صرف بیان بازی کافی نہیں ہے…

دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے قبل اشتراکیت جو صرف زار کے روس تک محدود تھی ،آگ اور خون کے اس بھیانک کھیل کے خاتمہ کے بعد یورپ میں ہنگری اور جرمنی تک اور ایشیا میں دریا آمو تک اپنا استبدادی پنجہ گاڑ چکی تھی۔اس نظام کا سب سے بڑا علم بردار سویت یونین اب ایک تسلیم شدہ سپر پاور سمجھا جانے لگا تھا۔جس نے اپنے سارے وسائل اور توجہ باقی دنیا میں کمیونزم کی ترویج میں صرف کرنے کو ریاستی پالیسی ڈکلئیر کیا ہوا تھا۔کہیں خفیہ تو کہیں علانیہ امداد کی بدولت ہر خطہ میں کمیونسٹ پارٹیاں زور پکڑ رہی تھی۔جگہ جگہ یا تو اشتراکی انقلاب آرہے تھے یا آنے کی تیا ری کر رہے تھے۔چین میں ماؤ زے تنگ کی جدوجہد دنیا کے آبادی کے پانچویں حصے کواشتراکیت کے جھنڈے تلے لانے کے لئے آخری مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔ان حالات نے امریکہ اور برطانیہ( جو سرمایہ دارنہ نظام کے قلعے تصور کئے جاتے تھے) کے لئے بقا کی جنگ کی صورتحال پیدا کردی تھی، لیکن سویت یونین اور اس کا اشتراکی بلاک ایک ایسی حقیقت بن کر ابھرا تھا کہ بڑے بڑے مغربی جغادیر دانشور بھی پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔

شروعات میں امریکہ بہادر بھی (containment) یعنی سویت یونین سے کسی قسم کے سیا سی یا غیر سیاسی تصادم کی پالیسی سے گریز پر عمل پیرا نظر آتا تھا۔اسی زمانے میں جب مغرب اشتراکی خطرہ کے مقابلہ میں دفاعی پوزیشن اختیا ر کئے ہوئے تھا ،سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی۔ وہاں چرچل نےWestminister Collegeمیں ایک خطاب کیا جس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ہینری ٹرومین بھی اس موقع پر موجود تھے۔اس تقریر کی خاص بات پہلی دفعہ عالمی سطح کے لیڈر کی سویت یونین اور اس کے اشتراکی عزائم پر کھل کربغیر کسی لاگ لپیٹ کے شدید تنقید تھی۔چرچل نے خبردار کیا کہ اس اشترکیوں کو اگر کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا تو وہ مستقبل میں ہٹلر سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔مشرقی یورپ میں جو سویت بلاک وجود میں آچکا تھا اس کو آہنی پردہ سے تشبیہ دیتے ہوئے اس برطانوی سٹیٹس مین نے امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ برطانوی ایمپائر کے کمزور ہونے کے بعد اب یہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اشتراکیت کے مہیب خطرہ سے دنیا کو بچائے۔

چرچل کی اس تقریر نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔یہاں تک کہ سٹالن کو بھی اس کی مذمت میں سرکاری بیان جاری کرنا پڑا۔جہاں یہ تقریر پہنچی وہاں لوگوں کے کان اشتراکیوں کی عزائم کے خلاف کھڑے ہوتے گئے۔کچھ مورخین کی رائے میں چرچل کی یہ دبنگ تقریر سرد جنگ کے طبل کی حیثیت رکھتی ہے جس کے بعد روس اور مغرب علانیہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تھے ۔اس کے بعد چار دہائیوں تک دنیا دو بلاکس میں بٹی رہی ۔ایک کے بعد ایک تنازعے نے دنیا کے امن کا ستیا ناس کرکے رکھا۔فوجی بالادستی سے عالمی سیاست اور سفارت کاری تک،ہر خطہ میں پروکسی وارز سے لے کر میڈیا ،پروپیگنڈا اور ٹیکنولوجی کی میدان میں جب تک مغرب نے اپنے تمام وسائل اورہمت جھونک نہیں دئے تب تک وہ سویت یونین کے گھٹنے نہ ٹیکواسکا۔تنا زعات کوحل اور ختم کرنے کے لئے جس مستقل مزاجی اور جان فشانی کا مظاہرہ مغرب کی جانب سے کیا گیا وہ آج بھی تاریخ میں ایک زندہ مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔

ہماری ملکی تا ریخ بلکہ برصغیر کا سب سے زیادہ طو ل پکڑنے والا تنازعہ کشمیر ہے۔تقسیم کے وقت سے ہی کشمیر کا مسئلہ ہمارے لئے زندگی موت کا مسئلہ بنا ہو اہے۔ اس کے لئے ہم نے جنگیں لڑیں،مذاکرات کئے ، اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ، عالمی طاقتوں سے ثالثی کی فریاد کی ،لیکن ستر سال سے یہ تنازعہ جوں کا توں پڑا ہوا ہے۔بھارت کبھی دھوکہ دہی ، کبھی جھوٹ،کبھی عالمی بڑوں کی پشت پناہی سے اپنے ہٹ دھرمی پر قائم رہ کرکشمیر پر آج بھی قابض ہے۔عالمی ثالثی کی کوششوں سے مایوس ہو کر جب پاکستان نے جہادی گروہوں کے ذریعے کشمیر کی تحریک آزادی کو مہمیز دینے کی کوشش کی تو ایک دہا ئی بعد بدلتے عالمی منظرنامہ میں دہشتگردی کے خلاف عالمی رائے عامہ کو کیش کراتے ہوئے بھارت نے اس داؤ کو بھی الٹ کرکے کشمیر کا معاملہ دوبارہ سرد کر ادیا۔

کچھ عرصہ قبل جب برہان وانی کی شہادت کے بعد جب و ادی میں حالات دوبارہ کشیدہ ہونا شروع ہوئے تو یوں لگنے لگا کہ مردہ تحریک آزادی میں پھر سے جان پڑنے لگی ہے۔ حتی کی عالمی میڈیا اور امریکی دفتر خارجہ نے بھی کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرنا پڑا۔ اب سب کی نظریں پاکستان کی جانب لگی ہوئی تھی کہ اس بدلتی سچویشن کو کیسے اپنے موقف کے حق میں استعمال کرتا ہے۔حسن اتفاق یہ کہ انھیں دنوں سارک وزرائے داخلہ کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ہمارے وزیر داخلہ نے جس واضح انداز میں کشمیر کے ایشو کو اس کانفرنس میں اٹھایا اسکی جتنی تعریف ہو وہ کم ہے ۔

چوہدری صاحب نے نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی پر اپنا کیس بلڈ کیا بلکہ کشمیر ی تحریک آزادی اور دہشتگردی میں فرق اور اس معاملہ میں بھارتی پروپیگنڈہ کا پردہ بھی چاک کیا۔اس دبنگ بیان پر ان کے بھارتی ہم منصب تو احتجاجا کانفرنس ہی چھوڑ کر بھاگگئے لیکن عالمی اور بھارتی میڈیا پر چوہدری نثار کی اس تقریر کی باز گشت بہت دیر تک سنائی دیتی رہی۔بڑے ہی عر صہ بعد ہمارے ایک دیرینہ علاقائی مسئلہ پر اس طرح کی تقریر ہے تو قابل تحسین لیکن اگر دنیا کے سارے تنازعات تقریروں اور بیانوں سے حل ہو جاتے تو سب سے پہلے چرچل کی تاریخی تقریر پر سویت یونین زمین بوس ہو جاتی۔لیکن حقیقی دنیا میں بیان بازیوں سے بہت آگے جانا ہوتا ہے ۔

یہاں جنگ عظیم دوئم کے بعد کے مغرب کی طرح یہ سوچنا ہو تا ہے کہ وہ کون سی غلطیاں ہوئی جن کی وجہ سے ہٹلر نے آدھی دنیا کو خا ک اور خون میں نہلا دیا اور مستقبل میں سویت یونین کے معاملہ میں ان غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد کیا جاتاہے۔یہاں سیاست،ہتھیاروں،سفارت کاری ، ٹیکنولوجی اور کھیل تک ہر میدان میں مخالفین کا مقابلہ کر کے انھیں زچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہاں ایک پل میں دشمنی اور دوسرے پل میں دوستی کے راگ نہیں الاپے جاتے ۔یہاں براہ راست تصادم سے تو بچا جاتا ہے لیکن پراکسی وارز دھڑلے سے کی جاتی ہیں۔یہاں اپنے کیمپ میں موجود دشمن کے ہمدردوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جاتا بلکہ ان سے آہنی ہاتھوں سے نبٹا جاتا ہے۔یہاں ایک دن میں فتح کا خواب نہیں دیکھا جاتا بلکہ انتظار، اعصاب اور معیشت کی جنگیں لڑیں جاتی ہیں۔یہاں چند گھنٹوں میں یو ٹرن لے کر دہائیوں کی پالیسیوں سے انحراف نہیں کیا جاتا بلکہ مستقل مزاجی سے ماضی کی پالیسیوں کو مستقبل کے حساب سے ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔

کشمیر اور خطے کے بدلے حالات ہمارے لئے ایک سنہری موقع ہیں کہ ہم ماضی کی طرح وقتی جوش پر لبیک کہنے کی بجائے اس معاملہ میں ٹائم فریم کے حساب سے کوئی واضح پالیسی متعین کریں جس کو آنے والی حکومتیں بھی فا لو کرنے کی پابند ہوں۔ اس تنازعہ کے لئے یہ دبنگ بیان بازیاں ،اقوام متحدہ کو خطوط اور کل وقتی کشمیر کمیٹیاں سر درد کی گولیوں سے زیا دہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں جبکہ اصل ضرورت کینسر کے لمبے علاج کی ہے ، جب تک ہماری اشرافیہ یہ نہیں سمجھے گی اگلے ستر سال بھی یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔

ان سارے حالات کے تناظر میں حکومت کی گرم جوشی دیکھ کر یہ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ کشمیر میں جدوجہد کی اس تازہ لہر کو کچھ وقت گزرے گاتو ہمیشہ کی طرح کشمیر کو کشمیریوں پر چھوڑ کر ہم دوسرے زیادہ اہم کاروبار مملکت میں مشغول نہیں ہو جائیں گے اور کشمیر بنے گا پاکستان کا خواب صرف خواب ہی نہیں رہ جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے