آزادی کے جشن کے نام پر کیا ہورہا ہے؟

بھلے سار اسال قومی گیت نہ سنے ہوں، قومی پرچم نظر بھر کر بھی نہ دیکھا ہو، اگست شروع ہوتے ہی ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار امڈ آتی ہے ۔گلی محلوں پر تو پرچم ضرور لگتے ہیں لیکن سائیکل ، بائیکس ، کاریں ، چھوٹی بڑی گاڑیاں ، ٹرک ٹریلر ہر سواری ہی حسب توفیق مختلف سائز کے جھنڈوں سے سج جاتی ہے ۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر تو یہ اہتمام خاص طور پر ہوتاہے ۔ کاروں کے بیک مرر بڑے جھنڈے سے سجانا ، اور اب تو سفید اور سبز رنگ کا پینٹ بھی وطن سے محبت کی گواہی کے لیے کافی ہے ۔

وطن سے محبت اور حب الوطنی کا احساس بڑا ہی دلفریب ہے ۔جبھی تو سارا وطن جشن آزادی کے موقع پر ہرے رنگ میں رنگ جاتاہے ۔سوشل میڈیا پر اپنی ڈی پی ہرے جھنڈے کے بیک گراونڈو یا ہرے اور سفید کپڑوں میں ہی نظر آجاتی ہے ۔

ہر سوں سبز ہلالی پرچم سماں ہی بدل دیتے ہیں۔جشن آزادی کا خوشیوں میں شریک بچے ،بڑے ، بوڑھے مر دو خواتین سبھی کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے ۔زندہ قومیں اپنے قومی دن اسی جوش و جذبے سے منایا کرتی ہیں ۔ اور اچھا ہے کہ دنیا کو پاکستان سے بھی کوئی اچھی خبر جائے ۔

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے ۔لیکن اب یہ دیکھیے کہ قومی پرچم کے نیچےکیا کچھ ہو رہا ہے ۔باقی سب چھوڑ دیں ، اگر صرف سڑکوں پر ہی نکلیں اور ٹریفک کو ہی لے لیں تو اسی جھنڈے کے نیچے چھوٹی چھوٹی باتوں پر گالم گلوچ ، اور لڑائی جھگڑے ۔گاڑی غلط اورٹیک کر لی ، یا کسی سے آگے نکل گئے تو سائن لینگویج میں گالیاں ، جو آپے سے باہر ہوئے تو دست و گریباں ہوتے بھی وقت نہیں لگتا ۔موٹر سائیکلز پر اتنے بڑے جھنڈے لگا دئیے کہ پیچھے کون آرہا ہے کچھ دیکھائی نہیں دیتا ۔گاڑیوں پر قومی پرچم پینٹ کرا ر کھے ہیں ،بلند آواز میں انڈین میوزک بھی چل رہا ہے لیکن ٹریفک قوانین توڑتے تو منٹ بھی نہیں لگتا۔بار بار ہارن کی آواز کون سنے ؟

13 اور 14 اگست کی درمیانی شب فضائیں آتش بازی سے رنگ جاتی ہیں ۔تو سڑکوں پر جشن آزادی کا جنون بھی انتہاووں کو جا پہنچتاہے ۔نوجوان لڑکوں کی ون ویلنگ ہوتی ہے اور کاروں کے شیشے دروازے کھول کر قومی نغموں کی دھنوں پر رقص ، کوئی چوک یا چوراہا ایسا نہیں ہوتا جہاں یہ ہنگامہ خیز مناظر نہ ہوں ۔اور پھر وہ جشن کے نام پروہ طوفان بدتمیزی برپا ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔ آزادی کا پہلا زور دار احساس دلایا جاتاہےموٹر سائیکل اور کاروں سے سلنسر نکال کر ۔ پھر سجتی ہے موسیقی اور رقص کی محفل و ہ بھی بیچ بازار ، جس نے حصہ لینا ہو رضاکارانہ شرکت کرے ورنہ تماشائیوں کی بھی کمی نہیں ۔بلکہ یوں کہیے کہ بغیر کسی اعلان اور انعام کے لالچ کے ، ڈانس کا مقابلہ ہوتا ہے ۔خوب ہلہ گلہ ، پٹاخے ، شورو غل ، جو بس میں ہو کر گزرتے ہیں ، اور یہ جشن صبح تک کسی نہ کسی صورت چلتارہتا ہے ۔یہ بھول جائیں کہ اگر ایمرجنسی میں اس رش سے نکلنا پڑے تو کیا ہو گا ؟

جشن آزادی تو شایان شان طریقے سے ضرور منائیں لیکن یہ احساس سال کے تین سو چونسٹھ دنوں تک برقرار رہنا چائیے کہ ہم آزاد فضاووں میں سانس لے رہے ہیں ۔اس قومی پرچم کے تقدس کا تقاضا ہے کہ ہم وطن عزیز کے لیے کچھ ایسا کر جائیں کہ آزادی کی قیمت ادا کرنے میں ہمارا حصہ ڈل جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے