادی پر خطرناک حملہ

الیکٹرانک جرائم پر پابندی والے تکراری بل کی سینٹ سے منظوری کے بعد باشعور حلقوں میں پریشانی اور بے چینی پھیل گئی ہے۔ سول سوسائٹی تنظیموں اور انسانی حقوق کے نمائندوں کے احتجاج کے بعد حزبِ مخالف کے رہنماؤں نے ترامیم کروانے کی غرض سے تجاویز تیار کیں تھیں لیکن ان کو تہہ بالا رکھ کر بل کو عجلت میں منظور کیا گیا جس نے کئی خدشات کو جنم دیا ہے۔ بل میں مبہم اصطلاحیں استعمال کرتے ہوئے بھاری جرمانے اور حیرت انگیز سزائیں تجویز کیں گئیں ہیں۔ یہ عمل عوام کی اظہارِ آزادی پر حملہ اور نجی معاملات میں براہ راست مداخلت تصور کیا جا رہا ہے۔

انفرمیشن ٹیکنولاجی کے انقلاب نے پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اپنے پیر جمائے تو دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے کی شکل و صورت ہی تبدیل ہو گئی۔ سماجی روابط کے پلیٹ فارموں نے لوگوں کو غیرمعمولی حد تک ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کردیا۔ جان پہچان، روابط، تعلقات، تبادلہ خیال، بات چیت اور بحث مباحثوں نے ایک ایسی دنیا کو تخلیق کیا جس کا اس سے قبل کسی نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ رائے عامہ کی فوری تشکیل نے ناانصافیوں اور ظلم و جبر کے خلاف دباؤ کا دائرہ اتنا وسیع کیا کہ ریاست اوہ اس کے حصیدار اور خود غالب میڈیا (Mainstream Media) چونک گئے اور خوف زدہ ہوگئے۔ دراصل سماجی میڈیا کا یہی تاریخی کردار ہے جس کی وجہ سے مستقل مفاد گروہ ایسا کالا قانون لانے پر مجبور ہوا ہے تاکہ عام لوگوں کے اس تخلیقی، مثبت اور ترقی پسند کردار کا گلا دبایا جا سکے۔

گذشتہ ایک دہائی سے سماجی میڈیا کے بین الاقوامی سطح پر ادا کردہ کردار نے ریاستوں اور حکمرانوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔ حال ہی میں مصر میں عوام کے مشتعل سمندر نے جس طرح فوج کی مزاحمت کی اس کے پیچھے مرکزی کردار سماجی میڈیا ہی ادا کر رہا تھا۔ اس سے قبل بھی عالمی سطح پر ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں سماجی میڈیا نے لوگوں کو آگاہ، متحرک اور منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

میڈیا "کل” اور "آج” کا سفر کرکے "اب” تک پہنچا ہے۔ پرنٹ میڈیا گذرے ہوئے کل کی خبریں چھاپتا ہے۔ براڈکاسٹ میڈیا آج کی خبریں نشر کرتا ہے لیکن سوشل میڈیا وہ پیش کرتا ہے جو ہو رہا ہوتا ہے یا جس کو ہوتے ہوئے تھوڑا ہی وقت گذرا ہو۔ سماجی میڈیا کے تاریخ ساز کردار کے حوالے سے دو باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں: ایک رائے عامہ کی فوری تشکیل اور دوسری فوری فیصلہ سازی۔ کوئی بھی بات کچھ ہی لمحوں میں بیشمار لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ لوگ اس پر غوروفکر کرتے ہیں اوراپنی اپنی رائے دیتے ہیں. پھر اس پر بحث ہوتی ہے، اس کا ہر پہلو واضح ہوکر سامنے آتا ہے اور ہر کوئی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح عام لوگ خود سے متعلقہ معاملات کے فیصلے خود ہی کرتے ہیں جو بات کوئی بھی ریاست برداشت نہیں کر سکتی۔ اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کو بھی یہ بات قبول نہیں ہے۔ وہ خوفزدہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری بحث و مباحثے کسی بھی وقت کسی بڑے طوفان کو ہوا دے سکتے ہیں۔ لہاذا وہ چاہتی ہے کہ لوگوں کو ڈرا دہمکا کرایک خوف کے دائرے کے اندر رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کے سائبر قانون میں بڑی سختیاں برتی گئی ہیں۔

سوشل میڈیا ایک متبادل میڈیا بن پائے گا کہ نہیں لیکن یہ اپنے جوہر میں متبادل کردار ضرور ادا کر رہا ہے۔ یہ نہ صرف غالب میڈیا پر نظر رکھتا ہے لیکن اس کے لئے درست راستے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ جب غالب میڈیا کسی کا فریق بن جاتا ہے تو سماجی میڈیا درست راستے کا تعین کرتے ہوئے چھان بین کے بعد حقائق کو سامنے لاتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ اس (غالب میڈیا) کے مانیٹرنگ کا کام بھی کرتا ہے اور غلطی کرنے پر اس کا گھیرا بھی تنگ کرتا ہے۔ حال ہی میں جب محترم عبدالستار ایدھی کی قبرکی کھدائی کے متعلق ایکسپرس ٹی وی کی خبر (جس میں رپورٹر قبر میں لیٹ کر رپورٹنگ کرتے نظر آ رہا تھا) کے خلاف اتنا شدید احتجاج کیا گیا کہ انہیں فوراۤ معافی مانگنی پڑی۔ یہ سوشل میڈیا کا تخلیقی و تاریخی کردار ہے۔ سماجی میڈیا دراصل ایک بے روک بہاؤ ہے۔

سوشل میڈیا نے صحافت کی بنیادی روح کو چھوا ہے۔ یہاں وہ مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں جن کی غالب میڈیا نے گیٹ کیپنگ (Gate Keeping) کر رکھی ہے۔ اس نے اس گیٹ کیپنگ کا خاتمہ کردیا ہے۔ سماجی میڈیا پر لوگ ہی سب کچھ ہیں ـــ مدیر، تخلیقار، پیشکار۔ مختصر یہ کہ سماجی میڈیا نے ابلاغ عامہ (Mass Communication) کو صحیح طو پر عملی صورت دی ہے۔ حال ہی میں سانحہ ڈھرکی (ضلع گھوٹکی، سندھ) کی سازش کو جس طرح بے نقاب کیا گیا اور جس اندازسے ہندو بھائیوں سے یکجھتی اور بھائی چارے کا مظاہرہ کیا گیا وہ سماجی میڈیا کا مثبت، ترقی پسند اور انسان دوست کردار تھا۔

علاوہ ازیں، سماجی میڈیا جس طرح دھشتگردی، جرائم، کرپشن، ناانصافیوں اور ظلم و جبر کے خلاف کارآمد کردار ادا کر رہا ہے اس عمل نے حکمرانوں کے چھکے چھڑا دئے ہیں۔ وکی لیکس کے بعد پاناما لیکس کے انکشافات نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے کئی حکمرانوں کی نیندیں اڑا دیں۔ احتساب اور شفافیت کے لئے جو کردار سماجی میڈیا ادا کر رہا ہے وہ دیگر اداروں کے بس کی بات نہیں، ان کی جرئت و ہمت سے بالاتر ہے۔

حالانکہ ہر بل میں ہر اصطلاح کی سادہ تعریف بیان کی جاتی ہے لیکن اس بل کے مسودے میں مبہم و کثیرمعنی اصطلاحیں استعمال کی گئیں ہیں مثلاۤ "نفرت انگیز گفتگو”، "بدنیت ارادہ”، "خراب نیت” اور دوسری ایسی اصطلاحیں جن کی کوئی بھی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ بل میں مذہب، عدالتوں اور فوج پر آن لائن تنقید کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور خلاف ورزیاں کرنے والوں پر بھاری جرمانے اور بڑی سزائیں تجویز کی گئیں ہیں۔

13 اپریل 2016ء کو جس طرح معمولی اکثریت سے قومی اسیمبلی سے یہ بل پاس کروایا گیا، اسی طرح سینٹ سے بھی منظور کروایا گیا۔ اس قانون کے تحت مندرجہ ذیل نکات پر پابندی عائد کی گئی ہے: تصویر، ویڈیو یا الفاظ کی صورت میں کسی پر طنز کرنا، فیس بک پر بیہودہ ویڈیو شیئر کرنا، جنس، پیدائش یا حیاتیاتی اعمال کے متعلق گفتگو کرنا، بغیر اجازت کسی کو ٹیکسٹ میسج بھیجنا، کسی کو غیراخلاقی سرگرمی کرنے کے لئے مجبور کرنا یا بغیر اجازت کسی کی تصویر لگانا، کسی فرد کے خلاف غلط معلومات پھیلانا، حساس ڈیٹا انفرمیشن تک رسائی حاصل کرنا، وائرلیس یا سیل فون سیٹ میں کوئی تبدیلی کروانا، مذھب کے خلاف بات کرنا یا فرقیورانہ نفرت پھیلانا، کسی کی ذات کے متعلق معلومات جمع کرنا یا کسی کو بھیجنا، پرائویٹ طور پر فحش فلمیں دیکھنا، طنزیہ ٹوئیٹ پڑھنا، حقیقی ضرورت کے بغیر سم کارڈ کا استعمال کرنا، اسلام کی شان کے خلاف کوئی کام کرنا، دوست ممالک کے خلاف کوئی سرگرمی کرنا، منفی مقاصد کے حصول کے لئے کوئی آن لائین سرگرمی کرنا اور کسی غیرملکی اکاؤنٹ میں الیکٹرانک طریقے سے پئسے منتقل کرنا۔ مذکورہ تمام جرائم پرکروڑوں روپے جرمانہ اور لمبے عرصے کی سزائیں مقرر کی گئیں ہیں جن کی تفصیلات پہلے ہی میڈیا میں رپورٹ ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک رہائش پذیر کوئی بھی شخص اس قانون کی زد میں آ سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہاں یعنی پاکستان میں اس شخص کی مال وملکیت اور نظامِ معلومات یا ڈیٹا متاثر ہوں گے۔

قانون کے تحت ایک تفتیشی ادارہ قائم کیا جائے گا جو زد میں آنے والی معلومات اور ڈیٹا کا سائنسی تجزیہ کرے گا۔ یہ تجزیاتی رپورٹ کسی بھی گواہی کی صورت میں کسی بھی عدالت میں پیش کرنے کے لئے قابل قبول نہ ہوگی۔ تفتیش یا اس پر عدالتی کارروائی کا اختیار اسی ادارے کے پاس ہوگا، ایف آئی ای کے پاس محض ظاہری اختیاریات ہوں گے۔ سیکشن 45 کے تحت تفتیشی افسر کسی بھی شخص کا موبائل فون یا لیپ ٹاپ تحویل میں لے سکتا ہے جو بات کسی کے نجی معاملات میں جبری مداخلت ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کسی بھی شخص کی وضاحت سنے بغیر اس کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردہ مواد کو قابلِ اعتراض قرار دے سکتی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو اس قانون پر عملدرآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

قوانین، قواعد اور ضوابط بلاشک ضروری ہیں اور ان کی تشکیل اور ان پر عملدرآمد بھی ہونا چاہئے لیکن ان کے تشکیلِ عمل میں ان فریقوں (Stakeholders) کو بھی شامل کیا جائے جو اس کے نفاذ سے براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں سائبرجرائم کے حوالے سے بھی ضابطہ اخلاق اور قانون کی بلاشک ضرورت تھی لیکن وہ متعلقہ فریقوں کی مشاورت سے بننا چاہئے تھا نہ کہ آمرانہ انداز سے! شہری حقوق اور آئی ٹی انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈر گذشتہ چھ ماہ سے قوانین سازوں سے رابطے میں تھے۔ جب پہلی بار بل قومی اسیمبلی میں پیش کیا گیا تھا تو انہوں نے تب ہی اعتراضات کئے تھے۔ انہوں نے اپنی آراء اور تجاویز پیش کیں تھیں۔ آئین کی روشنی میں متبادل راستوں کی بھی نشاندہی کی تھی اور اس ضمن میں بین الاقوامی سطح پر کامیاب تراکیب سے مستفیض ہونے کا بھی مشورہ دیا تھا لیکن وزارت آئی ٹی نے سنی ان سنی کردی۔

حزبِ مخالف کے رہنما اعتزاز احسن، سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر شیری رحمان نے آٹھ ترامیم پیش کیں تھیں۔ اس طرح حزبِ مخالف کی جانب سے سینٹ میں کُل 55 ترامیم پیش کیں گئیں ہیں۔ جن پر غور کرنے کے بل کو واپس قومی اسیمبلی بھیجا گیا ہے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بل پر بہت زیادہ بحث ہو چکی ہے۔ یہ پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔ کئی اس کو ماضی میں نقصان پہنچانے اور تباہ کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔

اس بل کو جس انداز سے منظور کیا گیا اس نے اس خدشے کو بڑھاوا ملتا ہے کہ مستقبل میں یہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لئے استعمال ہوگا۔ مبہم اصطلاحوں کے استعمال نے اس بل کو مزید مبہم و مشکوک بنا دیا ہے۔ نامور ریڈیو جرنلسٹ وسعت اللہ خان اپنے کالم بعنوان "الیکٹرانک کرائمز بل” (18 اپریل 2015ء) میں لکھتے ہیں: "اگر کسی اچھے سے اچھے قانون میں بھی جرم کی عام فہم اور جامع تعریف کے بجائے زیرِ موضوع جرائم کا مبہم سا تعارف ہو تو پھر ایسا قانون بہترین نیت اور عزم کے باوجود کم عقل یا منتقم ہاتھوں میں دو دھاری تلوار بن جاتا ہے۔اور پھر یہ تلوار انھیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جنہوں نے یہ قانون خوش نیتی سے بنایا ہو۔اور ایک دفعہ کوئی دو دھاری قانون بن جائے تو اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جان چھڑانا کس قدر مشکل ہوجاتا ہے۔”

دراصل قوانین و ضوابط مسلط نہیں کئے جاتے، وہ رضاکارانہ طور پر قبول کئے جاتے ہیں۔ ان کے لئے لوگوں کی رضامندی لازم و ملزوم ہوتی ہے۔ پاکستان میں آزادئ صحافت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے نڈر صحافی محترم ضمیر نیازی کہا کرتے تھے کہ "ميں تجربے اور مطالعے کی بنياد پر اس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ ضابطہ اخلاق نام کی کوئی چيز ہی نہيں۔ اخلاق قانون کے ذريعے نافذ نہيں کيا جا سکتا۔ آپ قانون کے ذريعے کسی کو بداخلاقی کرنے سے روک نہيں سکتے، صرف ہمارا ضمير ہی ہميں ايسا کرنے سے روک سکتا ہے۔اخلاق کا تعلق انسان کی ذات سے ہے۔ اگر اس کا ضمير اس کے لئے آمادہ نہيں تو دنيا کا کوئی بھی قانون اس کو پابند نہيں بںا سکتا۔”

درحقیقت ٹیکنولوجی میں متبادل حل موجود ہیں۔ جیسا کہ یٗوٹیوب پر پابندی عائد کی گئی تو وہ دیگر طریقوں سے استعمال ہوتا رہا۔ اظہار کو دبانے سے وہ ردِعمل میں بڑے دباؤ اور دھماکے کے ساتھ مختلف شکلیں اختیار کرکے باہر آتا ہے۔ لہاذا ہونا یہ چاہئے تھا کہ سماجی میڈیا کے لئے ضابطہء اخلاق بنانے کے لئے متبادل راستے تلاش کئے جاتے۔ ان میں سے ایک طاقتور راستہ میڈیا لٹریسی ہے۔ جس کی عدم موجودگی کے باعث میڈیا نے کئی طرح کی گڑبڑ پیدا کی ہے۔ سماجی میڈیا کے صارفین میں سماجی میڈیا کے متعلق آگہی (Social Media Literacy) نہ ہونے کی وجہ سے اس کا غلط، ناجائز اور بے ڈھنگا استعمال ہوا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شہریوں کے آزادئ اظہار اور ان کے حقِ معلومات پر پابندی عائد کی جائے۔ بہتر یہی ہے کہ لوگوں میں آگہی پیدا کی جائے تاکہ وہ خود ذمہ دار بنیں اور اپنے لئے خود قواعد و ضوابط بنائیں۔ سوشل میڈیا لٹریسی نہ صرف لوگوں کو درست انداز میں اور ذمہ داری کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کا ہنر سکھاتی ہے لیکن ان میں بات چیت اور گفتگو کا تنقیدی تجزیہ کرنے کی قابلیت بھی پیدا کرتی ہے۔ باقی باضمیر، روشن خیال اور ترقی پسند معاشرے پابندیاں اور دباؤ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتے۔ عماد ظفر اپنے آن لائن کالم بعنوان "سائبر کرائم بل اور اظہارِ رائے کی آزادی” (آئی بی سی ـ 28 جولائی 2016ء) میں لکھتے ہیں: "آزادی رائے یا اختلاف رائے کو دبانے سے سناٹا تو طاری ہو جاتا ہے لیکن سناٹا قبرستانوں میں اچھا لگتا ہے زندہ معاشروں میں نہیں۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے