نیشنل ایکشن پلان کے ناخدا اور الزامات…

علم بشریا ت میں یہ بحث بڑی دلچسپ ہے کہ سب سے قدیم انسا ن مشرک تھے یا ایک خد ا کو ما نتے تھے ۔ بیشتر محقیقین کا یہ خیا ل ہے کہ انسا ن نے شرک سے تو حید کی طرف ارتقا ئی تر قی کی ہے جبکہ ابرا ہیمی مذ اہب کا دعو ی ہے کہ انسا ن فطرتا مو حد ہے اور شر ک اس کی مسخ فطر ت کی پید او ار ہے ۔ معلو م تا ریخ میں ہمیں جو مشرکا نہ مذا ہب ملتے ہیں ان میں تو دیوی دیو تا وں کی پو ری کہکشا ں رہی ہے ۔مو ت، زندگی، بارش، رزق ، اولا د،محبت ، نفرت ، امن جنگ اور ہر معلو م انسا نی فعل کے لئے علحیدہ خدا پھر ان کی بیو یا ں اور اولا دیں ، ان کی آپس کی لڑ ائیا ں ، ان سب نے شرک کو اپنے نا م لیو ا ہر معا شرے میں دیو ما لا ہی بنا چھو ڑا ہے۔اس کے مقا بلہ میں تو حید میں ایک خدا کا پا کیزہ تصور جس کے ذا ت ، صفا ت اور اقتد ار میں کو ئی شریک نہیں ہے نہ صرف ان خا میو ں سے پا ک تھا جنہو ں نے دیو ما لا کو با زیچہ اطفا ل بنا رکھا تھا بلکہ عین انسا نی عقل کے مطا بق تھا ۔ قر آن بھی انسا نی عقل کو اپیل کرتا ہے کہ ذر ا سو چو کہ اگر اس کا ئنا ت میں ایک سے زیا دہ خد ا ہو تو اس کا نظا م کیسے حسن ترتیب سے چل سکے گا ہر کو ئی اپنی من ما نی کر تا اور دوسرے کو نیچا دکھا نے کی اس پا ور سٹرگل (power struggle) میں سا ر انظا م درہم بر ہم ہو جا تا۔ شرک کے نا م لیو ا آج تک اس ا ستدلا ل کا جو اب پا ور شیرنگ کے کسی کلیہ سے نہیں دے سکے ۔

انسا نی معا شرہ چا ہے وہ قبیلہ کی صو رت میں ہو یا ریا ست کی شکل میں ان کی مینجمنٹ کے کچھ اصو ل رہے ہیں ۔ انسا نو ں نے اپنی معا شرتی ذمہ دا ریا ں ایک دوسرے میں با نٹ دی ہیں ، اگر ایک چپڑا سی ہے تو اس کی کسی حد تک اپنی کا م کے دائرے کا ر میں آزا دی (autonomy)ہوتی ہے یہ آزادی نہ صرف کا م کی بہتر ڈیلوری کے لئے بہت ضروری ہے بلکہ اس کو جو اب دہی کا پو را ذمہ دا ر ٹہرا تی ہے اسی طرح ہم جب اپنے اجتما عی معا ملا ت میں کسی کو اپنا نا خدا بنا تے ہیں تو حالا ت کو بہتر ی کی طر ف مو ڑنے یا خر ابی سے بچا نے کی کوشش کی پو ری زمہ داری اس نا خدا پر عا ئد ہو تی ہے لیکن اجتما ع کے معا ملا ت میں پیچید ہ ہو نے کی وجہ سے ان کو مینج کرنے کے لئے ادا رے وجود میں آئے پھر ان ادا روں کے درمیا ن پا ور شیرنگ کے بحرا ن پیدا ہونے لگے لیکن سیکھا یہی گیا ہے کہ ہنگا می حا لات میں اگر کسی ادارے کو اپنے مینڈیٹ سے زیادہ اختیا رات بھی سو نپے جا سکتے ہیں۔ طا قت اور اختیا ر ات کا کسی خا ص شخص یا اد ارے میں ارتکا ز کی حو صلہ شکنی بیشک انسا نو ں کو فر عو ن بننے سے روکنے میں معا ون ہے لیکن نا زک ایشوز کی ہینڈلنگ میں اس سے بچنے کی کو شش ان کے حل میں سب سے بڑی رکا وٹ ہے ۔

سال قبل آرمی پبلک سکول کے سا نحہ کے بعدفو جی اور سیویلین قیا دت نے اتفا ق رائے سے نیشنل ایکشن پلان کے نفا ذ کا فیصلہ کیا تھا ۔فو جی عد التو ں کے قیام ، سزائے مو ت کی بحا لی ، دہشتگردوں کے خلا ف بلا امتیا ز کریک ڈا ون ، کا لعدم دہشتگرد تنظیموں کے ما لی معا ونت کی ما نیٹرینگ، مدرسوں کی ریگو لیشن ،کر اچی میں سیا سی دہشتگر دوں کا قلع قمع، نفر ت انگیزی پر مبنی لٹریچر اور تقا ریر پر پا بندی ، موبا ئل سمو ں کی رجسٹریشن اور افغا ن مہا جرین کی اپنے وطن و اپسی جیسے اقدا ما ت اس پلا ن کا نما یا ں حصہ تھے۔ایک سا ل بعد ہم اسکے نتا ئج کا جا ئز ہ لیں تو اس کے نتا ئج اتنے حو صلہ شکن بھی نہیں ہیں ۔ دہشتگردی کے و اقعا ت میں نما یا ں کمی آچکی ہے ، کر اچی اور بلو چستا ن میں امن و اما ن کی صورتحا ل کئی سا ل بعد بہتر ہو ئی ہے، سزائے موت کے حکم پر عمل در�آمد جا ری ہے ، اکثر دہشتگرد تنظیموں کے نیٹ ورک تبا ہ ہو چکے ہیں ، نفرت انگیزی بھی بہت حد تک کنٹر ول میں ہے۔ان سب زمینی حقا ئق کے با وجو د کچھ ماہ پہلے کو ر کما نڈر کا نفرنس کے بعد آرمی چیف کا یہ بیان کہ ’ سول ادا روں کی گڈ گو رننس میں کمی کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان کے حا صل کیے گئے اہداف ضا ئع ہو سکتے ہیں ‘ دال میں کچھ کا لے کی نشا ندہی کرتا ہے۔اس کے ردعمل میں جو حکو مت کا بیا ن آیا کہ ادا رے اپنی حدود میں رہیں وہ ایک نئے سو ل ملٹری منا قشہ کی با ز گشت اپنے اندر لئے ہو ئے تھا۔ پھر کوئٹہ میں کچھ دن قبل جو سانحہ ہوا اس کے بعد سپہ سالار کی طرف سے یہ بیان آیا کی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے سے ضرب عذب متاثر ہو رہا ہے ‘۔اس بیان کے پس منظر میں مین سٹیریم سیاستدانوں کا اس سانحہ کا ذمہ دار سیکیورٹی اداروں کو بھی قرار دینا تھا ۔

ایک با ت تو طے ہے کہ اگر مسا ئل کی جڑ کو نہ اکھا ڑا جا ئے تویہ با ر با ر سر اٹھا تے رہتے ہیںیہا ں تک کہ یہ ان کے حل کر وا نے وا لے قبر وں میں پہنچ جا تے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت ریا ستی ادا روں کی ری سٹرکچرنگ کرنے میں کا میا ب نہیں ہو پا رہی ہے، خصو صا وہ سول ادارے جن کا بنیا دی فریضہ ا من و اما ن اور انصا ف کی فر اہمی ہے ان کے حا لا ت بدستور پتلے ہیں ، دہشتگر دی کے چیلنج سے نبٹنا تو دور کی با ت اپنے معمو ل کے فر ائض سے بھی عہدہ برا ہ ہو نے کے قا بل نہیں ہیں ۔ فو ج ایک پر وفیشنل ادا رہ ہے جس کی ذمہ اس ایکشن پلان کا زیا دہ تر بو جھ ہے ،ایک طرف تو فوج کو اپنے حدود میں رکھنے کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری جانب سارا ملبہ بھی اس پر ڈال دیا جاتا ہے ۔اچکزائی اور اس قبیل کے دوسرے سیا ستدانوں کے الزامات میں تھوڑا بہت سچائی اس وقت ہوتی جب پورا کنٹرول فوج کے ہاتھ میں ہوتا اب جب سول ادارے بھی اس میں انولو ہیں تو اس طرح کی ٹارگٹڈ فنگر پوائنٹنگ بے وجہ نظر آتی ہے۔ان الزام تراشیوں اور ذمہ داریوں کے ایک دوسرے پر ڈالنے سے نقصان صرف ملک اور قوم کا ہو رہا ہے ۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یا تو ہم حکومت سمیت ہر ادارہ فوج کے ہاتھ میں دے دیں یا پھر ایوان اقتدار کے ہر ستون کو دہشتگردی کے سد باب نہ ہونے کا قصور وار ٹہرائیں۔ کیونکہ یہ سچ سننے کی تو ہم میں جرات نہیں ہے کہ کشتی وہی منزل تک پہنچتی ہے جس کا نا خدا ایک ہوتاہے ۔ہم نے ناخدا بھی ہر کسی کو بنائے رکھنا ہے اور بلیم گیم بھی چلاتیرہنی ہے ۔یہ سب ساتھ ساتھ تو پھر نہیں چل سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے